Islam Times:
2025-05-31@18:44:36 GMT

بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی علاقائی حکمت عملی

اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT

بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی علاقائی حکمت عملی

اسلام ٹائمز: چین ہی کی مدد سے یا خود براہِ راست، پاکستان کو ایران کیساتھ اپنے معاملات سلجھانے چاہییں۔ میرے خیال میں، جتنا فائدہ ایران پاکستان کو دے سکتا ہے، اتنا شاید چین بھی نہیں دے سکتا۔ کیونکہ خود چین انرجی کے میدان میں ایران کا محتاج ہے۔ ایران کے پاس توانائی کے ذرائع موجود ہیں۔ تیل، گیس اور بجلی ہے۔ ہر چند کہ آج کل وہ خود بجلی کے بحران سے دوچار ہے، لیکن یہ قلت انرجی کی نہیں بلکہ پابندیوں کی وجہ سے ہے۔ تحریر: علامہ سید جواد نقوی

دنیا کے نقشے پر کچھ سرزمینیں صرف خطے نہیں ہوتیں، تہذیبوں کے سنگم، سازشوں کے نشانے اور طاقتوں کی رسہ کشی کا محور ہوا کرتی ہیں۔ پاکستان انہی میں سے ایک ہے۔ چار بڑے پڑوسیوں میں گھرا ہوا یہ ملک محض ایک جغفرافیائی وحدت نہیں بلکہ سوق الجیشی کا حامل قلعہ ہے۔ چین کی دوستی، ایران کی توانائی، افغانستان کی سرحدیں اور بھارت کی دشمنی ان چار دیواروں کے بیچ پاکستان کی بقا، ترقی اور خود مختاری کا راز پوشیدہ ہے، ایسے میں جب چین ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے، افغانستان و پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ایک نشست بھی ہوچکی ہے اور ہمارے وزیر خارجہ، جو نائب وزیراعظم بھی ہیں، انہوں نے بھی اس پر مثبت رائے کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کے چار پڑوسی ممالک ہیں، چین، ہندوستان افغانستان اور ایران۔ چین کیساتھ پاکستان کے تعلقات دوستانہ اور خوشگوار ہیں اور چین کو پاکستان کی اشد ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کے سیاستدان اور حکمران اس نزاکت کو صحیح طور پر نہیں سمجھتے۔ اگر انہیں اندازہ ہو جائے کہ پاکستان چین کیلئے کس قدر اہمیت رکھتا ہے، تو یہ چین سے کہیں زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم دوسری جانب امریکہ اور برطانیہ کے بھی غلام ہیں اور ساتھ ہی سعودی عرب کے بھی ماتحت۔ یہی وجہ ہے کہ چین کیساتھ جس درجے کے تعلقات ہونے چاہئیں، وہ نہیں ہو پائے۔ اگرچہ موجودہ تعلقات خوش آئند اور بہتر ہیں، لیکن پاکستان کی اسٹریٹجک پوزیشن کو دیکھتے ہوئے، اس سے کہیں مضبوط تعلقات ممکن تھے۔ چین کے ایک بڑے لیڈر نے کہا تھا کہ "پاکستان کی ہمارے لیے وہی حیثیت ہے، جو امریکہ کیلئے اسرائیل کی"، یعنی جیسے امریکہ اسرائیل کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا، ویسے ہی چین پاکستان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔

تاہم، پچھلی حکومت نے چین کیساتھ تعلقات کو شدید دھچکا پہنچایا، حتیٰ کہ ایک موقع پر باقاعدہ ناراضگیاں اور دوریاں پیدا ہوچکی تھیں۔ بعد ازاں ان تعلقات کو بحال کیا گیا اور اب صورتحال قدرے بہتر ہے۔ ایک پڑوسی سے دوستی کرکے تین پڑوسیوں سے دشمنی کرنا کوئی دانشمندی نہیں۔ افغانستان نے پاکستان کو ہندوستان سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ہر پہلو سے پاکستان کو زک پہنچائی ہے۔ موجودہ دہشتگردی کی سرپرستی کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ وہ افغان نہیں، جو پاکستان کے مخالف تھے، بلکہ یہ وہ طالبان ہیں، جو پاکستان کے پروردہ ہیں۔ ان کا ایک ایک سیل پاکستان میں تیار ہوا، لیکن ہمیشہ کی طرح وقت آنے پر وہ پاکستان کے دشمن بن گئے۔ پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ دو محاذ نہ کھولے۔ طالبان سے شکوہ و شکایت بجا ہیں، لیکن جس طرح ہندوستان کو بھرپور جواب دیا گیا، اسی طرح کا جواب افغانستان کو بھی دینا چاہیئے تھا۔

بعض ذمہ داران کی جانب سے کئی بار اس بات کا اظہار کیا گیا کہ ہم دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر افغانستان کے اندر حملے کریں گے اور علامتی طور پر ایک دو حملے کیے بھی گئے، لیکن پھر بعض افراد محض کوششیں کرتے رہے، عملاً کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ وہ کسی سمجھوتے کی سعی میں مصروف رہتے ہیں، مگر افغانیوں کی طرف سے کوئی مثبت ردعمل موصول نہیں ہوتا۔ پہلی مرتبہ یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ افغانستان کیساتھ پاکستان کے تعلقات کسی حد تک بہتر ہوسکتے ہیں اور افغانستان کی جانب سے جو مشکلات ہیں، انہیں کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب چین کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ چین نے عندیہ دیا ہے کہ سی پیک کا دوسرا مرحلہ، جس میں پاکستان کیساتھ افغانستان کو بھی شامل کیا جائے گا، زیرِ غور ہے۔ یہ ایک سوچ، ایک آئیڈیا اور منصوبہ بندی کا حصہ ہے، جس پر کام ہو رہا ہے۔ پاکستان نے اس منصوبے کو قبول کیا ہے اور چین، افغانستان کو اقتصادی ترغیبات دے کر اسے پاکستان کیساتھ مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔

بہرکیف، یہ ایک بہترین حکمتِ عملی ہے کہ افغانستان کو کسی نہ کسی طرح اعتماد میں لیا جائے، اس کیساتھ مفاہمت یا معاہدہ کیا جائے، تاکہ دہشتگردی کا سدباب ممکن ہوسکے۔ یہی طریقہ ایران کیساتھ بھی اپنانا چاہیئے، کیونکہ پاکستان اور ایران کے تعلقات کی نوعیت بھی اہم ہے۔ بھارت کی نظریں دونوں پڑوسیوں، یعنی ایران اور افغانستان (طالبان) پر ہیں۔ بھارت طالبان میں کافی حد تک رسوخ حاصل کرچکا ہے۔ طالبان بھارت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جنگ کے زمانے میں، جب سات مئی کو جنگ شروع ہوئی اور دس مئی تک جاری رہی، انہی دنوں افغانستان کی سلامتی کونسل کے سربراہ نے خفیہ طور پر بھارت کا دورہ کیا اور وہاں کے دفاعی مشیروں سے ملاقات کی۔ یہ بات پاکستانی ذرائع ابلاغ اور اخبارات میں بھی رپورٹ ہوچکی ہے۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ افغانستان نے اس جنگ میں بھارت کا ساتھ دیا۔ وہ کھل کر بھارت کیساتھ کھڑے ہوئے اور ان کے حق میں بیانات بھی دیئے۔ دو ممالک واضح طور پر بھارت کیساتھ کھڑے ہوئے۔ ایک اسرائیل اور دوسرا طالبان۔ انہوں نے کسی قسم کا لحاظ نہیں رکھا۔ دوسری طرف ایران ہے۔

ظاہر ہے کہ بھارت کے ایران کیساتھ تعلقات، پاکستان کی نسبت بہتر ہیں۔ ایران اور بھارت کے درمیان تجارت بھی ہے، معاہدے بھی ہیں، سیاسی و اقتصادی روابط بھی بہتر ہیں اور دیگر معاملات میں بھی وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ باوجود اس کے کہ نظریاتی لحاظ سے بھارت، ایران کے مقابل ہے، کیونکہ بھارت اسرائیل کا اتحادی ہے، لیکن علاقائی مفادات کے تحت ایران، اپنی مشکلات کے پیش نظر، بھارت کو رعایت دیتا ہے۔ بھارت ایران کیساتھ معاہدے بھی کرتا ہے اور امریکہ سے اقتصادی پابندیوں میں چھوٹ بھی حاصل کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، بھارت اس وقت ایران سے تیل خرید رہا ہے اور امریکہ نے اسے اس پر روکا نہیں، کیونکہ بھارت نے یہ چھوٹ پہلے سے لے رکھی ہے۔ اسی طرح چاہ بہار بندرگاہ اور دیگر معاملات میں بھی بھارت کو ایران کی جانب سے خصوصی رعایتیں حاصل ہیں۔

بھارت کی کئی دلچسپیاں ہیں، لیکن اس کی سب سے بڑی دلچسپی یہ ہے کہ اگر ایران کیساتھ تعلقات درست کیے جائیں، تو ایران اکیلا نہیں رہے گا، بلکہ افغانستان بھی بھارت کا دوست بن جائے گا، اور اس طرح پاکستان کا مکمل محاصرہ ممکن ہو جائے گا۔ صرف چین باقی رہ جائے گا، جبکہ چین کیساتھ پاکستان کی کوئی بڑی، کھلی اور آزاد میدانی سرحد نہیں۔ ایک پہاڑی درہ ہے، جہاں سے گزر کر پاکستان اور چین کے درمیان راستہ قائم ہوتا ہے۔ باقی ایسی کوئی سرحد موجود نہیں، جیسی سرحدیں پاکستان ایران، افغانستان یا بھارت کیساتھ رکھتا ہے، یعنی میدانی، دریائی اور زمینی رابطے۔ لہٰذا بھارت کی پوری کوشش ہے کہ ایران کو اعتماد میں لے اور ایران کے ذریعے افغانستان کو سپورٹ کرے، جیسا کہ اس نے کیا بھی ہے۔ بھارت نے پاکستان سے افغان تجارت ختم کروا دی ہے، تاکہ پاکستان افغان ٹرانزٹ روٹ نہ بن سکے اور اس کے بجائے ایران کو یہ کردار ملے۔

بھارت نے چاہ بہار بندرگاہ بھی اسی مقصد کیلئے حاصل کی ہے۔ درحقیقت، بھارت کو چاہ بہار کی ضرورت اپنے لیے نہیں بلکہ افغانستان کے لیے ہے، کیونکہ یہی واحد بندرگاہ ہے، جو افغانستان کے قریب واقع ہے اور اس بندرگاہ کے ذریعے وہ افغانستان کو متبادل راستہ دے کر پاکستان کا محاصرہ مکمل کرنا چاہتا ہے۔ جس طرح ہمارے سفارتکار چین کی مدد سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہوں اور چین نے اس حوالے سے پیشکش کی ہے، جسے پاکستان نے سراہا ہے، اسی طرح چین ہی کی مدد سے یا خود براہِ راست، پاکستان کو ایران کیساتھ اپنے معاملات سلجھانے چاہییں۔ میرے خیال میں، جتنا فائدہ ایران پاکستان کو دے سکتا ہے، اتنا شاید چین بھی نہیں دے سکتا۔ کیونکہ خود چین انرجی کے میدان میں ایران کا محتاج ہے۔

ایران کے پاس توانائی کے ذرائع موجود ہیں۔ تیل، گیس اور بجلی ہے۔ ہر چند کہ آج کل وہ خود بجلی کے بحران سے دوچار ہے، لیکن یہ قلت انرجی کی نہیں بلکہ پابندیوں کی وجہ سے ہے۔ ان کے بجلی پیدا کرنیوالے پلانٹس پابندیوں کی بنا پر فعال نہیں، اس لیے یہ ایک وقتی بحران ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران کے پاس بجلی موجود ہے، جبکہ پاکستان میں بجلی، پٹرولیم، کیمیکلز اور گیس کی کمی ہے۔ یعنی بنیادی انرجی کے حوالے سے پاکستان کو شدید ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ہم افسانوی راستے تلاش کرتے ہیں، جیسے افغانستان سے سرنگیں لگائیں گے، یا کبھی قازقستان سے گیس لائیں گے، کبھی آذربائیجان سے، کبھی کسی اور سے۔ لیکن یہ سب دور دراز کے خواب ہیں۔ جب پڑوس میں ایران موجود ہے، جہاں ہمارے ساتھ معاہدے بھی ہیں اور ہم خود ان معاہدوں کے پابند بھی ہیں، تو وہاں سے انرجی کیوں نہ لی جائے؟

صرف اپنے سیاسی معاملات درست کر لیں۔ ایران کا بھی مفاد اسی میں ہے۔ ایران اور پاکستان کی مشکلات ایک جیسی ہیں، دونوں دہشت گردی کی زد میں ہیں، دونوں کو ایک جیسے مسائل درپیش ہیں، دونوں پابندیوں کے زیر اثر ہیں تو ایک مشترکہ اتحاد وجود میں آسکتا ہے۔ ایران اور پاکستان دونوں کے چین کیساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ جب یہ طے ہے کہ بھارت پاکستان کا دشمن ہے، تو مودی کی موجودگی میں ہندوستان کیساتھ نہ دوستی ممکن ہے، نہ معمول کے تعلقات۔ مودی پاکستان کیلئے نیتن یاہو بنتا جا رہا ہے اور اس نے وہی عزائم اپنا لیے ہیں، جو اسرائیل نے اپنے دشمنوں کیخلاف اپنائے۔ لہٰذا پاکستان کو مستقبل میں ہر پہلو سے تیار رہنا ہوگا کہ اگر مودی اقتدار میں ہے تو پاکستان میں امن نہیں آسکتا۔ پاکستان کیلئے امن صرف اس وقت ممکن ہے، جب افغانستان، ایران اور چین کی طرف سے بھی امن ہو، تاکہ صرف ایک سرحد پر دشمن کا سامنا کرنا پڑے۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے سیاسی اور عسکری قائدین ان شاء اللہ سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کریں گے۔ صحافی : تصور حسین شہزاد

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: افغانستان کے افغانستان کو ایران کیساتھ افغانستان کی کہ افغانستان سے پاکستان چین کیساتھ پاکستان کے کہ پاکستان پاکستان کی پاکستان کو ایران اور نہیں بلکہ کے تعلقات کہ بھارت بھارت کی ایران کی ایران کے بھارت کو سکتا ہے اور چین بھی ہیں ہیں اور دے سکتا جائے گا ہے اور رہا ہے چین کی اور اس

پڑھیں:

امریکا اور ایران جوہری پروگرام معاہدے کے قریب ہیں، ہم نے پاکستان اور بھارت کو جنگ سے روکا، ڈونلڈ ٹرمپ

اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کیساتھ تجارت نہیں کرسکتے، جو ایک دوسرے پر گولیاں برسا رہے ہیں۔ امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ امریکا کسی سے بھی بہتر لڑ سکتا ہے، ہمارے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ہم نے پاکستان اور بھارت کو جنگ سے روکا ہے۔ اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاک بھارت کشیدگی جوہری تباہی کا باعث بن سکتی تھی، جنگ بندی پر پاک بھارت رہنماؤں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کے ساتھ تجارت نہیں کرسکتے، جو ایک دوسرے پر گولیاں برسا رہے ہیں۔ امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ امریکا کسی سے بھی بہتر لڑ سکتا ہے، ہمارے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ جلد ہوسکتا ہے، امریکا اور ایران جوہری پروگرام معاہدے کے قریب ہیں۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ چینی صدر شی جن پنگ سے تجارت اور ٹیرف پر بات کروں گا، امید ہے کہ تجارت اور ٹیرف پر امریکا چین اختلافات دور ہو جائیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ غیر ملکی طالب علموں کو فی الحال امریکا سے نہیں نکال رہے، ہارورڈ یونیورسٹی کے ساتھ لڑائی کے باوجود چاہتا ہوں کہ غیر ملکی طلباء یہاں تعلیم حاصل کریں۔

متعلقہ مضامین

  • مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟
  • بھارت میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے واقعات تشویشناک، علاقائی استحکام کیلئے خطرہ ہیں:پاکستان
  • امریکا اور ایران جوہری پروگرام معاہدے کے قریب ہیں، ہم نے پاکستان اور بھارت کو جنگ سے روکا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • براڈکاسٹرز کا اجلاس، الیکٹرانک میڈیا انڈسٹری کے چیلنجز،لائحہ عمل پر غورشرکاء کا انڈسٹری کو درپیش مسائل کے حل کےلئے اجتماعی حکمت عملی اورمل کر چلنے پر اتفاق
  • پاکستان‘ ایشیائی بنک کا کاربن مارکیٹس کو سبز ترقی کے افق پر اپنانے پر اتفاق 
  • افغان طالبان کمانڈر کا بیان
  • پی ٹی آئی میں کشمکش ، حکمت عملی کا فقدان ہے اور ورکرز میں لاوا پک رہا ہے،سنیئر رہنما شوکت یوسفزئی
  • غزہ کی تباہی قدرتی نہیں انسانوں کی پیدا کردہ ہے، فلسطینیوں کی نسل کشی کو عملی طور پر روکنا ہوگا: عاصم افتخار
  • پارٹی میں حکمت عملی کا فقدان نظر آرہا ہے: شوکت یوسف زئی