’یہ غزہ نہیں اسرائیل ہے‘، ایرانی حملوں سے پھیلی تباہی کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی بدستور جاری ہے۔ ایران کے اسرائیل پر حملے جاری ہیں جس سے بھاری نقصانات کی اطلاعات ہیں۔ ایران نے اسرائیل پر آج صبح بھی تازہ حملے کیے ہیں۔ اسرائیل کا دفاعی نظام کئی میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہا۔ تازہ میزائل حملے کے بعد اسرائیل میں متعدد مقامات پر شدید نقصان ہوا ہے جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں اور سوشل میڈیا صارفین اسرائیل کا موازنہ غزہ سے کر رہے ہیں۔
ایک صارف نے اسرائیل میں ہونے والی تباہی کے بعد ملبے کے ڈھیر کی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ غزہ نہیں اسرائیل ہے۔
NOT GAZA, BUT ISRAEL pic.                
      
				
— Muhammad Smiry ???????? (@MuhammadSmiry) June 19, 2025
آدم نامی صارف نے لکھا کہ جب اسرائیل نے غزہ میں پہلے اسپتال پر بمباری کی، تو دنیا نے یقین نہیں کیا اور اسرائیل نے اس کا الزام حماس کے ایک ناکام راکٹ پر ڈال دیا۔ اب انہیں شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں۔
When lsraeI bombed the first hospital in Gaza, the world wouldn’t believe it and Israel blamed a misfired rocket from Hamas.
lsraeI has now destroyed all 36 hospitals in Gaza including its largest, the al-Shifa Hospital.
They have no right to complain.
 pic.twitter.com/JZHhDeaPCk
— ADAM (@AdameMedia) June 19, 2025
ایک سوشل میڈیا صارف نے ایران کی جانب سے اسرائیل پر کیے جانے والے تازے حملے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ایک ایرانی بیلسٹک میزائل نے تل ابیب اسٹاک ایکسچینج کی عمارت کو نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں شدید نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کا مالیاتی مرکز اب کھنڈر بن چکا ہے۔
BREAKING:
An Iranian ballistic missile struck the Tel Aviv Stock Exchange building, causing severe damage.
The heart of Israel's financial hub now lies in ruins. pic.twitter.com/NvnosnjK9Y
— Current Report (@Currentreport1) June 19, 2025
ایک صارف نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ غزہ نہیں ہے اور یہ چیخیں بھی فلسطین کی نہیں ہیں۔
یہ غزہ نہی ہیں اور یہ چیخیں بھی فلسطین کی نہی ہیں pic.twitter.com/Iuoj5FEHrt
— RAShahzaddk (@RShahzaddk) June 14, 2025
عمران شاہین لکھتے ہیں کہ اسرائیل نے غزہ میں تمام اسپتالوں پر یہ الزام لگا کر بمباری کی کہ وہاں حماس کے مسلح جنگجو چھپے ہوئے ہیں۔ اب ایران نے اسرائیل کے اسپتال جہاں اسرائیلی فوجی پناہ لیے ہوئے تھے کو ڈائریکٹ نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیل نے غزہ میں تمام ہسپتالوں پر یہ الزام لگا کر بمباری کی کہ وہاں حماس کے مسلح جنگجو چھپے ہوئے ہیں.
اب ایران نے اسرائیل کے ہسپتال جہاں اسرائیلی فوجی پناہ لئے ہوئے تھے کو ڈائریکٹ نشانہ بنایا ہے.
بزدل یہودیوں کی چیخ و پکار سننے کے قابل ہے. pic.twitter.com/KXwPxedjXG
— عمران شاہین (@imshee67) June 19, 2025
ایک صارف نے لکھا کہ غزہ کے اسپتالوں پر بم برسانے والے اسرائیل کے اسپتالوں پر آج بم برس رہے ہیں۔
الحمدللہ
غزہ کے ہسپتالوں پر بم برسانے والے اسرائیل کے ہسپتالوں پر آج بم برس رہے ہیں۔۔۔۔ pic.twitter.com/OzYx7jq7Jt
— Khawaja Yaseen Usmani (@YaseenUSM_Offl) June 19, 2025
واضح رہے کہ ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے میزائیلوں نے اسرائیل کی حساس ترین انٹیلی جنس تنصیبات، موساد ہیڈکوارٹرز، اسرائیلی آرمی کی انٹلیجنس ایجنسی امان اور یونٹ 8200 کے کمپاؤنڈ کو براہِ راست نشانہ بنایا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: نشانہ بنایا ہے نے اسرائیل سوشل میڈیا اسرائیل نے اسرائیل کے ایران نے لکھا کہ یہ غزہ
پڑھیں:
کس پہ اعتبار کیا؟
اسلام ٹائمز: ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
 
 اسلامی انقلاب سے قبل ایران اور اسرائیل کے مابین  تعلقات استوار تھے۔ ایران میں اسرائیل کا سفارت خانہ قائم تھا۔ امام خمینی کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی کے افق میں مشرق مغرب کا فرق آگیا۔ اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ایران اور اسرائیل کے مابین تعلقات کی بساط  بھی لپٹ گئی۔ جو ایران کبھی اسرائیل سے یگانگت رکھتا تھا اب اس کی اسرائیل سے مخاصمت اس کی پہچان اور اسرائیل سے دشمنی اس کے ایمان کا تقاضا ٹھہری۔
 
 ایران اب آزادیء فلسطین کے لیے لڑی جانے والی لڑائی کو کسی مقبوضہ علاقے کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کی بجائے الہی فریضہ کے طور پر دیکھنے لگا۔ امام خمینی فلسطینیوں کی کامیابی کو محض ان کے اسلامی تشخص اور ان کی دین سے وابستگی میں دیکھتے تھے۔ جب کہ اس وقت فلسطینیوں کی سب سے بڑی تنظیم ”پی ایل او“ بنیادی طور پر سیکولر تشخص کی حامل تحریک تھی جس کا مقصد محض فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانا تھا۔
 
 ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔
 
 ایران کی مدد کو مسترد کرنے کی وجہ ایک ہی تھی اور وہ یہ کہ یاسر عرفات کو خطرہ تھا کہ کہیں فلسطینی ایران کے انقلابی نظریات سے متاثر نہ ہو جائیں۔ ایران کی اسلامی حکومت شروع دن سے ہی مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صیہونی حکومت کی مخالفت میں حالت جنگ میں ہے اور قربانیاں دے رہی ہے لیکن اس کے باوجود فلسطینیوں کی نمائندہ جماعتیں کبھی بھی اسے اس کا اصل مقام دینے کے لیے آمادہ نہیں رہیں۔ فلسطین کی جماعتوں نے اب تک اسرائیل سے جو معاہدے کیے ہیں وہ ایران کو بائی پاس کرکے کیے ہیں۔ مثلاً فلسطینیوں کی سب سے بڑی جماعت ”پی ایل او“ اور اسرائیل  کے مابین جو ”اوسلو امن معاہدہ“ ہوا، ایران کو اس سے الگ رکھا گیا۔
 
 ایران نے اس وقت ہی یہ کہ دیا تھا کہ ایران کو الگ تھلگ کر کے جو بھی معاہدہ کیا جائے گا اس کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کی آزادی کے حوالے سے مخلصانہ کردار ادا کرنے والے ایران کے مقابلے میں وقتاً وقتاً نام نہاد کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ جعلی کردار ایران کے حقیقی کردار کے مقابلے میں آخرکار  فلاپ ہوگئے۔ ایران کے مقابلے میں جو بھی کردار منظر عام پر آیا، چاہے وہ اسامہ بن لادن کی شکل میں ہو، صدام حسین کے روپ میں ہو یا اردگان کی صورت میں، اس نے فلسطینیوں کو ورغلانے کی کوشش کی ہے۔
 
 حتیٰ کہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب حماس بھی داعش جیسے گروہ کے دام میں آگئی اور شام میں اس کے اراکین بشار الاسد کے خلاف لڑے۔ ایران اور حزب اللہ نے اس پر حماس سے اپنے راستے جدا کر لیے تھے لیکن بعد میں حماس کو احساس ہوا کہ اس سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور پھر دوبارہ ایران سے اس کے تعلقات بحال ہوگئے۔ اب لمحہء موجود میں ایک بار پھر فلسطینی اپنے بعض نام نہاد ہمدردوں کے ٹریپ میں آگئے۔
 
 ایسے میں جبکہ کچھ عرصہ قبل ہی امریکہ ایران کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کر چکا تھا، فلسطینی تنظیموں نے ایران کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ٹرمپ کے دھوکے میں آ کر اور قطر، ترکی اور مصر جیسی دوہرے معیار رکھنے والی حکومتوں کو درمیان میں لاکر ایک امن معاہدہ کیا اور اسرائیل کے وہ تمام قیدی چھوڑ دیے جو حماس کے پاس ” ٹرمپ کارڈ “ کے طور پر تھے۔ لیکن اسرائیل نے آخر وہی کچھ کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتا آیا ہے اور اپنے وعدے اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر ایک بار پھر آتش و آہن کی بارش شروع کردی ہے اور غزہ کے لوگوں نے جو جشن منایا تھا وہ ایک بار پھر ان کے سوگ میں بدل گیا ہے۔
 
 سچ تو یہ ہے کہ اگر آج آزادیء فلسطین کے لیے لڑنے والی کوئی بھی فلسطینی تحریک یا قیادت، مظلومین جہان کی سب سے بڑی حامی قوت، اسلامی جمہوری ایران سے مکمل ہم آھنگی نہیں رکھتی اور اس کی قیادت، جو تمام عالم اسلام کی حقیقی قیادت ہے، اس کے فرمائے ہوئے کو اپنے لیے حکم کا درجہ نہیں دیتی، عالمی فریب کاروں کے دام فریب میں آتی رہے گی۔
 
 خود آپ اپنی ہی گردن پہ گویا وار کیا
 جو معتبر ہی نہ تھا اس پہ اعتبار کیا