پاک فوج کا سیلاب سے متاثرہ دربار صاحب کرتارپور میں بحالی کا کام جاری
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
نارووال:
پاک فوج اور سول انتظامیہ کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ دربار صاحب کرتارپور میں بحالی کا کام جاری ہے۔
سیلاب کے دوران دربار صاحب کرتارپور کو شدید نقصان پہنچا تھا، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے دربار صاحب کرتارپور کے دورے کے دوران جلد مکمل بحالی کی یقین دہانی کروائی تھی۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی خصوصی ہدایات پر دربار صاحب کرتارپور کی بحالی کا کام شروع کیا گیا۔
پاک فوج اور سول انتظامیہ کی جانب سے دربار صاحب کرتارپور میں پانی کی فوری نکاسی کی گئی، دربار صاحب کرتارپور میں پانی کی نکاسی کے بعد صفائی کے عمل تیزی سے مکمل کیا جا رہا ہے۔
دربار صاحب کرتارپور کی انتظامیہ اور سکھ برادری نے پاک فوج اور سول انتظامیہ کی بروقت کارروائی پر خراج تحسین پیش کیا۔
دیگر شہروں میں امدادی کارروائیاں
دوسری جانب، پاک فوج کی سیالکوٹ، نارروال، ظفروال اور وزیرآباد سمیت مختلف علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
سیالکوٹ میں سیلاب متاثرین کے لیے راشن کی تقسیم اور فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کیا گیا۔ پاک فوج کی جانب سے میڈیکل کیمپ میں 108 مرد، 126 خواتین اور 98 بچوں کا مفت علاج کیا گیا۔
نارووال اور ظفروال میں بھی سیلاب متاثرین کے لیے پاک فوج کے فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا گیا جہاں 78مرد، 108 خواتین اور 84 بچوں سمیت 270 مریضوں کا مفت طبی معائنہ ہوا اور ادویات فراہم کی گئیں۔
پاک فوج نے وزیر آباد اور گردونواح کے سیلاب متاثرہ علاقوں کے لیے بھی میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا۔ وزیر آباد میں بچوں اور خواتین سمیت کل 270 مریضوں کا علاج کیا گیا اور ادویات فراہم کی گئیں۔
پتوکی، بہرام، تاہلی والا اور رام گڑھ میں بھی سیلاب متاثرین کے لیے امدادی کیمپ قائم کیے گئے۔ مانگا منڈی کے قریب سیلابی پانی میں لاپتا 3 افراد کو بچانے کے لیے پاک فوج کا فوری ریسکیو آپریشن کیا گیا۔
پاک فوج کی جانب سے مظفرگڑھ اور دوآبہ میں ممکنہ سیلاب سے نمٹنے کے لیے حکمتِ عملی مرتب دی گئی۔ دوآبہ (دریائے چناب) بریچنگ سائٹ اور دیگر مقامات پر سیلاب سے بچاؤ کے انتظامات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
پاک فوج نے سول انتظامیہ کے ساتھ مشترکہ ریلیف ٹیموں کی عملی تربیت اور ہنگامی انخلاء کے انتظامات کا معائنہ کیا۔
پاک فوج اور سول انتظامیہ کا سیلاب جیسی قدرتی آفت میں عوام کے تحفظ اور بروقت امداد کا عزم ہے، مشکل کی ہر گھڑی میں پاک فوج اپنے عوام کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان پاک فوج اور سول انتظامیہ دربار صاحب کرتارپور میں میڈیکل کیمپ کی جانب سے سیلاب سے کیا گیا کے لیے
پڑھیں:
سیلاب سے تباہ حال زراعت،کسان بحالی کی فوری ضرورت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-7
لاہور (کامرس ڈیسک)پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ ہماری قومی معیشت کا بڑا حصہ کھیتوں سے حاصل ہونے والی اجناس، باغات کی پیداوار اور مویشی پالنے کے نظام پر منحصر ہے۔ دیہات میں بسنے والے لاکھوں خاندان اپنی روزی روٹی انہی کھیتوں سے کماتے ہیں۔ مگر حالیہ دنوں آنے والے شدید اور تباہ کن سیلاب نے نہ صرف کسانوں کو بلکہ پوری زرعی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پانی کے طوفان نے کھیت کھلیان بہا دیے، تیار فصلیں تباہ کر ڈالیں اور کسان کو بے بسی کے عالم میں کھڑا کر دیا۔ یہ آفت صرف ایک قدرتی حادثہ نہیں بلکہ ہمارے زرعی ڈھانچے، حکومتی پالیسیوں اور منصوبہ بندی کی کمزوری کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔خیبرپختونخوا وہ صوبہ ہے جہاں سے اس سیلابی تباہی کا آغاز ہوا۔ شدید بارشوں، کلاؤڈ برسٹ اور ندی نالوں میں طغیانی نے بستیاں اجاڑ دیں اور زرعی زمینوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ صرف اسی صوبے کے 16 اضلاع میں 31 ہزار 600 ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں اور باغات مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ سب سے زیادہ نقصان بونیر میں ہوا جہاں 26 ہزار 141 ایکڑ پر کھڑی فصلیں پانی میں بہہ گئیں۔ سوات، دیر لوئر اور شانگلہ میں بھی ہزاروں ایکڑ زمین زیرِ آب آ گئی۔ مکئی، چاول، سبزیاں اور پھلدار باغات وہ اجناس ہیں جن پر مقامی معیشت کا انحصار ہے، لیکن یہ سب اس سیلابی ریلے کی نذر ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف کسانوں کا ذریعہ معاش ختم ہوا بلکہ مقامی منڈیوں میں اجناس کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔پنجاب، جو پاکستان کی زرعی پیداوار میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہ ، اس بار سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ 21 لاکھ 25 ہزار 838 ایکڑ زرعی رقبہ سیلاب کی نذر ہوا۔ یہ تباہی صرف زمین یا فصلوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے زرعی آلات، گوداموں، گھروں اور کسانوں کی روزمرہ زندگی کو بھی برباد کر دیا۔ فیصل آباد ڈویڑن سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 3 لاکھ 23 ہزار 215 ایکڑ پر کھڑی فصلیں مکمل طور پر ضائع ہو گئیں۔ اسی طرح گوجرانوالہ ڈویڑن، گجرات ڈویڑن، بہاولپور ڈویڑن، ساہیوال، ملتان ڈویڑن اور ڈی جی خان میں بالترتیب2 لاکھ 62 ہزار 862 ایکڑ، 2 لاکھ 38 ہزار 416 ایکڑ، 1 لاکھ 45 ہزار 432 ایکڑ، 1 لاکھ 37 ہزار 79 ایکڑ، 58 ہزار 439 ایکڑاور 49 ہزار 165 ایکڑفصلیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئیں۔زرعی تباہی کے ساتھ ساتھ لاکھوں مویشی بھی یا تو پانی کے ریلوں میں بہہ گئے یا خوراک کی کمی اور بیماریوں کے باعث مر گئے۔ دیہات میں کسان کی معیشت صرف فصلوں پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ مویشی اس کا دوسرا بڑا سہارا ہوتے ہیں۔ دودھ، گوشت اور کھال کے ساتھ ساتھ بیل اور بھینس کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سبز چارے کی شدید قلت ہے اور کسان اپنے بچ جانے والے جانوروں کو خوراک دینے سے قاصر ہیں۔ حکومت کی طرف سے ونڈے کی معمولی تقسیم ہو رہی ہے مگر اکثر یہ سہولت ضرورت مند کسان تک نہیں پہنچ پاتی۔ ایسے حالات میں مرکزی مسلم لیگ، الخدمت فاؤنڈیشن، مرکزی کسان لیگ اور دیگر مذہبی و فلاحی تنظیمیں سائیلج اور توری کی تقسیم کر رہی ہیں، مگر یہ اقدامات وقتی ہیں، مستقل حل نہیں۔درحقیت پاکستان کا کسان ہماری معیشت کی بنیاد ہے۔ اگر کسان خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا۔ سیلاب نے کسان کو کچل کر رکھ دیا ہے، اس لیے اب یہ حکومت اور ریاست کی آئینی، اخلاقی اور معاشی ذمہ داری ہے کہ وہ کسان کو دوبارہ کھڑا ہونے کا موقع دے۔