ادھیڑ عمری میں مصنوعی مٹھاس کا استعمال ذہنی صلاحیتوں میں کمی لاسکتا ہے
اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT
حالیہ تحقیق سے یہ اشارے ملے ہیں کہ ادھیڑ عمری میں مصنوعی مٹھاس کا زیادہ استعمال دماغی صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
کچھ مطالعات میں دیکھا گیا ہے کہ مصنوعی مٹھاس دماغ کے اُن حصوں پر اثر انداز ہوسکتی ہے جو سیکھنے اور یادداشت سے متعلق ہیں۔
یہ مٹھاس دماغ میں معمولی سوزش پیدا کرسکتی ہے جو وقت کے ساتھ اعصابی خلیات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
مصنوعی مٹھاس آنتوں کے جراثیمی توازن کو متاثر کرتی ہے، جس کا براہِ راست تعلق دماغی صحت اور نیوروٹرانسمیٹرز کی پیداوار سے ہے۔
کچھ رپورٹس کے مطابق یہ مٹھاس انسولین کے نظام کو بھی متاثر کرسکتی ہے، اور دماغ بھی گلوکوز پر انحصار کرتا ہے، اس لیے اس کا اثر ذہنی صلاحیتوں پر پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا مصنوعی مٹھاس کو روزانہ کی بنیاد پر زیادہ استعمال نہ کریں۔
کوشش کریں کہ قدرتی متبادل جیسے شہد، کھجور کا شربت یا اسٹیویا کا اعتدال سے استعمال کریں۔
متوازن غذا، باقاعدہ ورزش اور دماغی مشقیں (مثلاً مطالعہ، پہیلیاں، نیا ہنر سیکھنا) ذہنی صحت کو بہتر رکھنے میں مددگار ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مصنوعی مٹھاس
پڑھیں:
پاکستان: ذہنی امراض میں اضافے کی خطرناک شرح، ایک سال میں ایک ہزار خودکشیاں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: پاکستان میں ذہنی امراض اور نفسیاتی دباؤ میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران معاشرتی اور قومی سطح پر سنگین نتائج پیدا کر سکتا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں ہونے والی 26ویں بین الاقوامی کانفرنس برائے ذہنی امراض میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں ہر تین میں سے ایک فرد نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے، جب کہ گزشتہ ایک سال کے دوران تقریباً ایک ہزار افراد نے ذہنی دباؤ کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
کانفرنس کے سائنٹیفک کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر محمد اقبال آفریدی نے بتایا کہ پاکستان میں ڈپریشن اور اینگزائٹی کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ خواتین میں ذہنی دباؤ کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں، جس کی بنیادی وجوہات گھریلو تنازعات، سماجی دباؤ اور معاشی مشکلات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں حالیہ برسوں کے دوران قدرتی آفات، دہشت گردی، بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام نے عوام کے ذہنوں پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔
پروفیسر واجد علی اخوندزادہ کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک نوجوان اور ہر پانچ میں سے ایک بچہ کسی نہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں 10 فیصد افراد منشیات کے عادی ہیں، جن میں آئس اور دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ملک کی 24 کروڑ آبادی کے لیے صرف 90 نفسیاتی ماہرین موجود ہیں، جو عالمی معیار کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر 10 ہزار افراد کے لیے کم از کم ایک ماہر نفسیات ہونا چاہیے، جب کہ پاکستان میں تقریباً پانچ لاکھ سے زائد مریضوں پر ایک ماہر دستیاب ہے۔
ڈاکٹر افضال جاوید اور دیگر ماہرین نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں معاشی ناہمواری، بے روزگاری، موسمیاتی تبدیلیاں اور سرحدی کشیدگی عوام کے ذہنی سکون کو تباہ کر رہی ہیں۔ نوجوان طبقہ خصوصاً مایوسی اور عدم تحفظ کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں خودکشیوں کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ذہنی صحت کو قومی ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں نفسیاتی مشاورت مراکز قائم کیے جائیں اور عوامی آگاہی مہمات شروع کی جائیں تاکہ معاشرہ اس بڑھتے ہوئے نفسیاتی بحران سے محفوظ رہ سکے۔