پن بجلی کے اوسط بنیادی ٹیرف میں بڑے اضافے کا امکان
اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT
واپڈا نے پن بجلی کے اوسط بنیادی ٹیرف میں بڑے اضافے کی درخواست کردی۔ واپڈا آئندہ مالی سال کیلئے مالی ضروریات میں 90 فیصد اضافے کی درخواست نیپرا میں جمع کرادی گئی۔ من وعن منطوری کی صورت میں ٹیرف میں پانچ روپے پینتالیس پیسے اضافہ ہوگا۔نیپرا نے مالی ضروریات پوری کرنے کیلئے پن بجلی کے ٹیرف میں 5 روپے 45 پیسے کا بڑا اضافہ مانگ لیا ۔نیپرا میں آئندہ مالی سال کی ہماری ضروریات میں اضافے کی درخواست جمع کرا دی گئی جس کے مطابق پن بجلی کے اوسط بنیادی ٹیرف کو 6 روپے 11 پیسے سے بڑھا کر ساڑھے 11 روپے کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔نیپرا اتھارتی واپڈا کی درخواست پر 11 ستمبر کو سماعت کرے گی۔ واپڈا نے آئندہ مالی سال کیلیے مالی ضروریات میں 173ارب روپے کا اضافہ مانگ لیا۔ واپڈا نے دوہزار پچیس چھبیس کے لیے ریونیو ضروریات کو 190ارب روپے سے بڑھا کر 364 ارب 87 کروڑ روپے کرنے کی درخواست کردی۔ درخواست کے مطابق واپڈا کی مالی ضروریات کا تعین دوہزار بائیس تئیس میں کیا گیا اسی لیے ٹیرف میں اوسط اضافہ مانگا گیا ہے۔ دوہزار بائیس تئیس میں واپڈا کی ریونیو کی ضروریات 190 ارب روپے مقرر کی گئی تھی
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مالی ضروریات کی درخواست پن بجلی کے ٹیرف میں
پڑھیں:
سول ہسپتال کوئٹہ میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سول ہسپتال کوئٹہ کے آڈٹ کے دوران ادویات کے ریکارڈ میں انحراف اور 537 روپے کے آکیسجن سلینڈر کیلئے 40 ہزار ادا کرنے سمیت دیگر بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سنڈیمن پرووینشل (سول) ہسپتال کوئٹہ میں کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں اور سنگین انتظامی بدنظمی کا انکشاف ہوا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت اجلاس میں پیش کی گئی اسپیشل آڈٹ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2017 تا 2022 کے دوران اسپتال انتظامیہ نے 3 کروڑ روپے مالیت کی ادویات خریدیں، لیکن سپلائی آرڈرز اور بلز میں شدید تضاد پایا گیا۔ ریکارڈ کے مطابق آرڈر ایک کمپنی کو جاری کیا گیا، جبکہ ادائیگی کسی دوسری کمپنی کو کی گئی۔ اس کے علاوہ اسٹاک رجسٹر اور معائنہ کی رپورٹس بھی موجود نہیں ہیں۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ مالی سال 2019-20 کے دوران سول ہسپتال کے مرکزی اسٹور سے دو کروڑ 28 لاکھ روپے مالیت کی ادویات غائب ہو گئیں۔ اس سنگین غفلت پر مؤقف اختیار کیا گیا کہ سابقہ فارماسسٹ نے بیماری کے باعث بروقت انٹریاں درج نہیں کیں۔ تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ مذکورہ فارماسسٹ کی جانب سے آج تک مکمل ریکارڈ جمع نہیں کرایا گیا۔ اس کے علاوہ آکسیجن سلنڈرز کی زائد نرخوں پر خریداری سے حکومتی خزانے کو ساڑھے 13 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ معاہدے کے تحت سلنڈرز کی قیمت 537 روپے مقرر تھی، لیکن وبائی دور میں مارکیٹ سے 40 ہزار روپے فی سلنڈر کے ناقابل یقین نرخ پر خریداری کی گئی۔ مزید یہ کہ تمام کوٹیشنز ایک ہی تحریر میں تیار کی گئی تھیں، جس سے شفافیت پر سنگین سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ کمیٹی نے ان تمام معاملات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور ذمہ دار افسران کی شناخت اور غفلت کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف کارروائی اور انکوائری کرکے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔