اسماء عباس نے کینسر کے خلاف جدوجہد کی کہانی سنا دی
اشاعت کی تاریخ: 7th, September 2025 GMT
لاہور (نیوز ڈیسک) پاکستان کی معروف اور سینئر اداکارہ اسماء عباس نے اپنی بیماریوں اور کینسر کے خلاف طویل جدوجہد پر پہلی بار کھل کر بات کی ہے۔
ایک پوڈکاسٹ انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ کینسر کی تشخیص ان کے لیے زندگی کا سب سے کڑا وقت تھا، لیکن اللّٰہ تعالیٰ کے کرم اور بیٹی زارا نور عباس کی حوصلہ افزائی نے انہیں ہمت دی اور وہ اس مرحلے سے نکلنے میں کامیاب ہوئیں۔
اسماء عباس نے کہا کہ شروع میں ان کا وزن تیزی سے کم ہو رہا تھا، جس پر خوشی بھی ہوتی تھی، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کینسر کی علامت ہے۔ تشخیص میں وقت لگا لیکن بروقت پتہ چلنے پر انہوں نے فوری علاج شروع کر دیا اور دو بڑے پروجیکٹس بھی چھوڑنے پڑے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بہت سے لوگوں نے انہیں امریکا جا کر علاج کروانے کا مشورہ دیا تھا، ان کے بھائی نے بھی بلایا، لیکن انہوں نے پاکستان ہی میں علاج کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ والد کہا کرتے تھے موت کا فرشتہ کہیں بھی آسکتا ہے، اسی سوچ کے تحت انہوں نے پاکستان میں ہی علاج کرایا۔
اداکارہ نے یہ بھی کہا کہ نظرِ بد حقیقت ہے اور ممکن ہے انہیں بھی اس کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ تاہم آج وہ صحت مند ہیں اور معمول کی زندگی گزار رہی ہیں۔
اپنی دیگر بیماریوں کا ذکر کرتے ہوئے اسماء عباس نے بتایا کہ ان کے گلے میں پلیٹس ہیں، کندھوں کے ٹینڈنز ٹوٹے ہوئے ہیں، وہ گزشتہ بیس سال سے ذیابیطس کی مریضہ ہیں، مگر اس کے باوجود اللّٰہ کے کرم سے آج وہ پنجابی شوز میں رقص بھی کرتی ہیں۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسماء عباس نے انہوں نے
پڑھیں:
امریکا کی 5 فیصد آبادی میں کینسر جینز کی موجودگی، تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
کلیولینڈ کلینک کے ماہرین کی جانب سے کی گئی ایک تازہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ امریکا کی آبادی کا تقریباً 5 فیصد حصہ یعنی قریب 1 کروڑ 70 لاکھ افراد، ایسے جینیاتی تغیرات (میوٹیشنز) کے حامل ہیں جو کینسر کے خطرات کو بڑھا سکتے ہیں اور یہ لوگ اپنی حالت سے لاعلم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایک بلڈ ٹیسٹ سے 50 اقسام کے کینسر کی تشخیص ابتدائی اسٹیج پر ہی ممکن ہوگئی
ریسرچ جرنل جے اے ایم اے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ جینیاتی تبدیلیاں محض ان افراد تک محدود نہیں جو کینسر کی خاندانی ہسٹری رکھتے ہیں، بلکہ بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو بظاہر خطرے کی فہرست میں شامل نہیں تھے۔
تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر جوشوا آربزمین کے مطابق جینیاتی ٹیسٹنگ عموماً انہی افراد کے لیے کی جاتی رہی ہے جن کے خاندان میں کینسر کی تاریخ موجود ہو یا جن میں علامات ظاہر ہوں، تاہم تحقیق سے معلوم ہوا کہ بڑی تعداد ان افراد کی بھی ہے جن میں خطرناک جینز پائے گئے مگر وہ روایتی کیٹیگری میں نہیں آتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: نئی دوا پروسٹیٹ کینسر کے مریضوں میں اموات 40 فیصد تک کم کرنے میں کامیاب
ان کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال قبل ازوقت تشخیص اور بچاؤ کے مواقع ضائع ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔
تحقیق میں 70 سے زائد عام کینسر سے متعلق جینز کا تجزیہ کیا گیا جس میں 3 ہزار 400 سے زیادہ منفرد جینیاتی تغیرات رپورٹ کیے گئے۔ ان تبدیلیوں کے باعث کینسر کا خطرہ طرزِ زندگی، خوراک، تمباکو نوشی یا ورزش سے قطع نظر بڑھ سکتا ہے، یعنی صحت مند زندگی گزارنے والے افراد بھی جینیاتی طور پر خطرے میں ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں بریسٹ کینسر تیزی سے پھیلنے لگا، ایک سال میں 5 ہزار کیسز سامنے آنے کی وجہ آخر کیا ہے؟
ریسرچ میں شریک ماہر یِنگ نی کا کہنا ہے کہ ان جینیاتی تغیرات کی بہتر سمجھ کینسر کے خدشات کو جانچنے کے لیے محض خاندانی تاریخ یا طرزِ زندگی پر انحصار کرنے کے بجائے زیادہ واضح راستہ فراہم کرتی ہے۔
ماہرین کے مطابق تحقیق اس بات کو مزید تقویت دیتی ہے کہ کینسر سے بچاؤ کے لیے باقاعدہ اسکریننگ جیسے میموگرام اور کولونوسکوپی کو عام اور باقاعدہ طبی نظام کا حصہ بنانا ناگزیر ہو چکا ہے، کیونکہ لاکھوں افراد ظاہری صحت کے باوجود جینیاتی طور پر خطرے میں ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا جینیاتی تغیر جے اے ایم اے کلیولینڈ کلینک کینسر