اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو
اشاعت کی تاریخ: 17th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یہ مضمون اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ تعلیمی کارکنوں کی اندرونی تحریک کو کس طرح دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ اس جمی ہوئی بے حسی کا مقابلہ کیا جا سکے جو ایک خطرناک اور ہر طرف پھیلی ہوئی بلا کی طرح پروان چڑھ چکی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اس آفت سے ناآشنا ہیں جس نے ہماری قومی اساس کو خود انحصاری اور خوشحالی کے لیے کھوکھلا کر دیا ہے۔
“I hope when the going gets tough, the tough get going” کے مطابق اگر ہم کامیاب ہو گئے تو ہم تدریسی شعبے کو قربانی، ہمدردی اور مسلسل نشوونما کی بنیاد پر ایک باوقار پیشے میں بدل سکیں گے۔ لوگ استاد کے کردار کو محض تدریسی ذمے داری نہیں بلکہ طلبہ کو علم کی بھول بھلیوں میں رہنمائی کرنے، تجسس کی آگ جلانے، مہارتیں، قابلیتیں اور باوقار کردار حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اسی پیمانے پر جب ہم یہ سوال کرنے کی ہمت کرتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور تعلیمی رجحانات کس طرف بڑھ رہے ہیں، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ٹیکسٹ بْک، رٹے بازی اور مبہم تعلیمی منتقلی کا کلچر حاوی ہے۔ جدید بورڈز، اسمارٹ کلاس رومز اور ہائی ٹیک لیب کے باوجود تعلیمی ترقی جمود کا شکار ہے۔ مسئلہ ٹیکنالوجی کی موجودگی یا غیر موجودگی کا نہیں بلکہ جذبے، لگن اور جدت کی کمی کا ہے۔
یہ موجودہ کلچر گھوڑے کی لاش کو پیٹنے کے مترادف ہے، جہاں تعلیم حوصلہ افزا نہیں بلکہ مایوس کن ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر اساتذہ کو زیادہ پیشہ ورانہ خودمختاری دی جائے تو وہ اپنے کام کو ذاتی ذمے داری سمجھیں گے۔ مثال کے طور پر اگر اساتذہ کو نصابی کتب اور باندھے ہوئے وسائل سے ہٹ کر اپنی تدریسی حکمت ِ عملیاں بنانے اور نافذ کرنے کی آزادی دی جائے تو وہ طلبہ کو ذمے دار شہری اور روزگار کے قابل بنانے میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ اسی طرح معاونتی نظام بھی فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ اساتذہ اپنی فلاح و بہبود کو ترجیح دے سکیں، مثلاً وسائل میں سہولت، رعایتیں اور انتظامی بوجھ میں کمی۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معزز اساتذہ اپنی علمی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بعض کا ماننا ہے کہ ہاں، مگر عملی رکاوٹیں جیسے نصاب کی تکمیل کے لیے وقت کی کمی، وسائل کی قلت اور ناکافی تحریک انہیں مزید ترقی سے روکتی ہے۔ دوسری طرف کچھ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اساتذہ میں پائی جانے والی بے حسی پورے نظام تعلیم کو کمزور کر سکتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم ایسا احتسابی کلچر پیدا کریں جو ہمدردی پر مبنی ہو۔ میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ احتساب کا مطلب صرف سزا نہیں بلکہ نشوونما اور بہتری ہے۔ اساتذہ کو بااختیار بنانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کریں اور اجتماعی ذمے داری کا ماحول پیدا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ آج ہمارے تعلیمی کلچر میں جذبے، جدت اور لگن کی کمی ہے۔ ہمیں ایسے کلچر کی ضرورت ہے جہاں استاد خود کو تبدیلی کے ایجنٹ سمجھیں اور نئے تجربات کرنے سے نہ گھبرائیں۔ اسی طرح طلبہ پر مرکوز تدریسی طریقے مثلاً تحقیق پر مبنی اور منصوبہ جاتی تدریس اساتذہ میں تدریس کی خوشی دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔
’’سماج اکثر یہ خواب دیکھتا ہے کہ اساتذہ کو اپنے آپ کو روشنی کے نگہبان سمجھنا چاہیے — ایسے افراد جو دوسروں کی راہوں کو روشن کرنے کے لیے اپنی قربانی پیش کرتے ہیں‘‘۔ لیکن اس کے لیے ہمدردی اور نرمی پر زور دینا لازمی ہے۔ جذباتی ذہانت کی تربیت اساتذہ کو یہ سکھا سکتی ہے کہ طلبہ کے ساتھ بامعنی تعلقات کیسے قائم کیے جائیں، اعتماد اور تعاون کا ماحول کیسے پیدا کیا جائے۔
’’میٹا کوگنیٹو مہارتوں کی پرورش اساتذہ کو یہ قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی تدریسی حکمت ِ عملیوں کا تنقیدی جائزہ لیں اور طلبہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ضروری تبدیلیاں کریں‘‘۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی، واضح تدریسی طریقے اور عملی تربیت کو ملانا ضروری ہے تاکہ طلبہ کو صاف اور منظم رہنمائی ملے۔ اسی طرح مضمون پر مبنی تربیت اساتذہ کے علمی اثاثے کو گہرا کرتی ہے جس سے وہ زیادہ مؤثر اور دلچسپ اسباق فراہم کر سکیں۔
کامیاب تعلیمی نظام کا انحصار مسلسل سیکھنے، ہمدردی اور جدت پر ہے۔ اس طرح ہم اپنے اساتذہ کو حقیقی روشنی کے نگہبان میں بدل سکتے ہیں جو قربانی، نرمی اور غیر متزلزل لگن کے ساتھ اپنے کردار کو نبھائیں۔ جب ہم ان کی ترقی میں سرمایہ کاری کریں گے اور ان کو ضروری سہولتیں فراہم کریں گے تو ہم ایسا ماحول تشکیل دیں گے جہاں استاد اور طلبہ دونوں ترقی کریں اور آئندہ نسلوں کی زندگیوں کو روشن، بااختیار اور بہتر بنائیں۔
(مصنف ایک ماہر ِ تعلیم ہیں جنہوں نے مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، جن میں: سینئر ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈی جی ایجوکیشن، ایف ڈی ای اسلام آباد۔ ڈائریکٹر (سرٹیفکیشن) NAVTTC۔ ڈائریکٹر (آپریشنز اینڈ لیگل) STEVTA۔ ریجنل ڈائریکٹر وفاقی محتسب حیدرآباد۔ چیئرمین، بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی)
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نہیں بلکہ اساتذہ کو یہ ہے کہ کے لیے
پڑھیں:
چوتھی نصاب تعلیم کانفرنس ڈیرہ مراد جمالی میں منعقد ہوگی، علامہ مقصود ڈومکی
ڈیرہ اللہ یار میں اساتذہ سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ کوئٹہ، لاہور اور جیکب آباد میں کامیاب کانفرنسز منعقد ہوچکی ہیں جبکہ چوتھی نصاب تعلیم کانفرنس ڈیرہ مراد جمالی میں 28 ستمبر 2025 کو منعقد ہوگی۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی، صوبائی آرگنائزر علامہ سید ظفر عباس شمسی اور علامہ سہیل اکبر شیرازی و دیگر رہنماؤں نے ڈیرہ اللہ یار میں تعمیرِ ملت پبلک اسکول کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے اسکول کے پرنسپل اور ایم ڈبلیو ایم کے سابقہ ضلعی سیکرٹری جنرل ظفر علی حیدری، سید شبیر علی شاہ، نظیر حسین ڈومکی سمیت دیگر شخصیات سے ملاقات کی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ نصیر آباد ڈویژن کے اساتذہ اور ماہرینِ تعلیم سے مشاورت کا عمل جاری ہے، کیونکہ 28 ستمبر بروز اتوار ڈیرہ مراد جمالی میں نصابِ تعلیم کانفرنس منعقد کی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی نصاب تعلیم کونسل ملک بھر میں نصاب تعلیم پر کانفرنسز کا سلسلہ شروع کر چکی ہے۔ اس سلسلے میں کوئٹہ، لاہور اور جیکب آباد میں کامیاب کانفرنسز منعقد ہوچکی ہیں جبکہ چوتھی نصاب تعلیم کانفرنس ڈیرہ مراد جمالی میں 28 ستمبر 2025 کو منعقد ہوگی جس میں اساتذہ، ماہرینِ تعلیم، علمائے کرام، وکلاء اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات شریک ہوں گی۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے مزید کہا کہ نصاب تعلیم کی اصلاح کے لیے اساتذہ، ماہرین تعلیم اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے مسلسل مشاورت کا عمل جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کانفرنسز کا مقصد اساتذہ اور ماہرین تعلیم کو اس اہم مسئلے کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ نصاب تعلیم سے متنازعہ مواد کا اخراج وقت کا تقاضا ہے اور نصاب کی اصلاح ناگزیر ہو چکی ہے۔ حکومت، وزارت تعلیم اور نصاب تعلیم کونسل کو چاہیے کہ وہ موجودہ نصاب کے متنازعہ نکات کی اصلاح کا عمل فی الفور شروع کریں اور ایسا نصاب ترتیب دیں جو تمام مکاتب فکر کے لیے یکساں طور پر قابل قبول ہو۔ قبل ازیں علامہ مقصود علی ڈومکی نے المصطفیٰ پبلک اسکول کا بھی دورہ کیا جہاں انہوں نے پرائیوٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے صدر سکندر حسین مہر اور اسکول اساتذہ سے ملاقات کی اور تعلیم و نصاب تعلیم سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا۔