قطر پر اسرائیلی حملے کے مضمرات
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسرائیل کا نام لیے بغیر دارالحکومت دوحا پر حالیہ اسرائیلی حملے کی متفقہ مذمتی قرارداد منظور کرلی۔ پاکستان کے مطالبے پر بلائے گئے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کا مذمتی بیان برطانیہ اور فرانس نے تیار کیا۔ یہ بیان تمام 15 اراکین بشمول اسرائیل کے اتحادی امریکا کی منظوری سے جاری کیا گیا ہے۔ امریکا عام طور پر اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم قرارداد آتی ہے تو اس کو ویٹو کردیتا ہے لیکن اس بار سلامتی کونسل کی بیان کی حمایت سے ڈونلڈ ٹرمپ کی اس حملے میں ناراضی ظاہر ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے اسرائیلی حملہ یو این چارٹر اور قطر کی سلامتی کے خلاف قرار دیا، انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے صرف قطر کو نہیں بلکہ عالمی امن کو نقصان پہنچایا ہے۔ سلامتی کونسل کے بیان میں کہا گیا ہے کہ کونسل نے کشیدگی میں کمی کی اہمیت کو اجاگر کیا اور قطر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، سلامتی کونسل کے بیان میں دوحا کو اہم ثالث قراردیا گیا جو اسرائیل اور حماس کے درمیان امن مذاکرات کے لیے امریکا اور مصر کے ساتھ کردار ادا کررہا ہے کونسل کے ارکان نے اس بات پر زور دیا کہ یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ اور انسانی تکالیف کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ ہنگامی اجلاس کے لیے نیو یارک پہنچنے والے قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان الثانی نے کونسل کی حمایت کا خیر مقدم کیا اور اپنے ملک کے ثالثی کردار کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
اس سے پہلے یہ بیان بھی نظر سے گزر چکا ہے کہ دوحا اب ثالثی کا کردار ادا نہیں کرے گا لیکن اب سوچ تبدیل ہوگئی شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے حملے کو پسند نہیں کیا۔ اسرائیل جو اس وقت بے نتھے کا بیل بنا ہوا ہے وہ جو چاہے کرتا پھرے کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہیں، اس لیے کہ امریکا اس کی پشت پر ہے لیکن اسرائیل نے قطر میں حماس کی اعلیٰ قیادت کو ایک ہی ہلے میں صاف کردینے کا فیصلہ کیا وہ الٹا اس کے گلے پڑگیا دوسرے لفظوں میں یہ بیک فائر ہوگیا۔ پہلی بات تو یہی کہ اسرائیل کا یہ کہنا کہ ہم نے امریکا کو اعتماد میں لے لیا تھا اور اس کو اطلاع کردی تھی۔ کسی ہائر آفیشل کو اطلاع کردینے کا یہ مطلب کہاں سے ہوگیا کہ امریکی قیادت کو اعتماد میں لے لیا گیا اور پھر اطلاع بھی حملے سے کچھ چند منٹ پہلے کی گئی اگر دو گھنٹے پہلے اطلاع دیتے تو خدشہ تھا کہ کہیں امریکا کی طرف سے قطر کے رہنمائوں کو مطلع کردیا جائے اور قطری حکام بروقت حماس رہنمائوں کو مطلع کرکے میٹنگ کینسل کروادیں یا اجلاس کی جگہ بروقت تبدیل کردی جائے۔ یعنی ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا آوے۔ یہ بھی ہوجائے کہ ہم نے بروقت اطلاع کردی تھی اور حماس کی قیادت بچنے بھی نہ پائے۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ واللہ خیرالمالکین اللہ بہترین چال چلنے والا ہے اسی کو ہم عام الفاظ میں یہ بھی کہتے ہیںکہ مارنے والے سے بچانے والا بہت بڑا ہے۔ اب ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حماس کی اعلیٰ قیادت اس حملے سے کیسے بچ گئی۔ اسرائیل کے پا س ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس سے وہ اپنے اہداف کے ٹھکانوں اور اس کی سرگرمیوں سے واقف رہتا ہے۔ دراصل موساد کے ایجنٹ پوری عرب دنیا کے ہر ملک کی جڑوں تک میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایران میں پانچ لاکھ یہودی ہیں یہ سب تو موساد کے ایجنٹ تو نہیں ہوں گے لیکن ان کی ہمدردیاں اسرائیل کے ساتھ ضرور ہوں گی۔ پھر دوحا اور سعودی عرب میں امریکی اسلحوں کے ذخائر اور امریکی اڈے ہیں ان میں پتا نہیں کتنے موساد کے ایجنٹ ہوں گے۔ ایران میں جن سائنسدانوں اور سینئر سیاسی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے۔ اسرائیل نے تو اپنا بیس کیمپ ایران میں بنایا ہوا تھا اتنی بڑی تعداد میں موساد کے ایجنٹوں کا ہونا خود ایرانی حکومت کے لیے حیران کن تھا۔ بلکہ ایک دلچسپ بات یہ سننے میں آئی کے ایک دفعہ ایران حکومت نے ایک کمیٹی بنائی کہ یہ کمیٹی ملک میں موساد کے ایجنٹوں کو تلاش کرکے ان کی نشاندہی کرے گی تاکہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے بعد میں تحقیق کی تو پتا چلا کہ جس فرد کو اس کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا تھا وہ خود موساد کا ایجنٹ ہے۔ ایران اسرائیل جنگ میں شروع میں ایرانی میزائل بے اثر جارہے تھے۔ اس لیے کہ حکومت ایران کو یہ شک ہوگیا کہ جہاں سے میزائل داغے جارہے ہیں وہیں کہیں موساد کے ایجنٹ نہ گھسے بیٹھے ہوں اس لیے جب ایران نے سمندر کے اندر سے میزائل مارے ان سے اسرائیل کی حالت خراب ہوئی اور وہ سیز فائر پر راضی ہوا۔
اسرائیل نے اپنے خفیہ نٹ ورک کے ذریعے ایران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا، اسی طرح اس نے لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ نصر اللہ کو ان کے انتہائی محفوظ مقام پر شہید کیا، اسی طرح یحییٰ سنوار کو غزہ میں جنگ لڑتے ہوئے شہید کیا۔ اسرائیل کی کوشش یہ رہی ہے کہ حماس کی قیادت کو صاف کیا جائے تاکہ مذاکرات میں تاخیر ہو اسرائیل بظاہر تو دوحا میں ہونے والے مذاکرات میں بادل نہ خواستہ شریک ہوتا رہا ہے لیکن وہ مذاکرات نہیں چاہتا اس لیے وہ قطر میں حماس کی سینئر قیادت کو قتل کرنا چاہتا تھا اور اسی لیے اس نے تمام بین الاقوامی حدود و قیود کو پامال کرتے ہوئے اس عمارت پر حملہ کردیا جہاں حماس کی قیادت جنگ بندی کے سلسلے میں امریکی تجاویز پر غور و خوض کے لیے جمع ہوئی تھی۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ حماس کے مرکزی رہنما اس حملے میں بچ کیسے گئے اس حوالے سے دو تھیوریز سامنے آرہی ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ اسماعیل ہنیہ، حزب اللہ کے رہنما اور دیگر کی اسرائیلی ٹارگٹ کلنگ کی ٹیکنیک کو حماس کی قیادت سمجھ گئی اس لیے جب سارے رہنما جمع ہوگئے تو وہ عین وقت پر اپنے موبائل چھوڑ کر اس دوسری بلڈنگ میں چلے گئے جس کا راستہ اندر ہی سے تھا بعد میں دوسرے لوگ بھی جاتے لیکن اسی دوران حملہ ہوگیا چھے لوگ شہید ہوگئے، بقیہ حماس کی اعلیٰ قیادت بچ گئی دوسری تھیوری یہ ہے کہ یہ لوگ نماز پڑھنے کے لیے گئے تھے اور اپنے موبائل وہیں چھوڑ گئے تھے کہ موبائل کی سم جگہ کی نشان دہی کے کام آتی ہے۔ بہرحال کوئی بھی اسٹوری ہو حماس کی اعلیٰ قیادت بچ گئی اور مذاکرات کو سبو تاژ کرنے کا پروگرام ناکام ہوگیا لیکن ایک پہلو سے کامیابی بھی ملی کہ ساری توپوں کا رخ دوسری طرف ہوگیا اب او آئی سی کا اجلاس، عرب سربراہوں کا اجلاس اور دیگر اجلاس کی طرف سرگرمیاں ہوں گی اور اسرائیل کو موقع مل جائے گا کہ وہ غزہ سٹی میں داخل ہوجائے گا اس ساری اسرائیلی کمینگی میں امریکا بھرپور ساتھ دے رہا ہے۔ امریکا کی دوغلی پالیسی کا اندازہ لگائیے کے ٹرمپ ایک طرف تو قطر کے سربراہ کو فون کرکے دوحا کی حمایت اور تعاون کی یقین دہانی کروارہے ہیں اور دوسری طرف ان کے وزیر خارجہ اسرائیل میں نیتن یاہو سے ملاقات کرکے کہہ رہے ہیں کہ امریکا اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اس کا مطلب ہے کل کو اسرئیل کسی اور عرب ملک پر حملہ کرسکتا ہے کہ امریکا اس کے ساتھ کھڑا ہے۔
حماس کے سربراہ خلیل الحیا تو اس حملے بچ گئے لیکن اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ حماس کی قیادت کو جہاں بھی جائے گی قتل کردیں گے ان ہی کے ساتھ خالد مشعل بھی ہیں جو حماس کا اصل دماغ ہیں اسرئیل ان کا بہت پہلے سے جانی دشمن ہے۔
1997 میں یہ اردن میں حماس کی ذمے داری سنبھالے ہوئے تھے اور وہاں سے وہ اسرائیل کے خلاف پراکسی وار کی منصوبہ بندی کرتے تھے ایک دفعہ ایک ہوٹل میں ان کی میٹنگ تھی وہاں اسرائیل کے آٹھ کمانڈوز آئے چھے تو باہر کھڑے رہے دو اندر گئے اور خالد مشعل کے قریب جاکر ان کے کان میں کوئی ایسی دوا ڈالی کہ وہ کومے میں چلے گئے خالد مشعل کے گارڈز نے ان دونوں کمانڈوز کو پکڑلیا باقی چھے جو باہر تھے وہ بھاگ لیے یہ دونوں جیل چلے گئے۔ اب اسرائیل نے ان دونوں کمانڈوز کو چھڑانے کی بہت کوششیں کی اردن میں شاہ حسین کی حکومت تھی انہوں نے سخت ایکشن لیا اور کہا کہ ان دونوں کمانڈوز کو سخت سزا دی جائے گی اسرائیل نے امریکا سے اپروچ کیا اس وقت بل کلنٹن امریکا کے صدر تھے۔ شاہ حسین بھی ڈٹ گئے انہوں نے بل کلنٹن سے کہا اسرائیل اس کی اینٹی ڈوز لائے اور خالد مشعل کو کومے سے باہر نکالے بالآخر اسرائیل کو بات ماننا پڑی اس وقت بھی نیتن یاہو اسرائیلی کابینہ کے رکن تھے۔ اسرائیل کے ڈاکٹرز آئے اور انہوں نے اینٹی ڈوز لگا کر خالد مشعل کو کومے سے باہر نکالا لیکن اس کے بعد بھی اردن نے کمانڈوز کو نہیں چھوڑا اور اسرائیل کی قید میں کئی سو فلسطینیوں کو جیل سے رہائی دلوائی پھر ان کمانڈوز کو چھوڑا گیا جب کوئی حکمران ڈٹ جائے تو بڑے بڑوں کو جھکنا پڑتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: موساد کے ایجنٹ حماس کی قیادت سلامتی کونسل حماس کی اعلی اسرائیل نے اسرائیل کے کمانڈوز کو ایران میں کے سربراہ خالد مشعل انہوں نے کونسل کے قیادت کو کے ساتھ کے خلاف لیکن اس حماس کے اس حملے کے لیے قطر کے اس لیے اور اس
پڑھیں:
قطر کا اسرائیلی حملے پر آئی سی سی میں قانونی چارہ جوئی کا عندیہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دوحہ: قطر کاکہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) میں قانونی چارہ جوئی پر غور کر رہا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق قطری وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہاکہ وزیر مملکت برائے خارجہ امور محمد بن عبدالعزیز الخلیفی نے دی ہیگ میں آئی سی سی کی صدر ٹوموکو آکانے اور ڈپٹی پراسیکیوٹر نظہت شمیم خان سے ملاقات کی، جس میں اسرائیلی جارحیت کو بین الاقوامی جرم کے طور پر دیکھنے اور روم اسٹیچیوٹ کے تحت احتساب کے طریقہ کار پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
الخلیفی نے اس موقع پر قطر کے بین الاقوامی قوانین پر پختہ یقین کو دہراتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اپنی خودمختاری کا دفاع تمام قانونی اور جائز ذرائع سے کرے گا۔
قطر نے زور دیا کہ اسرائیلی فضائی حملہ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
واضح رہے کہ 9 ستمبر کو دوحہ میں ایک نجی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا گیا تھا جہاں حماس کے رہنما موجود تھے۔ اس حملے میں پانچ حماس رہنماؤں اور ایک قطری سکیورٹی اہلکار کی ہلاکت ہوئی تھی۔ واقعے کے بعد قطر نے اسرائیل کے اقدام کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ردِعمل کا حق محفوظ رکھا اور معاملہ عالمی عدالتوں میں لے جانے کے لیے قانونی ٹیم تشکیل دی۔
اسرائیل کے اس حملے پر عرب دنیا سمیت عالمی سطح پر بھی شدید مذمت کی گئی اور اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانے کا مطالبہ کیا گیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں آئی سی سی نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآف گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے تھے۔