لاہور کے چیئرنگ کراس میں موجود اسلامی سمٹ مینار کی بحالی کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
لاہور میں 1974ء میں منعقد ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے تاریخی سربراہی اجلاس کی یادگار اسلامی سمٹ مینار کو نصف صدی بعد پہلی مرتبہ باقاعدہ بحالی کے عمل میں شامل کر لیا گیا ہے۔
پنجاب حکومت نے اس منصوبے کو اپنی ثقافتی پالیسی کا حصہ بناتے ہوئے اسے اصل شکل میں محفوظ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، جسے ماہرین مسلم دنیا کے اتحاد اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تاریخ کا اہم نشان قرار دیتے ہیں۔
سیکرٹری سیاحت۔پنجاب ڈاکٹر احسان بھٹہ نے اسمبلی چوک میں واقع اس یادگار کا تفصیلی دورہ کیا۔ اس موقع پر محکمہ مواصلات و تعمیرات ،محکمہ آثار قدیمہ کے حکام نے منصوبے کے تکنیکی پہلوؤں پر انہیں بریفنگ دی۔
ماہرین نے بتایا کہ سمٹ مینار 1974ء کے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سربراہی اجلاس کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس اجلاس کی میزبانی اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کی، جس میں 38 مسلم ممالک کے سربراہان اور وزرائے خارجہ شریک ہوئے۔
یہ اجلاس مسلم دنیا کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہوا جہاں فلسطین کے حقِ خود ارادیت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا، یاسر عرفات کو فلسطینی عوام کا نمائندہ مانا گیا اور اسلامی ممالک نے مشترکہ خارجہ پالیسی کی سمت متعین کرنے پر اتفاق کیا۔ اسی یادگار کو لاہور میں سمٹ مینار کی صورت میں محفوظ کیا گیا۔
تاہم 1974ء سے اب تک اس یادگار کی باضابطہ مرمت یا بحالی نہیں کی گئی تھی۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی اور سینئر وزیر مریم۔اورنگزیب کی خواہش پر اب اس کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لئے نیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان (نیسپاک) نے ڈھانچے، سیوریج سسٹم اور ساختی مضبوطی کا تفصیلی مطالعہ مکمل کیا ہے، جس کی روشنی میں حتمی ڈیزائن تیار کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر احسان بھٹہ نے بتایا کہ فنِ تعمیر کے اعتبار سے سمٹ مینار ایک شاندار یادگار ہے۔ یہ چھ کونوں پر مشتمل ایک بلند ستون نما ڈیزائن رکھتا ہے جو مسلم دنیا کے اتحاد اور اجتماعیت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مینار کے گرد وسیع پلیٹ فارم بنایا گیا ہے جہاں کانفرنس میں شریک ممالک کے پرچم نصب کیے گئے تھے۔
اس کے اوپری حصے میں ابھرتی ہوئی جیومیٹریکل اشکال اسلامی فنِ تعمیر کی روایات کی عکاسی کرتی ہیں، جبکہ سنگِ مرمر اور کنکریٹ کے امتزاج نے اسے ایک پر وقار اور پائیدار یادگار کا روپ دیا۔ ماہرین کے مطابق اس یادگار کی علامتی ساخت دراصل مسلم دنیا کے مختلف ممالک کے اتحاد کو ایک مرکز کے گرد اکٹھا ہونے کے تصور کے طور پر ڈیزائن کی گئی تھی۔
سیکرٹری سیاحت وآثار قدیمہ نے بتایا کہ وزیر اعلی پنجاب مریم نوازشریف کی ہدایت اور سینیئر وزیر مریم اورنگزیب کی زیرنگرانی سمٹ مینار کو اس کی اصل حالت میں محفوظ کیا جائے گا تاکہ آنے والی نسلیں اس کے ذریعے پاکستان کے تاریخی کردار اور مسلم دنیا کے اتحاد کی اس علامت کو سمجھ سکیں
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
فلسطینی بچوں سے یکجہتی، جماعت اسلامی کے تحت ”کراچی چلڈرن غزہ مارچ“ لبیک یا اقصیٰ کے نعرے
اسلام ٹائمز: امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے ریلی سے خطاب میں کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ خوش آئند ہے لیکن اس میں ایران اور دیگر عرب ممالک کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے، اسرائیل صرف بچوں کو مار سکتا ہے، حماس اور القسام بریگیڈ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ حماس ایک قانونی اور شرعی مزاحمتی قوت ہے جو بین الاقوامی قوانین کے مطابق جہاد کررہی ہے۔ خصوصی رپورٹ
جماعت اسلامی کے تحت اسرائیل کی جارحیت و دہشت گردی کے شکار اہل فلسطین بالخصوص بچوں سے اظہار یکجہتی کے لیے شاہراہ قائدین پر ”کراچی چلڈرن غزہ مارچ“ کا انعقاد کیا گیا۔ تاحد نگاہ دور تک طلبہ و طالبات کے سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ مارچ میں شہر بھر سے نجی و سرکاری اسکولوں کے طلبہ و طالبات نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کی اور لیبک یا اقصیٰ کے نعرے لگا کر غزہ کے نہتے مظلوم بچوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ فضا نعرہ تکبیر اللہ اکبر، لبیک لبیک الھم لبیک، لبیک یا غزہ، لبیک یا اقصیٰ کے نعروں سے گونجتی رہی اور بچوں میں زبردست جوش و خروش دیکھنے میں آیا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے ”کراچی چلڈرن غزہ مارچ“ میں شریک لاکھوں طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں جاری اسرائیلی دہشت گردی و جارحیت سے 97 فیصد اسکول اور 90 فیصد اسپتال تباہ کیے جاچکے ہیں، صحافیوں اور نمازیوں کو نشانہ بنایا گیا اور مساجد پر بمباری کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ پوری دنیا میں عضو معطل بن چکی ہے، اس کی قراردادوں کی کوئی حیثیت نہیں رہی، اسرائیل کو امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے جبکہ مسلم دنیا کے حکمران بے حسی کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں، غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر 20 سے 25 معصوم بچے شہید ہورہے ہیں، اب تک 22 ہزار سے زائد بچے شہید اور 42 ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے، انسانی حقوق کی بات کرنے والا امریکہ فلسطین میں انسانیت کے قتل عام پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، مسجد اقصیٰ صیہونی قبضے میں ہے، وہ گریٹر اسرائیل کے قیام کے خواب دیکھ رہے ہیں، دنیا کے باضمیر لوگ اسرائیل کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، بالخصوص امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے تعلیمی اداروں کے طلبہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے فلسطین سے اظہار یکجہتی کیا۔
حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہا کہ 7 اکتوبر کو بین الاقوامی سطح پر اسرائیل اور امریکہ کے خلاف یوم احتجاج منایا جائے گا جبکہ 5 اکتوبر کو کراچی میں شاہراہ فیصل پر عظیم الشان ”غزہ ملین مارچ“ ہوگا، دیگر مسلم ممالک میں بھی ملین مارچز ہوں گے، گزشتہ دنوں ایران اور ملائشیا کے دورے کے دوران مختلف اسلامی تحریکوں اور سفیروں سے ملاقاتیں کی گئیں اور رابطے جاری ہیں، اہل غزہ و فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے امریکہ و اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ بھی جاری رہے گا۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف منافقت ترک کریں اور اہل غزہ و مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دیں، ایک طرف اسرائیل کی مذمت اور دوسری طرف اسرائیل کے پشت پناہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کرتے ہیں، امریکہ انسانیت کا قاتل ہے، ہیروشیما، ناگاساکی، عراق، افغانستان اور ویتنام میں لاکھوں انسانوں کے قتل عام کی تاریخ سب کے سامنے ہے، امریکہ کبھی کسی کا دوست نہیں ہوسکتا، اس کی تاریخ بے وفائی اور منافقت سے بھری ہوئی ہے، قطر پر حملے نے ثابت کردیا کہ امریکہ کسی مسلم ملک کا وفادار نہیں۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو بیانات اور قراردادوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے، پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ خوش آئند ہے لیکن اس میں ایران اور دیگر عرب ممالک کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے، اسرائیل صرف بچوں کو مار سکتا ہے، حماس اور القسام بریگیڈ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ حماس ایک قانونی اور شرعی مزاحمتی قوت ہے جو بین الاقوامی قوانین کے مطابق جہاد کررہی ہے، فلسطینی اپنے ایمان اور صبر کی بدولت استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کی آنے والی نسلیں بھی مزاحمت جاری رکھیں گی، فلسطین میں چاروں طرف سے محاصرہ ہے، امداد پہنچنے کے تمام راستے بند ہیں، جماعت اسلامی گلوبل صمود فلوٹیلا کی مکمل حمایت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا، ہم دو ریاستی حل کو نہیں مانتے، اسرائیل ایک ناپاک وجود ہے، امریکہ اس کی ناجائز اولاد ہے، جبکہ برطانیہ نے 1917ء میں ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔
امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے چلڈرن غزہ مارچ میں لاکھوں کی تعداد میں شریک طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج میں آپ سب کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ آپ غزہ کے مظلوم بچوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں، آپ کی یہ حاضری اور آواز یہ پیغام دے رہی ہے کہ اگرچہ دنیا سو رہی ہے لیکن ہم اہلِ کراچی اور اہلِ پاکستان اہلِ غزہ کے ساتھ ہیں، ہم اپنے فلسطینی بچوں کے ساتھ ہیں، ہم بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے کھڑے ہیں، اور ہم آج یہاں ان مظلوموں کی آواز میں آواز ملانے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2 سال گزر چکے ہیں، غزہ پر آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، اسرائیل منصوبہ بندی کے تحت فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، غزہ کے بچوں اور ماؤں اور بہنوں کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے، 65 ہزار سے زائد شہداء اور لاکھوں زخمی اس امت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں، پورے غزہ کو کھنڈرات میں بدل دیا گیا ہے اور یہ سب کچھ امریکہ کی سرپرستی میں کیا جارہا ہے۔
منعم ظفر خان نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کو اسلحہ اور ڈالر فراہم کرکے فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر کا شریک ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جنگ صرف فلسطینیوں کی نہیں رہی، یہ ظالم اور مظلوم اور انسانیت کی بقا کی جنگ ہے، پوری دنیا کے باضمیر لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، یونیورسٹیوں کے طلبہ ہوں یا یورپ اور امریکہ کے عوام، لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل کر اپنے حکمرانوں کو آئینہ دکھا رہے ہیں، وہ سوال کرتے ہیں کہ کہاں گئے وہ انسانی حقوق کے دعوے؟ کہاں گئے وہ ادارے جو جانوروں کے حقوق کی بات کرتے تھے؟ کیا انہیں غزہ کا خون بہتا نظر نہیں آتا؟ لیکن افسوس! 22 ماہ سے زائد گزر گئے مگر مسلم دنیا کے حکمران صرف اجلاس کرتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں، کھانے کھاتے ہیں اور منتشر ہو جاتے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی کراچی اگر مسلم دنیا کے حکمرانوں نے زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر کردار ادا نہیں کیا تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔انہوں نے کہا کہ اہلِ غزہ نے دنیا کو یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایمان اور استقامت کے سامنے بڑے سے بڑا دشمن بھی شکست کھا جاتا ہے، فلسطینی عوام 700دنوں سے ڈٹے ہوئے ہیں، یہی ایمان، یہی جذبہ ہے جو انہیں ناقابلِ شکست بنا رہا ہے لیکن ہمیں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ہماری ذمہ داری ہے کہ فلسطنیوں پر مظالم کے خلاف اپنی آواز بلند کریں، سڑکوں، گلیوں اور محلوں میں نکل کر احتجاج کریں اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، ہمیں یقین ہے کہ ہماری یہ جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی، ایک دن قبلہ اول آزاد ہوگا، ہم بیت المقدس میں نماز پڑھیں گے اسرائیل نابود ہو جائے گا، امریکہ ہو یا برطانیہ یا مغرب کی طاقتیں، یہ سب زوال پذیر ہیں، کامیابی اور کامرانی صرف اسلام کا مقدر ہے۔