کئی برسوں تک امریکا کی جانب سے ٹک ٹاک کی مجبوری فروخت کے مطالبے کو ’ڈاکوؤں کی منطق‘ قرار دینے والا چین اب اسی ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم کو امریکا کے ساتھ مذاکرات میں ایک ممکنہ سودے کا حصہ بنانے پر آمادہ دکھائی دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ٹک ٹاک معاہدہ، بائٹ ڈانس کو امریکی آپریشنز میں بورڈ سیٹ مل گئی

ٹک ٹاک کی چینی کمپنی بائٹ ڈانس (ByteDance) کے امریکی آپریشنز پر امریکا طویل عرصے سے اعتراض کرتا آیا ہے۔ واشنگٹن کا مؤقف ہے کہ یہ پلیٹ فارم بیجنگ کے اثر و رسوخ اور صارفین کی پرائیویسی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

تاہم اب چینی حکام نے عندیہ دیا ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تیار ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بیجنگ ٹک ٹاک کو ایک ’سفارتی ہتھیار‘ کے طور پر دیکھ رہا ہے تاکہ اسے تجارتی پابندیوں، ٹیکنالوجی پر قدغن اور تائیوان کے معاملے پر چھوٹ مل سکے۔

سب سے بڑا سوال: الگورتھم کس کے پاس رہے گا؟

امریکا میں ٹک ٹاک کے تقریباً 170 ملین صارفین ہیں، اور اس کی غیر معمولی مقبولیت کا راز اس کا طاقتور الگورتھم ہے۔

2020 میں چین نے ایسے حساس ٹیکنالوجیز کے برآمد پر سخت قوانین نافذ کیے تھے، جن میں ٹک ٹاک کا الگورتھم بھی شامل ہے۔ اسی لیے اصل سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ڈیل ہوتی ہے تو اس الگورتھم پر کنٹرول کس کے پاس ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:ٹک ٹاک کا امریکی آپریشن امریکیوں کے کنٹرول میں ہوگا، وائٹ ہاؤس

چین نے اب تک کسی حتمی معاہدے کی تصدیق نہیں کی ہے، البتہ سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین ایک بنیادی فریم ورک پر متفق ہوئے ہیں۔

امریکا کا مؤقف

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو دوبارہ وائٹ ہاؤس لوٹے ہیں، جلد از جلد اس معاملے کو نمٹانا چاہتے ہیں۔

ان کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات سے قبل ٹک ٹاک پر کسی معاہدے کو بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرنے کے خواہاں ہیں۔

امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈیل کے تحت ٹیکساس کی کمپنی اوریکل (Oracle) ٹک ٹاک کے الگورتھم کو لائسنس کے ذریعے استعمال کرے گی اور امریکی ڈیٹا کی بنیاد پر اسے دوبارہ تربیت دے گی۔

اوریکل کے بانی لَیری ایلیسن کی اسرائیل نواز پالیسی بھی اس معاملے کو سیاسی رنگ دیتی ہے، کیونکہ کچھ ریپبلکن رہنماؤں نے 2023 سے ٹک ٹاک پر ’ pro-Palestinian ‘ مواد پھیلانے کا الزام لگایا ہے۔

ماہرین کی رائے

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر چین الگورتھم پر نرمی دکھاتا ہے تو وہ بدلے میں امریکا سے بڑے معاشی یا تجارتی فائدے چاہے گا۔

ہانگ کانگ کے ایشیا گلوبل انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہی وائی تانگ کے مطابق اگر امریکا کی اضافی 30 فیصد ٹیرف کم ہو جائے تو یہ چین کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹک ٹاک معاہدے کا اعلان، کونسی امریکی کمپنیاں ٹک ٹاک خرید سکتی ہیں؟

دوسری طرف کچھ ماہرین جیسے آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف سڈنی کی چن می زی سو سمجھتی ہیں کہ بائٹ ڈانس اپنی بنیادی ٹیکنالوجی کسی صورت ظاہر نہیں کرے گا، اور زیادہ سے زیادہ امریکا کو ’سطحی‘ ورژن فراہم کیا جا سکتا ہے۔

آئندہ کا منظرنامہ

فی الحال یہ واضح نہیں کہ معاہدہ کس صورت میں ہوگا اور الگورتھم پر اصل کنٹرول کس کے پاس رہے گا۔ لیکن مبصرین کے مطابق اگرچہ واشنگٹن اور بیجنگ کھلے عام سودے بازی کو تسلیم نہیں کریں گے، تاہم ممکن ہے کہ امریکا نئی تجارتی پابندیوں یا ٹیرف میں تاخیر کر کے نرم رویہ اپنائے۔

ٹک ٹاک کا مستقبل صرف ایک ایپ کا معاملہ نہیں رہا، بلکہ یہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان وسیع تر معاشی اور سفارتی تعلقات کا حصہ بن چکا ہے۔

اگر یہ معاہدہ کامیاب ہوتا ہے تو یہ نہ صرف ٹک ٹاک کے مستقبل کا تعین کرے گا بلکہ واشنگٹن اور بیجنگ کے تعلقات میں کشیدگی کم کرنے کا ایک ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

الگورتھم امریکا اوریکل ٹک ٹاک چین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: الگورتھم امریکا اوریکل ٹک ٹاک چین کے مطابق ٹک ٹاک کے لیے

پڑھیں:

بگرام ایئر بیس کی واپسی: صدر ٹرمپ کی افغانستان کو بڑی دھمکی

امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بگرام ایئر بیس اُن لوگوں کو واپس نہیں دیا گیا جنھوں نے اسے بنایا  یعنی امریکا تو بہت برا ہوگا۔

صدر ٹرمپ نے یہ بیان اپنی سوشل میڈیا پوسٹ ٹروتھ سوشل میں لکھا اور بعد ازاں رپورٹرز سے بھی اسی اشارے میں بات کی، جس میں اُنھوں نے بگرام کی اسٹریٹجک اہمیت پر زور دیا۔

غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق بگرام ایئر بیس 2021 میں امریکی انخلا کے بعد طالبان کے کنٹرول میں آگیا تھا جبکہ طویل عرصے تک یہ امریکی آپریشنز کا مرکز رہا ہے۔ اس ایئر بیس کی بحالی یا امریکی دسترس دوبارہ حاصل کرنے کے خیال نے خطّے میں کشیدگی بڑھا دی ہے۔

یہ پڑھیں: امریکا اور افغانستان میں بگرام ایئربیس پر مذاکرات کا آغاز، صدر ٹرمپ کی تصدیق

خبر ایجنسی کے مطابق طالبان اور کابل میں افغان سرکاری حلقوں نے فی الفور اس مطالبے کی مخالفت کی ہے اور بیرونی فوجی موجودگی کی بازگشت پر سختی سے انکار کیا ہے۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ کابل مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن امریکا کو وسطی ایشیائی ملک میں فوج کی تعیناتی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بگرام کی دوبارہ واپسی یا بحالی عملی طور پر پیچیدہ اور مہنگی ثابت ہو سکتی ہے، اس میں بڑے فوجی وسائل اور خطّے میں طویل مدت کے دفاعی انتظامات درکار ہوں گے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا کو بگرام ایئربیس کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے تھا اور اب اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے افغانستان سے مذاکرات جاری ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • چین اور امریکا کے درمیان دفاعی مذاکرات کا آغاز ہوگیا
  • امریکی ایچ ون بی ویزا اب صرف امیروں کے لیے رہ گیا؟
  • بھارت امریکا تجارتی کشیدگی: مودی کی قوم سے اپنی مصنوعات استعمال کرنے کی اپیل
  • ٹک ٹاک معاہدہ، بائٹ ڈانس کو امریکی آپریشنز میں بورڈ سیٹ مل گئی
  • ممکنہ معاہدے میں ٹک ٹاک کے الگورتھم کا کنٹرول اپنے پاس رکھیں گے، امریکہ
  • امریکی ایچ ون-بی ویزا کی نئی فیس کن افراد پر لاگو نہیں ہوگی؟ تنازع کے بعد وائٹ ہاؤس کی وضاحت جاری
  • اگر بگرام ایئر بیس واپس نہ دی تو بہت برا ہوگا، ٹرمپ کی افغانستان کو بڑی دھمکی
  • بگرام ایئر بیس کی واپسی: صدر ٹرمپ کی افغانستان کو بڑی دھمکی
  • ٹک ٹاک پر چین کا مؤقف برقرار، ٹرمپ کال کے بعد بھی لچک نہ دکھائی