Jasarat News:
2025-11-11@07:37:50 GMT

سفر میں دو نمازیں جمع کرنا

اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نماز کے سلسلے میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”نماز درحقیقت ایسا فرض ہے جو پابندئ وقت کے ساتھ اہلِ ایمان پر لازم کیا گیا ہے“ (النساء :103)۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت ہی میں ادا کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسولؐ نے اپنے عمل سے ہر نماز کے اوّلِ وقت اور آخرِ وقت کی تعیین فرمادی تھی اور ہمیشہ ہر نماز کو اس کے وقت کے اندر ہی ادا کرنے کا اہتمام فرمایا ہے۔ سفر کے دوران میں جہاں کہیں آپ قیام فرماتے وہاں قصر تو کرتے تھے، لیکن جمع بین الصلاتین نہیں کرتے تھے، بلکہ ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا فرماتے تھے، البتہ سفر جاری رہنے کی صورت میں بعض اوقات آپ نے جمع بین الصلاتین کیا ہے۔
اس لیے آپ کی سنّت کی اتباع کا تقاضا ہے کہ دورانِ سفر کہیں قیام ہو اور ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا ممکن ہو تو اس کا اہتمام کرنا چاہیے، لیکن اگر دو نمازوں (ظہر و عصر اور مغرب و عشا) میں سے کسی نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ناممکن یا زحمت طلب ہو تو جمع بین الصلاتین کیا جاسکتا ہے۔

کیا سفر میں ظہر و عصر اور مغرب و عشا کی نمازیں ایک ساتھ پڑھی جاسکتی ہیں؟ اس سلسلے میں معروف یہ ہے کہ حنفی مسلک میں یہ جائز نہیں ہے۔ حنفی علما جمع صوری کی اجازت دیتے ہیں، یعنی ظہر کی نماز بالکل آخری وقت میں پڑھی جائے اور عصر کی نماز بالکل اوّل وقت میں، اسی طرح مغرب کی نماز بالکل آخری وقت میں پڑھی جائے اور عشا کی نماز بالکل اوّل وقت میں۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام نمازوں کے اوقات متعین کردیے ہیں۔ صرف دو صورتیں مستثنیٰ ہیں: ایامِ حج کے دوران میں 9 ذی الحجہ کو عرفات میں زوال کے بعد جمع تقدیم، یعنی ظہر کے وقت میں ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ پڑھنا اور غروبِ آفتاب کے بعد مزدلفہ پہنچ کر جمع کرنا، یعنی مغرب اور عشا کی نمازیں عشا کے وقت میں پڑھنا ۔ ان دو مواقع کے سوا کسی نماز کو اس کے وقت کے علاوہ دوسرے وقت میں پڑھنا جائز نہیں ہے۔ یہ حضرات اپنے اس موقف پر بعض احادیث اور آثارِ صحابہ سے استدلال کرتے ہیں، جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔ (فتاویٰ شامی ،کتاب الصلاۃ)
دیگر فقہاء (امام مالک، امام شافعی اور امام احمدؒ) کے نزدیک جمع بین الصلاتین (دو نمازوں کو جمع کرنا) کی دونوں صورتیں جائز ہیں: جمعِ تقدیم بھی، یعنی ظہر کے وقت میں ظہر اور عصر اور مغرب کے وقت میں مغرب اور عشا دونوں نمازیں پڑھ لینا اور جمعِ تاخیر بھی، یعنی عصر کے وقت میں ظہر اور عصر اور عشا کے وقت میں مغرب اور عشا کی نمازیں ادا کرنا۔ ان حضرات کا استدلال بعض ان احادیث سے ہے جن میں رسولؐ کے جمع بین الصلاتین کا عمل انجام دینے کا ثبوت ملتا ہے ۔ مثلاً صحیح مسلم میں حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ایک روایت میں وہ بیان کرتے ہیں:
”ہم نبیؐ کے ساتھ غزوۂ تبوک میں نکلے تو آپ ظہر و عصر اور مغرب و عشا کو ایک ساتھ پڑھتے تھے“۔

جمعِ صوری کو اختیار کرنا بظاہر دشوار معلوم ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے موجودہ دور کے بعض حنفی علما نے جمع بین الصلاتین کو مطلق جائز قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر مولانا عبد الشکور فاروقیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ کا نام پیش کیا جاسکتا ہے۔ اب حنفی مسلک پر عمل کرنے والے بہت سے لوگوں کا عمومی رجحان مطلق جمع بین الصلاتین کی طرف ہوگیا ہے۔ سفر کی زیادہ سے زیادہ مدّت 14دن ہے۔ چنانچہ ان کا کہیں چند دنوں کے لیے قیام ہو تو وہ بلا تکلّف قصر نماز پڑھنے کے ساتھ دو نمازوں کو جمع کرلیتے ہیں۔
اس سلسلے میں علامہ ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ نظر سے گزرا، جو قابلِ غور معلوم ہوتا ہے۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ سفر میں جمع بین الصلاتین افضل ہے یا قصر؟ اس کا انھوں نے یہ جواب دیا:
”ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا افضل ہے، اگر دو نمازوں کو جمع کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہو۔ اس لیے کہ سفر میں رسولؐ زیادہ تر نمازیں ان کے اوقات میں ادا کرتے تھے۔ آپ نے بہت کم مواقع پر جمع بین الصلاتین کیا ہے“ (مجموع الفتاویٰ)۔
انھوں نے مزید فرمایا:
”اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر میں قصر کی طرح جمع سنّتِ نبوی نہیں ہے، بلکہ ایسا صرف وقتِ ضرورت کیا جائے گا، چاہے سفر میں ہو یا حضر میں“ (مجموع الفتاویٰ)۔

محمد رضی الاسلام ندوی گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہر نماز کو اس کے وقت کی نماز بالکل ا عصر اور مغرب عشا کی نماز کے وقت میں کی نمازیں اور عشا اور عصر نہیں ہے

پڑھیں:

27ویں ترمیم کا مطلب سندھ کی شناخت ختم کرنا ہے، عوامی تحریک

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر) عوامی تحریک کے مرکزی رابطہ سیکریٹری لال جروار، حسین سومرو اور سارنگ راجا نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم لانے کا مقصد پاکستان کے بانی صوبے سندھ کے تاریخی وجود اور شناخت کو ختم کرنا ہے۔نئے انتظامی یونٹس کے نام پر کراچی اور حیدرآباد کو اسٹیبلشمنٹ کے پالے اور تیار کردہ دہشت گرد گروہ ایم کیو ایم کے حوالے کرنا اور باقی اضلاع کو سرداروں اور جاگیرداروں کے سپرد کرنا اس ترمیم کا اصل مقصد ہے۔رہنماؤں نے کہا کہ جمہوریت کے نام پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ضیائی، ایوبی اور مشرفی مارشل لا سے بھی بڑھ کر جمہوریت پر حملہ کیا ہے اور آمریت کو قانونی و آئینی تحفظ فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پیکا ایکٹ، اور دہشت گردی کے نام پر بغیر ایف آئی آر کسی شخص کو محض شک کی بنیاد پر اٹھانے جیسے کالے قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔رہنماؤں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اقتدار کی لالچ میں اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے سندھ کے تاریخی وجود اور وسائل پر مہلک حملہ کیا ہے، مگر سندھی عوام پیپلز پارٹی کے اس مجرمانہ قومی جرم کے خلاف پرامن جدوجہد جاری رکھیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم اور دیگر سندھ دشمن منصوبوں کے خلاف سندھیانی تحریک کی جانب سے 16 نومبر کو حیدرآباد میں عظیم الشان احتجاجی مارچ کیا جائے گا۔رہنماؤں نے سندھی عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے تاریخی وطن، تہذیب، ثقافت، زبان اور وسائل کے تحفظ کے لیے پرامن جمہوری جدوجہد جاری رکھیں۔

اسٹاف رپورٹر گلزار

متعلقہ مضامین

  • مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی انتقال کر گئے، نمازِ جنازہ آج  ادا کی جائے گی
  • سعودی عرب میں بارش کے لئے نماز استسقاء ادا کرنے کا اعلان
  • بنگلور کے ایئرپورٹ پر نماز کی ادائیگی، بی جے پی آگ بگولہ
  • سابق ایم این اے  جسٹس (ر) افتخار چیمہ سپردخاک
  • پاکستان سے جنگ نہ کرنا، بھارت کو انتباہ
  • رائے ونڈ: عالمی تبلیغی اجتماع کا پہلا مرحلہ دعا کیساتھ ختم
  • مقاومت کو غیر مسلح کرنا ناممکن ہے، جھاد اسلامی
  • تجدید وتجدّْد
  • 27ویں ترمیم کا مطلب سندھ کی شناخت ختم کرنا ہے، عوامی تحریک
  • اپوزیشن کا کام ہے متاثر کرنا مگر متاثر نہیں ہو رہے، یوسف رضا گیلانی