اسلام آباد:

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا ہے ہے کہ فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا پی ٹی آئی چاہتی تو فریق بن سکتی تھی مگر جان بوجھ کر نہیں بنی، سپریم کورٹ نے کبھی حکم نہیں دیا کہ پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ سکتی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جو کہ 47 صفحات پر مشتمل ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر نے وجوہات تحریر کی ہیں، تفصیلی فیصلے میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں، جسٹس صلاح الدین پنہور کی سماعت سے الگ ہونے کی وجوہات پر الگ نوٹ بھی شامل ہے۔

سپریم کورٹ نے نظر ثانی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے 27 جون کو فیصلہ سنایا تھا تاہم تفصیلی فیصلہ آج آیا ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریویو پٹیشنز صرف آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے، 13 رکنی آئینی بینچ کے سامنے نظر ثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی گئیں، آئینی بینچ کے 11 ججوں نے فریقین اور اٹارنی جنرل ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا، بینچ کے دو ارکان نے مختلف رائے دی اور ریویو پٹیشنز مسترد کر دیں، دو ججز نے حتمی فیصلہ سنا کر مزید کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں سات غیر متنازع حقائق ہیں، سنی اتحاد کونسل کی حد تک مرکزی فیصلے میں اپیلیں متفقہ طور پر خارج ہوئیں کہ وہ مخصوص نشستوں کی حق دار نہیں، مرکزی فیصلے میں پی ٹی آئی کو ریلیف دے دیا گیا جبکہ وہ فریق ہی نہیں تھی، پی ٹی آئی اگر چاہتی تو بطور فریق شامل ہو سکتی تھی مگر جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا گیا، پی ٹی آئی کیس میں کسی بھی فورم پر فریق نہیں تھی، جو ریلیف مرکزی فیصلے میں ملا برقرار نہیں رہ سکتا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے کبھی یہ حکم نہیں دیا کہ پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ سکتی، 80 آزاد امیدواروں میں سے کسی نے بھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں یا مخصوص نشستیں انہیں ملنی چاہئیں، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دیں، مرکزی فیصلے میں ان جماعتوں کو بغیر سنے ڈی سیٹ کر دیا گیا، جو قانون اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھا، مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا، آرٹیکل 187 کا استعمال اس کیس میں نہیں ہوسکتا تھا۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مرکزی فیصلے میں سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں پی ٹی آئی کو ریلیف میں کہا

پڑھیں:

مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرِ ثانی درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری

سپریم کورٹ آف پاکستان—فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔

47 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلافی نوٹ اور جسٹس صلاح الدین پنہور کا سماعت سے الگ ہونے کی وجوہات پر الگ نوٹ بھی شامل ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر الگ وجوہات تحریر کریں گے۔

سپریم کورٹ نے نظرِ ثانی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 27 جون کو فیصلہ سنایا تھا۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق ریویو پٹیشنز صرف آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے، 13 رکنی آئینی بینچ کے سامنے نظرِ ثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی گئیں، آئینی بینچ کے 11 ججوں نے فریقین، اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا۔

پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

آئینی بینچ کے لیے نامزد ہونے والے تمام ججز نظرثانی کیس کے لیے تشکیل بینچ میں شامل ہیں۔

تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ بینچ کے 2 ارکان نے مختلف رائے دی اور ریویو پٹیشنز مسترد کر دیں جبکہ 2 ججز نے حتمی فیصلہ سنا کر مزید کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق مخصوص نشستوں کے 12 جولائی 2024ء کے اکثریتی فیصلے میں نئی ٹائم لائنز مقرر کی گئیں، نئی ٹائم لائنز انتخابی شیڈول، الیکشن ایکٹ کی دفعات اور آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کے منافی تھیں، آئین اور قانون کے برخلاف ماضی سے مؤثر، نئی ٹائم لائنز مقننہ کا اختیار ہے عدالت کا نہیں، نئی ٹائم لائنز مقرر کر کے ہدایات کے ذریعے عدالت نے عدالتی اختیار کی حد سے تجاوز کیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے دائرہ اختیار سے باہر جا کر اقدام کیا اور آئین کے آرٹیکل 175(2) کی خلاف ورزی کی، نئی ٹائم لائنز، ہدایات ناصرف آئینی اور قانونی دفعات کی خلاف ورزی تھے، اس میں آئین میں درج اختیارات کی علیحدگی کے اصول کو بھی پامال کیا گیا، عدالت نے اپنی واضح حدود سے آگے بڑھ کر قانون سازی کے میدان میں مداخلت کی۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 12 جولائی 2024ء کا اکثریتی فیصلہ آئین میں دیے گئے جمہوری اقدار اور اصولوں کی بھی کھلی خلاف ورزی تھا، مخصوص نشستوں پر انتخابات، بلاشبہ بالواسطہ اور بلاشبہ تناسبی نمائندگی کے اصول پر مبنی تھے، 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے میں عوام کی مرضی اور آئین کے حکم کو نظر انداز کیا گیا، 12 جولائی 2024ء کے اکثریتی فیصلے میں آئین قانون کو نظر انداز کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • مخصوص نشستیں کیس: آئین لکھنے کا اختیار نہیں، پی ٹی آئی کو بغیر فریق بنے ریلیف ملا، برقرار نہیں رہ سکتا: سپریم کورٹ
  • مخصوص نشستیں کیس: فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا‘ عدالت عظمیٰ
  • مخصوص نشستیں کیس، نظرثانی درخواستوں کی منظوری کا تفصیلی فیصلہ جاری
  • مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا
  • مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرِ ثانی درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری
  • مخصوص نشستیں کیس: تحریک انصاف کوفریق بنے بغیرریلیف ملا،برقرارنہیں رہ سکتا،عدالت عظمیٰ
  • مخصوص نشستیں کیس، فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ: مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری
  • فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا