پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کررہا، ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے، ایاز صادق
اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)قائمقام صدر اور اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کررہا جب کہ سابق سینیٹر مشتاق کو اسرائیل کے چنگل سے چھڑوانے کے لیے اسحاق ڈار یورپ سے مسلسل رابطے میں ہیں۔لاہور میں جی ٹی روڈ پر منعقد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائمقام صدر سردار ایاز صادق کا کہنا تھا کہ مشتاق احمد کی رہائی کے لئے قومی اسمبلی میں اسحاق ڈار نے جو تقریر کی وہ سن لیں وہ یورپ سے رہائی کے لئے مسلسل رابطہ میں ہیں اور اسرائیل کے چنگل سے سابق سینیٹر کی رہائی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
میں نے چھوٹے بیٹے کو ہنی مون پر تھائی لینڈ روانہ ہوتے وقت مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو وہاں کلب لے کر جائے، اداکارہ اسما عباس
انہوں نے کہا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کررہا اس لئے اس پر ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے، اسرائیل غزہ میں قتل عام کر رہا ہے، ہم نے اسرائیلی جنگ بندی اور اس کے غزہ سے نکلنے کی بات کی ہے۔ان کاکہنا تھا کہ اسرائیل کی سیاست لوگوں کو سچی بات نہیں بتا رہی، سی-پیک ون ہو یا ٹو ہم نے سازشوں کا مقابلہ کیا اور سرخرو ہوئے لیکن اب بھی مسلسل سازش ہورہی ہے۔ایاز صادق نے کہا کہ پاکستان فلسطین کا مسئلہ حل کرنے لگے ہیں تو کہتے ہیں سازش ہو رہی ہے، سازش کرنے والی قوتوں کا حکومت اور افواج پاکستان بھی مقابلہ کرے گی۔
بلوچستان میں نئی بندرگاہ کی تعمیر صرف ایک تجویز ہے، حامد میر
ان کا مزید کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں افواج پاکستان کی تنصیبات پر حملہ اچھی بات نہیں، ان شہدا کے خون کو ضائع نہیں ہونے دیں گے اور جن لوگوں نے کشمیر میں فوج پولیس یا رینجرز پر حملہ کیا ہے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔اس موقع پر صوبائی وزیر سہیل شوکت بٹ کا کہنا تھا کہ آج ہمارے حلقہ کے ترقیاتی کام مکمل ہونے پر خوشی کا دن ہے، اگر نیت ٹھیک ہو تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: ایاز صادق سازش ہو رہی ہے تھا کہ
پڑھیں:
ٹرمپ کا امن منصوبہ یا امت ِ مسلمہ کے خلاف سازش؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا ایک بار پھر بڑے منظرناموں کے پیچھے چھپی حقیقت سے آنکھیں چرا رہی ہے۔ امریکا اور اسرائیل نے غزہ کے حوالے سے وہ معاہدہ پیش کیا ہے جسے بڑے شوروغل کے ساتھ ’’امن منصوبہ‘‘ کہا جا رہا ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے: یہ امن نہیں، فریب اور سیاسی سودے بازی ہے جس کا نتیجہ فلسطینیوں کی مزید بے بسی اور اسرائیلی تسلط کی باضابطہ تقویت ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیا گیا یہ منصوبہ دراصل غزہ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ایک ایسا سیاسی جال جس کا مقصد مظلوم کو جھٹلا کر مظالم کو جائز قرار دینا ہے۔ یہ بات کسی قسم کی مبالغہ آرائی نہیں؛ تاریخ بارہا بتا چکی ہے کہ بڑی طاقتیں اپنے مفاد کے لیے وعدے کرتی ہیں اور معاہدے کرتی ہیں، مگر نتیجہ ہمیشہ کمزور طبقات کے نقصان میں نکلتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ ’’یہود و نصاریٰ تمہارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے‘‘۔ (البقرہ: 120) اور رسولِ مقبولؐ نے اسی حقیقت کی طرف خبردار کیا۔ آج جب ہم غزہ کی ویرانی، بے گھر خاندان، اور سسکتی ہوئی ماؤں کو دیکھتے ہیں تو یہ نصیحت حرفِ آخر کی طرح سچ معلوم ہوتی ہے۔ مزید افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت نے اس معاہدے کے متعلق جو ردِ عمل دکھایا یا جس پر خاموشی اختیار کی وہ امت ِ مسلمہ کی قلبی توقعات کے بالکل برعکس ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے ٹرمپ کو امن کا علمبردار قرار دینا اور اس کے لیے ایوارڈ کی بات کرنا — چاہے وہ محض ایک تجویز یا حمایت ہو!! دراصل فلسطینی شہداء کے خون کے ساتھ ایک ظالمانہ کھلواڑ ہے۔ ایسے شخص کو امن کا علم بردار کہنا، جس کے دورِ اقتدار میں لاکھوں مظلوموں کا خون بہا، اسپتال و اسکول ملبے میں تبدیل ہوئے اور بے گناہ بچے یتیم ہوئے، انسانیت کے منافی ہے۔
فلسطین کے محاذ پر جو قوتیں کھڑی ہیں، ان میں حماس ایک ایسا نام ہے جس نے عملی مزاحمت کے ذریعے امت ِ مسلمہ کے فرض کو ادا کرنے کی کوشش کی۔ حماس کے بانی اور قائدین نے اپنی اپنی جگہ پر قربانیاں دیں اور دین و وطن کے دفاع کی خاطر جدوجہد کی۔ حماس کی قیادت اور مجاہدین نے ہمیشہ یہ واضح کیا ہے کہ لہو کے آخری قطرے تک سرزمین ِ فلسطین کی حفاظت کریں گے۔ حماس کی لاتعداد قربانیوں کے بعد عالمی سطح پر بہت سے مسلم ممالک نے کھل کر اسرائیل کی پالیسیوں کی مخالفت کی ہے؛ احتجاج ہوئے، قراردادیں منظور ہوئیں، بعض حکومتوں نے سفارتی سطح پر اقدامات کیے۔ مگر پاکستان کی پالیسی، جو روایتی طور پر فلسطین کے حق میں مضبوط بیانیہ رکھتی آئی ہے، آج عملی موقف میں نمایاں طور پر کمزور دکھائی دیتی ہے۔ زبانی اظہارِ یکجہتی کافی نہیں؛ عملی قدم، واضح بیانیہ اور بین الاقوامی سطح پر مضبوط موقف درکار ہوتا ہے۔ افسوس کہ تاحال پاکستان کی جانب سے کھلے اور واضح الفاظ میں اسرائیل کی مخالفت یا اْس کے خلاف ٹھوس عملی اقدامات نظر نہیں آئے۔ بیانات بھی دیے گئے، مگر عملی سطح پر وہی ڈبل اسٹینڈرڈ دکھائی دیتا ہے جس نے ہماری خارجہ پالیسی کو کمزور کر دیا ہے۔
یہ دوغلی پالیسی صرف فلسطین تک محدود نہیں؛ یہ ہماری قومی خوداری، ہماری خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی شعبہ کو متاثر کرتی ہے۔ ماضی میں جب پاکستان نے اصولی موقف اپنایا تھا تو ہمیں اسلامی دنیا میں ایک وقار ملا کرتا تھا۔ مگر آج جو رویّہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ ہمیں اس عزت و وقار سے محروم کر رہا ہے۔ اب یہ بتانا ضروری ہے کہ ٹرمپ کا حالیہ معاہدہ محض ایک دستاویز نہیں؛ یہ ایک سیاسی عمل ہے جس کے اثرات آنے والے برسوں میں محسوس ہوں گے۔ یہ معاہدہ فلسطین کے حقوق پر سمجھوتا، اسرائیلی تسلط کو قانونی رنگ دینے اور خطے میں دہشت گردی کی فضا کو مزید گہرا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ایسے معاہدے کی حمایت خواہ وہ کسی حکومت کی جانب سے براہِ راست کی جائے یا خاموشی سے قبول کر لی جائے، بنیادی انسانی حقوق اور بین الاقوامی انصاف کے خلاف ایک اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔ اور جب ہمارے اعلیٰ حکومتی عہدے دار اِس پر نرم گوشہ دکھاتے ہیں یا ایوارڈ جیسی تجاویز سامنے آتی ہیں، تو یہ نہ صرف اخلاقی طور پر ناقابل ِ فہم ہے بلکہ قوم کے نظریاتی بْنیادوں کے ساتھ بھی تضاد ہے۔
ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا: کیا ہم فلسطین پر ہوئے ظلم و ستم کی اس تاریخ کو فراموش کر دیں گے؟ کیا ہم اپنے مذہبی، اخلاقی اور انسانی تقاضوں کے برعکس رہ کر دنیا کی طاقتوں کے سودے بازی میں شریک ہو جائیں گے؟ حقیقی امن کا علمبردار تو وہ ہے جو مظلوم کا حق دے اور انصاف کو قائم کرے۔ پاکستان کی قیادت کو چاہیے کہ وہ فوری اور کھلے دل کے ساتھ اس معاہدے کی کھل کر مذمت کرے، فلسطینیوں کے حق ِ خودارادیت کے لیے عملی طور پر آواز اٹھائے، اور اپنے بیانات کو عمل سے بھی ثابت کرے۔ قوم کا صبر اٹل ہے مگر تاریخ کی نظر سخت ہے؛ جو اب خاموش رہتا ہے، کل اسے اپنی چپ پر جواب دینا ہوگا۔ آخر میں ایک کڑوی مگر سچ بات کے پاکستانی وزیر اعظم اور آرمی چیف کا امریکا کا کر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عالمی دہشت گرد کو امن کا ایوارڈ دینے کی سفارش کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ موجودہ حکمران کا قدر اپنے زمینی آقاؤں کی دہلیز پر سجدہ ریز ہیں اور مسلمانوں کے خون کا سودا کرنے کو تیار ہیں۔