data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ میں زیر سماعت 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں میں وکیل حامد خان نے فل کورٹ کی تشکیل کے معاملے پر دلائل مکمل کرلیے۔ جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی، حامد خان کے آرٹیکل 191 کو بھول جانے کے جملے پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191 کو بھول جائیں تو آئینی بینچ ہی ختم، پھر ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اگر ہم اسے بھول جائیں تو پھر آج عدالت عظمیٰ کا وجود ہی نہیں رہتا۔ دوران سماعت لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان عدالت میں پیش ہوئے اور معاملے پر فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں غیر معمولی طریقے سے لائی گئی تھی، ترمیم پارلیمنٹ میں رات کے وقت منظور کی گئی۔ حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 21 اکتوبر کو عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس سمیت 17 ججز موجود تھے، 25 اکتوبر کو چیف جسٹس ریٹائر ہوگئے، ججز کی تعداد 16 رہ گئی، موجودہ آئینی بینچ کے 8 ججز بھی 26ویں آئینی ترمیم کے منظور ہونے کے وقت عدالت عظمیٰ میں موجود تھے۔ لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل نے کہا کہ باقی 8 ججز کو بھی آئینی بینچ کا حصہ ہونا چاہیے جو 26ویں آئینی ترمیم کے پاس ہونے کے وقت عدالت عظمیٰ کا حصہ تھے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین پر انحصار کرتے ہیں، وکلا بھی آئین پر انحصار کرتے ہیں، جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا، 26ویں آئینی ترمیم ٹھیک ہے یا غلط، فی الحال عدالت نے معطل نہیں کی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فی الحال ہم مرکزی کیس کو نہیں سن رہے، فْل کورٹ کی درخواست پر دلائل دیں۔ حامد خان نے مؤقف اپنایا 26ویں آئینی ترمیم سے عدلیہ کے اختیارات پر پڑے اثرات سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں، 26ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس سے بینچز بنانے کا اختیار پہلی بار واپس لے لیا گیا، جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر بھی اثر پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ترمیم سے ججز کی جوڈیشل کمیشن میں اکثریت ختم ہوگئی، جس کے باعث عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی۔ دوران سماعت جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ مسئلہ یہ ہے ابھی تک یہی فیصلہ نہیں ہوا کس بینچ نے کیس سننا ہے، ہم کس اختیار سے فل کورٹ تشکیل دیں؟ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں، 26ویں ترمیم میں کہاں لکھا ہے جوڈیشل آرڈر نہیں ہوسکتا؟ عام مقدمات میں ایسا کیا جا رہا ہے تو اس کیس میں کیوں نہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں آئین کے متن سے بتائیں ہم فل کورٹ کا آرڈر کیسے کریں؟ کیا ہم یہ آرڈر آرٹیکل 187 استعمال کر کے دیں؟ حامد خان نے کہا کہ جی بالکل! آرٹیکل 187 کے تحت عدالت اختیار استعمال کر سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ فرض کریں ہم آپ کی بات مانتے ہوئے تمام عدالت عظمیٰ ججز کو آئینی بینچ مان لیں تو آپ مطمئن ہوں گے؟ حامد خان نے کہا کہ آئینی بینچ کا تصور آپ نے 26ویں ترمیم سے دیا ہے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے کہا ہم نے نہیں دیا، پارلیمان نے دیا ہے، ہم پر نہ ڈالیں۔ حامد خان نے کہا آپ تھوڑی دیر کے لیے آرٹیکل 191 اے کو بھول جائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا بھول جائیں تو پھر آئینی بینچ ہی ختم، پھر ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم اس آرٹیکل بھول جائیں تو پھر آج عدالت عظمیٰ کا وجود ہی نہیں رہتا۔ جسٹس جمال مندو خیل نے پوچھا کہ اگر اس آئینی بینچ کا وجود ختم ہوجائے تو پھر ہم آرڈر کیسے کر سکتے ہیں؟حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ دیکھنا ہے 26ویں آئینی ترمیم آئین کے مطابق ہے بھی یا نہیں، عدالت میں آدھا فل کورٹ موجود ہے، بقیہ 8 ججز کو بھی بینچ کا حصہ بنائیں، جہاں بھی آئین پر سوال اٹھا، ہمیشہ فل کورٹ بنی ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ آپ نہیں سمجھتے اب صورتحال مختلف ہے؟ ماضی میں پریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ موجود نہیں تھا، اس وقت چیف جسٹس اختیار استعمال کر کے فل کورٹ بناتے رہے، اب یہ اختیار آئین اور قانون کے مطابق کمیٹی کا ہی ہے۔ دوران سماعت وکیل حامد خان نے دلائل مکمل کرلیے، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

مانیٹرنگ ڈیسک سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے 26ویں ا ئینی ترمیم کے نے ریمارکس دیے کہ نے استفسار کیا کہ جسٹس امین الدین عدالت عظمی ا رٹیکل 191 نے کہا کہ چیف جسٹس فل کورٹ کو بھول کا وجود بینچ کا تو پھر

پڑھیں:

سپریم کورٹ نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت براہ راست نشر کرنے کی اجازت دے دی

سپریم کورٹ نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت براہ راست نشر کرنے کی اجازت دے دی WhatsAppFacebookTwitter 0 7 October, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (آئی پی ایس )سپریم کورٹ آف پاکستان نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت براہ راست نشر کرنے کی اجازت دے دی۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف 36 درخواستوں پر سماعت کی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔آئینی بنچ میں جسٹس جمال مندو خیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی بنچ کا حصہ تھے، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بنچ میں شامل تھے۔

دوران سماعت سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے چھبیسویں آئینی ترمیم کیخلاف چھتیس درخواستوں پرسماعت براہ راست دکھانے کی درخواستیں منظور کرلیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم ہر چیز کا غلط استعمال کرتے ہیں، ہم لائیو اسٹریمنگ سے ایکسپوز ہوگئے، اس کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔وکیل خیبرپختونخوا حکومت نے فل کورٹ یا آئینی فل بنچ کی تشکیل کی استدعا کرتے ہوئے بینچ پراعتراض نہ ہونے کا موقف اپنایا۔

مصطفی نواز کھوکھر کے وکیل شاہد جمیل نے فل کورٹ کی تشکیل سیمتعلق درخواست پراعتراضات دورکرنے کی استدعا کی۔بینچ نے مشاورت کے بعد درخواست پرنمبرلگانے کی ہدایت کردی، جواد ایس خواجہ کے وکیل نے لائیو اسٹریمنگ کی درخواست کی استدعا کی۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ اگربینچ پراعتراض لگتا ہے تودوسرا بینچ ان کو سنیگا، پھرلائیوسٹریمنگ کی درخواست سنیں گے۔

وکیل نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم رات کے اندھیرے میں منظورکی گئی تھی، جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس دیئے کہ آپ چاہتے ہیں دن کی روشنی میں سماعت کے علاوہ لائیو اسٹریم بھی ہونی چاہیے۔جسٹس عائشہ ملک نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے لائیو اسٹریمنگ سے متعلق موقف پوچھا توعامررحمان نے کہا کہ لائیو اسٹریمنگ انتظامی سطح پرہوتا ہے۔جسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا کہ یعنی بینچ جوفیصلہ کرلے،اس پرراضی ہیں۔آئینی بینچ نے لائیو اسٹریمنگ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا جسے بعد میں سناتے ہوئے عدالت نے لائیو اسٹریمنگ کی درخواستیں منظور کرلیں، سماعت دوبارہ کل ہوگی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرٹرمپ منصوبے سے غزہ میں امن کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، نیتن یاہو اسرائیلی جیل میں ہم پر کُتے چھوڑے گئے، رہائی پانے والے سابق سینیٹر مشتاق احمد نے آنکھوں دیکھا حال بتا دیا سابق سینیٹر مشتاق احمد سمیت گلوبل صمود فلوٹیلا کے مزید 131 ارکان رہا آن لائن نوکریوں کے بہانے حساس معلومات حاصل کرنے کی بھارتی سازش بے نقاب اسلام آباد ہائی کورٹ: پٹوار خانوں میں پرائیویٹ افراد کی موجودگی پر جسٹس محسن اختر کیانی برہم، حکومت کو خالی آسامیاں فوری پُر کرنے... نو مئی سمیت دیگر مقدمات؛ عمران خان، بشریٰ بی بی کی ضمانت قبل از گرفتاری میں توسیع سینیٹر شبلی فراز کی خالی نشست پر ضمنی انتخاب کیلئے الیکشن شیڈول جاری TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • 26ویں آئینی ترمیم کیس ؛کیا آپ خوش نہیں ہوں گے ماضی کا فیصلہ برقرار رہے اور اب چھوٹا بنچ ہی سماعت کرے؟جسٹس جمال مندوخیل کا استفسار
  • 26 ویں آئینی ترمیم کیس: آئین میں ترمیم ہونے تک موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہو گا، جسٹس امین الدین
  • سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 26ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں پر دوبارہ سماعت شروع کر دی
  • چھبیسویں آئینی ترمیم کیس: آئین میں ترمیم ہونے تک موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہو گا، جسٹس امین الدین
  • عدالت کو بتا دیں کیوں 16رکنی بنچ بنا دیں؟جسٹس امین الدین کا وکیل حامد خان سے استفسار
  • 26ویں آئینی ترمیم ٹھیک تھی یا غلط فی الحال عدالت نے معطل نہیں کی،آپ ترمیم کو آئین کا حصہ سمجھتے ہیں تب ہی چیلنج کیا ہے،جسٹس مسرت ہلالی کا حامد خان سے مکالمہ
  • سپریم کورٹ، 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت براہ راست نشر کرنے کی اجازت
  • سپریم کورٹ نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت براہ راست نشر کرنے کی اجازت دے دی
  • سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت شروع