جموں قتل ِ عام اور الحاقِ کشمیر کے متنازع قانونی پس منظر کا جائزہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برصغیر کی تقسیم ِ ہند 1947ء کے دوران جہاں آزادی کا سورج طلوع ہوا، وہیں برصغیر کے کئی خطوں میں انسانی المیے نے جنم لیا۔ ان میں سب سے المناک سانحہ ریاست جموں و کشمیر کے صوبہ جموں میں اکتوبر۔ نومبر 1947ء کے دوران پیش آیا، جسے تاریخ میں ’’جموں قتل ِ عام‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس المیے میں لاکھوں مسلمان مرد، عورتیں اور بچے ظلم و درندگی کا نشانہ بنے، اور ریاست کی مسلم اکثریت کو منظم منصوبے کے تحت اقلیت میں بدلنے کی کوشش کی گئی۔
تاریخی پس ِ منظر: ریاستی ساخت اور تقسیم ِ ہند کا تناظر؛ ریاست جموں و کشمیر 1846ء میں ’’معاہدہ امرتسر‘‘ کے تحت وجود میں آئی، جب برطانوی راج نے یہ خطہ گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کیا۔ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی اکثریت میں تھی، مگر سیاسی و انتظامی طاقت ڈوگرہ ہندو اشرافیہ کے پاس تھی۔ (ڈاکٹر عبد الواحد وانی، Kashmir: Struggle for Freedom, 1989)
تقسیم برصغیر کے وقت جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس، نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد (19 جولائی 1947ء) منظور کی۔ جو مسلمانان جموں و کشمیر اور تقسیم کشمیر کے اصول کے عین مطابق تھی لیکن بھارت نے برطانیہ کی ملی بھگت سے ایک جعلی دستاویز کے ذریعہ کشمیر پر اپنا ناجائز تسلط قائم کرنا چاہا اور کشمیر پر قبضہ کیا جس کے بارے میں پروفیسر الیف الدین ترابی اپنی کتاب ’’مسئلہ کشمیر کی نظریاتی اور آئینی بنیادیں اور کشمیر کے اٹوٹ انگ ہونے کا بھارتی دعویٰ‘‘ میں لکھتے ہیں: بھارت کے ساتھ ریاست ِ جموں و کشمیر کے الحاق کی دستاویز (Instrument of Accession) جعلی تھی۔ مہاراجا ہری سنگھ اس وقت جموں سے فرار ہو چکے تھے، اور دستخط شدہ دستاویز کا کوئی اصلی ریکارڈ دستیاب نہیں‘‘۔ (ص 156–155 اور ان کا یہ موقف برطانوی مورخ پروفیسر السٹر لیمب) کی کتاب ’’Kashmir: The Disputed Legacy‘‘ سے بھی تقویت پاتا ہے: 26 اکتوبر 1947ء کی الحاقی دستاویز کبھی اصلی شکل میں موجود نہیں تھی۔ یہ بعد میں بھارت نے گھڑی تاکہ فوجی قبضے کو قانونی رنگ دیا جا سکے‘‘۔ (Lamb, 1994, pp.
ڈوگرہ فوج، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اکالی دل کے عسکری جتھوں نے مسلمانوں کے گھروں کو نذرِ آتش کیا، عورتوں اور بچوں کو قتل کیا، اور ہزاروں خاندانوں کو پاکستان کی سرحدوں کی طرف بھاگنے پر مجبور کیا۔ جے کے ریڈی (ایڈیٹر، Kashmir Times) کی شہادت کے مطابق: ’’میں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان کی طرف جانے والے مہاجرین پر ڈوگرہ سپاہیوں کی فائرنگ دیکھی۔ جموں کے جس ہوٹل میں میں ٹھیرا تھا، وہاں سے ایک رات میں سینتالیس گاؤں جلتے دیکھے۔ ہر طرف چیخ و پکار اور آگ تھی‘‘۔ (اویس بلال، جموں کے روشن ستارے, ص 41)
پریم ناتھ بزاز لکھتے ہیں: ’’ریاست کے کسی ایک حصے میں نہیں بلکہ پورے جموں میں مسلمانوں کے صفایا کی کوشش کی گئی۔ حکومت ِ ریاست اس منصوبے کی شریک تھی‘‘۔ (Inside Kashmir, 1951, p. 290)
اخبار ’’The Statesman‘‘ (نومبر 1947) کے مطابق: ’’جموں کی مسلمان آبادی تقریباً پانچ لاکھ تھی۔ نومبر کے آخر تک اس کا بڑا حصہ ختم ہو چکا تھا، اور دو لاکھ افراد کا نام و نشان مٹ گیا‘‘۔ 26 اکتوبر 1947ء کے بعد بھارت نے ریاست میں فوجی مداخلت کی اور اسے ’’عارضی الحاق‘‘ قرار دیا۔ اقوامِ متحدہ نے 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر کو متنازع خطہ تسلیم کیا، اور سلامتی کونسل کی قرارداد 47 (1948) کے ذریعے کشمیری عوام کے حق ِ خود ارادیت کا وعدہ کیا — جو آج تک پورا نہیں ہو سکا۔
آئینی بحران: بھارت نے ریاستی قبضے کو آئینی رنگ دینے کے لیے آئین میں آرٹیکل 370 شامل کیا، جس کے تحت کشمیر کو محدود خودمختاری ملی۔ مگر 5 اگست 2019ء کو بھارت نے یکطرفہ طور پر اسے بھی ختم کر دیا اور کشمیر کو عملی طور پر ایک جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ 1947 کے بعد سے آج تک کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ ہے جہاں آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوجی تعینات ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، اور اقوامِ متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق ریاست میں قتل ِ عام، جبری گمشدگیاں، اجتماعی قبریں، اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم عام ہیں۔ (UN OHCHR Report on Kashmir, 2018) بین الاقوامی تحقیق اور قانونی تناظرمیں ڈاکٹر جوزف کوربیل (Danger in Kashmir, 1954) کے مطابق: ’’جموں میں ہونے والا قتل ِ عام ایک منظم ریاستی جرم تھا۔ جس نے جنوبی ایشیا میں دائمی بحران کی بنیاد رکھی‘‘۔
رحمان، جہانگیر اور گردازی (Global Legal Studies Review, 2021): ’’جموں کا قتل ِ عام Genocide Convention (1948) کے آرٹیکل II کے مطابق نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے‘‘۔ ISSI Issue Brief (2023) میں کہا گیا: ’’یہ سانحہ جنوبی ایشیا کی تاریخ کا سب سے کم یاد رکھا جانے والا مگر سب سے زیادہ منظم نسل کشی کا واقعہ ہے‘‘۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے مطابق بھارت نے کشمیر کے 1947ء کے
پڑھیں:
سندھ محکمہ تعلیم میں بدعنوانی کی تحقیقات متنازع
بااثر مافیا کے دبائو پر لیٹرز میں ردوبدل، افسران کنفیوژن کا شکار، قتل اور اغوا کی دھمکیاں
سندھ حکومت اور محکمہ تعلیم کی انتظامی نااہلی بے نقاب، شفاف احتساب خواب بن گیا
سندھ کے ضلع جیکب آباد میں اسکول اسپیشل بجٹ میں کروڑوں روپے کی مبینہ خوردبرد کی تحقیقات کے دوران محکمہ تعلیم میں سنگین بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایک کروڑ 35 لاکھ روپے کی اسکول مخصوص بجٹ کی انکوائری میں بااثر مافیا کے دبائو پر محکمہ تعلیم سندھ کے سیکرٹری نے 14 دن بعد پرانی تاریخ 16 اکتوبر میں ایک نیا لیٹر جاری کر کے انکوائری ٹیم کے رکن کو ہٹا دیا رپورٹ کے مطابق، ابتدائی لیٹر صوبائی وزیر تعلیم سید سردار شاہ کی ہدایت پر جاری ہوا تھا، جس میں ڈائریکٹر پرائمری لاڑکانہ کی سربراہی میں حق نواز نوناری (سابق ڈپٹی ڈی ای او)اور ٹی ای او فی میل جیکب آباد شامل تھے یہ ٹیم مبینہ طور پر کرپشن میں ملوث افسران کے خلاف تحقیقات کر رہی تھی تاہم بااثر ریٹائرڈ ڈائریکٹر عبدالجبار دایو کے دبائو پر نیا لیٹر جاری کیا گیا، جس میں حق نواز نوناری کو ہٹا کر ڈی ای او پرائمری کو شامل کیا گیاانکوائری سے ہٹائے گئے حق نواز نوناری نے انکشاف کیا کہ انہیں اور ان کے بیٹے کو عبدالجبار دایو کی جانب سے قتل اور اغوا کی دھمکیاں دی گئیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ میں اب خود کو اس انکوائری کا حصہ نہیں سمجھتا، اور کوئی رپورٹ جمع نہیں کرائوں گا۔ذرائع نے کہاکہ محکمہ تعلیم میں اس قسم کی تبدیلیاں شفاف احتساب پر سوالیہ نشان ہیں۔ سندھ حکومت اور محکمہ تعلیم کی انتظامی کمزوری نے بدعنوان عناصر کو مزید مضبوط کر دیا ہے، جس سے تعلیمی نظام کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔