آئینی ترمیم اور قومی سمت ایک فکری جائزہ
اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آئین کسی ریاست کا محض قانونی دستاویز نہیں ہوتا بلکہ وہ قومی بصیرت، اجتماعی سمت اور فیصلہ سازی کے بنیادی تصور کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ پاکستان میں ماضی کی آئینی ترامیم جیسے چوبیسویں، پچیسویں اور حالیہ ستائیسویں ترمیم ہمیشہ کسی نہ کسی انتظامی، سیاسی یا وفاقی ضرورت کو سامنے رکھ کر کی گئیں، مگر تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ترمیم صرف الفاظ کی تبدیلی نہیں بلکہ مستقبل کے نظام کی تشکیل کا اشارہ ہوتی ہے، اور اس کی کامیابی اس وقت مکمل مانی جاتی ہے جب وہ قانونی تقاضوں کے ساتھ ساتھ فکری اتفاقِ رائے کا حصہ بھی بن جائے۔ حالیہ ترمیم پارلیمانی اکثریت سے منظور ضرور ہوئی، تاہم اس کے بعد جس نوعیت کا مکالمہ سامنے آیا، اس نے یہ پہلو نمایاں کیا کہ قانونی طور پر فیصلہ مکمل ہو جانے کے باوجود، اس کی حقیقی قبولیت تب تک قائم نہیں ہوتی جب تک وہ ادارہ جاتی توازن، عدالتی خودمختاری اور عوامی اعتماد کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو۔
سرکاری موقف کے مطابق اس ترمیم کا مقصد نظم و نسق کو بہتر بنانا اور جدید ریاستی تقاضوں کے تحت فیصلہ سازی کو مؤثر کرنا ہے، مگر آئینی و قانونی حلقوں میں یہ بحث بھی شدت اختیار کر رہی ہے کہ آیا یہ تبدیلی اختیارات کی ساخت میں ایسا رخ متعین کر رہی ہے جو مستقبل میں اداروں کے درمیان توازن پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ بعض اعلیٰ آئینی شخصیات کی جانب سے حالیہ دنوں میں اختیار کیے گئے اصولی موقف نے بھی اس بحث کو مزید گہرائی دی، جسے کچھ اہل ِ فکر نے اس تناظر میں دیکھا کہ آئین پر اعتماد صرف قانونی حیثیت سے نہیں بلکہ اخلاقی توازن سے بھی جڑا ہوتا ہے۔ عمومی طور پر عوام براہِ راست ایسے مباحث میں شامل نہیں ہو پاتے کیونکہ ان کی ترجیحات معاشی دباؤ اور روزمرہ زندگی کے تقاضوں سے وابستہ ہوتی ہیں، تاہم تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ فیصلے جو کسی قوم کی لاعلمی میں قبول ہو جائیں، ان کا اثر سب سے پہلے اسی معاشرے کی روزمرہ زندگی پر ظاہر ہوتا ہے۔ یہی سوال اب سامنے آ رہا ہے کہ آیا یہ ترمیم مستقبل میں ہم آہنگی اور مؤثریت لائے گی یا کسی نئے فکری موڑ کا آغاز کرے گی۔
قومی پالیسی کے فیصلے اس وقت دیرپا ثابت ہوتے ہیں جب وہ صرف پارلیمانی اکثریت کے زور پر نہیں بلکہ ذمے دارانہ سوچ، اجتماعی شعور اور اداروں کی باہمی ہم آہنگی کے ساتھ کیے جائیں۔ نئی نسل اگر آئینی عمل کو جذباتی ردِعمل کے بجائے تجزیاتی نقطہ ٔ نظر سے دیکھے، تو یہی مباحث آئندہ اصلاح اور فکری بلوغت کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
آخرکار، آئین تبدیل ہو سکتا ہے لیکن سمت وہی بدلتی ہے جب فیصلہ شعور کے ساتھ کیا جائے، کیونکہ بعض اوقات ایک ترمیم قانون سے بڑھ کر آنے والے وقت کی سوچ کو تشکیل دیتی ہے، اور ایسے لمحوں میں قلم صرف اظہار کا ذریعہ نہیں رہتا بلکہ راستے متعین کرنے کی امانت بن جاتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے ساتھ
پڑھیں:
27 ویں آئینی ترمیم پر سپریم کورٹ کے ججز کی رائے تقسیم
اسلام آباد:ستائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس میں اجتماعی استعفے اور ترمیم کی حمایت کرنے کی دو تجاویزمیں سے کسی پر بھی عمل نہ ہو سکا اور یوں ترمیم کے حوالے سے رائے منقسم نظر آئی۔
اجلاس میں چند ججوں کی طرف سے یہ بیان جاری کرنے کی تجویز دی گئی کہ 27 ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ نے منظور کی ہے جو بائنڈنگ ہے اسے چیلنج کرنا وفاقی آئینی عدالت کیخلاف جائیگا جو اس ترمیم کے تحت قائم ہو چکی ہے۔
اس تجویز پر اتفاق رائے نہ ہو سکا، بعض ججز کی رائے تھی کہ یہ بیان 27 ویں ترمیم کی توثیق کے مترادف ہوگا، یوں یہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔
بعض ججز کی طرف سے اجتماعی استعفوں کی تجویز بھی آئی تاہم اس پر بھی اتفاق نہ ہوسکا۔ ذرائع کے مطابق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے فل کورٹ کے حوالے سے جسٹس صلاح الدین پنہور کا خط نہیں پڑھا اور اسے واپس لوٹا دیا۔
چیف جسٹس نے ان افواہوں کی تردید کی کہ انہوں نے اپنے لئے چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ برقرار رکھنے کیلئے حکومت سے بات کی تھی۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے دوران جسٹس یحییٰ آفریدی جب علم ہوا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے الفاظ حذف کئے جا رہے ہیںتو انہوں نے مستعفی ہونے کاذہن بنا لیا تھا۔ بعد ازاںحکومت نے ان کا عہدہ ترمیم میں برقرار رکھا۔