شیخ رشید کو عمرہ سے روکنے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل سماعت کے لیے منظور
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
راولپنڈی (آن لائن) لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کے جسٹس رضا قریشی اور جسٹس جواد حسن پر مشتمل ڈویژن بنچ نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کو عمرہ پر جانے کی اجازت کے خلاف ایف آئی کی انٹرا کورٹ اپیل سماعت کے لیے منظور کرلی ہے اور سنگل بنچ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے حکم امتناعی جاری کردیا ہے۔ قبل ازیں جسٹس صداقت علی خان پر مشتمل سنگل بنچ نے شیخ رشید کی عمرہ کی ادائیگی کے لیے حجاز مقدس روانگی کی اجازت دی تھی لیکن روانگی کے وقت شیخ رشید کو ائیرپورٹ پر روک لیا گیا تھا جس پر شیخ رشید احمد نے ایف آئی اے ایمیگریشن اور پاسپورٹ حکام کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی جس پر عدالت نے ایف آئی اے اور پاسپورٹ امیگریشن حکام کو گزشتہ روز طلب کر رکھا تھا گزشتہ روز سماعت کے موقع پر درخواست گزار اپنے وکیل کے ہمراہ عدالت میں موجود تھے تاہم ایف آئی اے اور پاسپورٹ ایمیگریشن حکام نے سنگل بنچ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کر دی۔ گزشتہ روز ڈویژن بنچ کے روبرو انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کے موقع ایڈیشنل اٹارنی جنرل حسیب شکور پراچہ عدالت میں پیش ہوئے جہاں پر ابتدائی سماعت کے بعد فاضل بنچ نے اپیل سماعت کے لیے منظور کرلی اور سنگل بنچ کا فیصلہ معطل کرکے حکم امتناعی جاری رتے ہوئے سنگل بنچ کے فیصلے پر عمل درآمد روک دیا ہے عدالت نے کیس کی مزید سماعت 2 دسمبر تک ملتوی کردی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انٹرا کورٹ اپیل سماعت کے سنگل بنچ ایف ا ئی کے خلاف کے لیے بنچ کے
پڑھیں:
بینچز تشکیل، چیف جسٹس آئینی عدالت کا صوابدیدی اختیار برقرار
اسلام آباد:وفاقی حکومت نے اپنے سابقہ موقف کے برعکس وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے بینچ تشکیل دینے کے صوابدیدی اختیار کو ریگولیٹ کرنے کیلیے کوئی قانون سازی نہیں کی جبکہ اب تک آئینی عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی فراہم نہیں کیا گیا۔
سابق اٹارنی جنرل نے نشاندہی کی کہ صرف وہ انٹرا کورٹ اپیلیں جو سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہیں، انھیں سنا جا سکتا ہے لیکن مستقبل میں آئینی عدالت کے فیصلوں کے خلاف کوئی انٹراکورٹ اپیل دائر نہیں ہو سکے گی۔
انھوں نے آئین کے آرٹیکل 175(E)(4) کا حوالہ دیا جس میں واضح طور پر درج ہے کہ صرف زیرِ التوا اپیلیں ہی سنی جائیں گی اور مستقبل کی اپیلوں کے لیے کوئی شق نہیں۔ عبادالرحمان لودھی ایڈووکیٹ نے بھی ایک کیس کی سماعت کے دوران یہی نکتہ اٹھایا۔
آئینی عدالت کے فیصلوں کیخلاف اپیل کے حق کی عدم موجودگی کے حوالے سے ایک سرکاری اہلکار نے اعتراف کیا کہ ابھی تک کوئی حقِ اپیل موجود نہیں جب تک کہ خود آئینی عدالت اپنے قواعد میں اس کی گنجائش نہ دے یا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے ذریعے یہ حق فراہم نہ کیا جائے۔
یہ بھی غیر واضح ہے کہ آیا حکومت اپیل کا حق دینے کے لیے کوئی قانون سازی کرے گی یا نہیں۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں حکمران جماعتیں بینچ تشکیل دینے کے چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیار پر تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔
اس مقصد کیلئے پی ڈی ایم حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 متعارف کرایا اور عوامی مفاد کے مقدمات میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی دیا گیا۔
جسٹس امین الدین خان سمیت اکثریتی ججوں نے اس قانون کی توثیق بھی کی تاہم اب آئینی عدالت میں بطور ماسٹر آف روسٹر وہ خود بینچ تشکیل دے رہے ہیں۔
سینئر وکلا یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ آئینی عدالت کے تمام بینچوں میں تمام صوبوں کی مناسب نمائندگی کیوں نہیں۔
اس وقت دو یا تین رکنی بینچ مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں اور بعض بینچوں میں ایک ہی صوبے سے تعلق رکھنے والے جج شامل ہیں۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ جی ٹین سیکٹر کی پرانی عمارت میں منتقل ہونے والی ہے۔
سینئر سرکاری افسر نے تصدیق کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جنوری میں اسلام آباد ہائیکورٹ کو منتقل کر دیا جائے گا تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ بار اسے فروری تک مؤخر کرنے کی درخواست کر رہی ہے۔