data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

راولپنڈی: سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنا دی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت قانونی کارروائی 15 ماہ تک جاری رہی۔ مقدمے میں اُن پر چار سنگین الزامات کے تحت کارروائی کی گئی، جن میں سیاسی سرگرمیوں میں مداخلت، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال، اور بعض افراد کو غیر قانونی نقصان پہنچانا شامل تھے۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ طویل سماعت کے بعد سابق لیفٹیننٹ جنرل کو تمام الزامات میں قصوروار قرار دیا گیا۔ عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کا اطلاق 11 دسمبر 2025 سے ہوگا۔

ویب ڈیسک مقصود بھٹی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ا ئی ایس

پڑھیں:

جنرل فیض حمید کے خلاف سنگین الزامات جن کا فیصلہ ہونا باقی ہے

معروف تجزیہ کار اور اینکر پرسن حامد میر  نے کہا ہے کہ جنرل فیض حمید کے خلاف الزامات کی نوعیت بہت وسیع اور سنگین ہے اور آج دی گئی سزا صرف ایک مقدمے کا فیصلہ ہے۔ آئندہ دنوں میں کرپشن، سیاسی مداخلت، اثر و رسوخ کے غلط استعمال اور ٹی ٹی پی روابط سے متعلق مزید تحقیقات سامنے آئیں تو اہم انکشافات کی توقع ہے۔

نجی ٹیلی ویژن چینل سے گفتگو کے دوران  حامد میر نے بتایا کہ جنرل فیض حمید کے خلاف کیس 15 ماہ تک جاری رہا جس میں 27 گواہان پیش ہوئے۔ بعض گواہوں نے ان کے حق میں گواہی دی، مگر کراس ایگزامینیشن کے دوران ان کے بیانات درست ثابت نہ ہوسکے۔
اس کے برعکس جن گواہوں نے جنرل فیض کے خلاف گواہی دی، انہوں نے مضبوط اور ٹھوس شواہد پیش کیے جنہیں عدالت نے معتبر قرار دیا۔

حامد میر کا کہنا ہے کہ کیس کا پورا قانونی عمل انتہائی سخت مراحل سے گزرا۔
کنویننگ اتھارٹی سے کیس ملٹری کورٹ کو بھیجا گیا، کارروائی مکمل ہونے کے بعد جیک برانچ نے ہر گواہی اور ثبوت کا ازسرنو جائزہ لیا تاکہ فیصلہ مستقبل میں قانونی کمزوریوں سے محفوظ رہے۔
بعد ازاں فیصلہ دوبارہ کنویننگ اتھارٹی کو بھیجا گیا جس کے بعد ملٹری کورٹ نے 11 دسمبر 2025 کو 14 سال سخت قید کی سزا سنائی۔

کرپشن، سیاسی مداخلت اور مالی مفادات کےالزامات جن کی تحقیقات ابھی باقی ہیں

حامد میر کے مطابق، جن الزامات پر ابھی کارروائی ہونا باقی ہے، وہ نہایت سنگین ہیں، جن میں اربوں روپے کی مبینہ کرپشن، سیاسی سرگرمیوں میں مداخلت، عہدے کے حلف سے انحراف شامل ہیں۔

نیب کو گزشتہ روز مسلم لیگ ن کی حکومت میں شامل بعض شخصیات نے بتایا کہ جب وہ اپوزیشن میں تھے تو جنرل فیض بطور ڈی جی خفیہ ادارہ ان سے ذاتی طور پر ’لوٹ مار‘ کرتے رہے اور اپنے ایک ماتحت کے ذریعے اربوں روپے وصول کیے۔

پی ٹی آئی کے ساتھ خفیہ تعلقات

عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد بحیثیت کور کمانڈر پشاور بھی انہوں نے سیاسی معاملات میں مداخلت جاری رکھی۔ پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں نے بعد ازاں اندرونی طور پر انکشاف کیا کہ جنرل فیض پی ٹی آئی کو “پیچھے بیٹھ کر” کنٹرول کر رہے تھے۔ ان کے پاس ایک خاص سیکیور فون تھا جس کے ذریعے وہ رہنماؤں کو ہدایات دیتے تھے۔ 9 مئی سے متعلق ایک پلاننگ میٹنگ بھی ہوئی جس میں مبینہ طور پر انہی نے واضح ہدایات جاری کیں۔

پی ٹی آئی کے 2 رہنماؤں نے یہ معلومات لیک کرتے ہوئے کہا کہ وہ زبردستی کرائے جانے والے کاموں سے تنگ آچکے تھے۔

بیک وقت تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ ن سے رابطے ، آرمی چیف بننے کی کوششیں

دلچسپ طور پر جنرل فیض ایک جانب پی ٹی آئی کے انتہائی قریب سمجھے جا رہے تھے، جبکہ دوسری جانب وہ مسلم لیگ ن تک بھی اپنے چینلز کھولے ہوئے تھے۔

حامد میر کے مطابق نومبر 2022 سے قبل وہ ہر ممکن کوشش کر رہے تھے کہ نہ جنرل عاصم منیر آرمی چیف بن سکیں اور نہ جنرل باجوہ کو توسیع ملے۔ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے ایک وزیر کے ذریعے رابطہ کیا۔ انہوں نے میاں نواز شریف تک بھی ایک میسنجر کے ذریعے پیغام پہنچانے کی کوشش کی۔

ان کا وعدہ تھا کہ آپ جیسے چاہیں گے، میں ویسا ہی کروں گا… مجھے آرمی چیف بنا دیں، میں آپ کا انتہائی وفادار ثابت ہوں گا۔ لیکن نواز شریف اور شہباز شریف نے ان کے وعدوں پر اعتبار نہیں کیا۔

ٹی ٹی پی سے خفیہ مذاکرات، سزائے موت کے دہشتگردوں کی رہائی تک کی منظوری

حامد میر نے ایک اور انتہائی سنگین انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ جنرل فیض نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی اور کور کمانڈر پشاور خود ٹی ٹی پی قیادت سے خفیہ مذاکرات کیے۔ کچھ رابطے کابل کے وفد کے ذریعے ہوئے، جبکہ بعض ملاقاتیں انہوں نے وفد کی اطلاع کے بغیر اکیلے کیں۔ انہی مذاکرات کے نتیجے میں 2 خطرناک دہشتگردوں مسلم خان اور محمود خان کی سزائے موت معاف کرائی گئی۔ جنرل باجوہ اور وزیراعظم عمران خان کو قائل کیا گیا اور پھر صدر عارف علوی نے دونوں کی سزا معاف کی۔ ٹی ٹی پی کو پاکستان لا کر بسانے کا عمل بھی انہی کی سرپرستی میں تھا۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے مخالفت کی تو انہیں چپ کرانے کی کوشش کی گئی۔

حامد میر کے مطابق جنرل فیض حمید کے خلاف الزامات کی نوعیت بہت وسیع اور سنگین ہے اور آج دی گئی سزا صرف ایک مقدمے کا فیصلہ ہے۔
آئندہ دنوں میں کرپشن، سیاسی مداخلت، اثر و رسوخ کے غلط استعمال اور ٹی ٹی پی روابط سے متعلق مزید تحقیقات سامنے آئیں تو اہم انکشافات کی توقع ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • جنرل فیض حمید کے خلاف سنگین الزامات جن کا فیصلہ ہونا باقی ہے
  • فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا پر تجزیہ کاروں کا کیا کہنا ہے؟
  • آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ثابت،سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا   
  • سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا
  • سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا
  •  لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی کہانی کیا ہے؟
  • سابق فوجی افسر فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا
  • فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی
  • جنرل فیض حمید کیخلاف فیصلہ آگیا، 14 سال قید بامشقت کی سزا، آئی ایس پی آر