یوم سیاہ منانے والی جماعت کے اعمال بھی سیاہ تھے، باشعور عوام نے مسترد کردیا، عظمیٰ بخاری
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ یوم سیاہ منانے والی جماعت کے اعمال بھی سیاہ تھے، کے پی میں ترقیاتی کاموں کے بجائے کرپشن کا بازار گرم رکھا ہے، 15 سال سے کے پی میں حاکم جماعت کو پنجاب کے باشعور لوگوں نے آج پھر مسترد کردیا ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیر عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پاکستان کے عوام آج یوم تعمیر و ترقی منا رہے ہیں، دوسری طرف سیاسی ٹولہ یوم سیاہ منا رہا ہے، ان کے پاس سوائے رونے دھونے کے اور کچھ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ سال پہلے اداروں کے خلاف سازشیں کی جا رہی تھیں، مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، پنجاب میں مریم نواز کی حکومت بننے سے عوام کو ریلیف ملا، پنجاب کے بچوں کو اسکالر شپس دی گئیں، بجلی بلوں میں ریلیف دیا گیا، خدمت کارڈ جیسی سہولت ملی، پنجاب کی اقلیتوں کے لیے منارٹی کارڈ متعارف کرایا گیا۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ پنجاب کے عوام کے لیے متعدد منصوبے شروع کیے گئے، دوسری طرف ایسی جماعت بھی ہے، جس کے مقدر میں صرف رونا ہے، یہ خود بھی روتے ہیں اور عوام کو بھی رونے پر مجبور کرتے ہیں، ان کی ایک صوبے میں حکومت ہے، وہاں کے عوام کو کیا ملا؟ کے پی کے عوام کے ریلیف کے لیے ایک بھی منصوبہ نہیں دیا گیا، کے پی کے عوام کو کرپشن اور مہنگائی ملی۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ کل قذافی اسٹیڈیم میں شاندار تقریب ہوئی، ہمارے بچوں کو ایسے ایونٹس کی ضرورت ہے نہ کہ پٹرول بموں کی، قذافی اسٹیڈیم میں میچز کے لیے سکیورٹی کے انتظامات وزیراعلیٰ خود دیکھ رہی ہیں، ماضی میں اسٹیڈیمز کو بھی اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا گیا، نوجوانوں کے لیے کھیلوں کے میدان آباد ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ مخالفین کے مطابق پورے ملک میں الیکشن غلط اور خیبرپختونخوا میں درست ہوئے، وزیراعلیٰ مریم نواز نے ایک سال میں اتنا کام کیا، جتنا کوئی حکومت 5 سال میں بھی نہیں کرسکی۔
عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ عالمی ادارے اور تنظیمیں پاکستان کی معیشت کے بہتر ہونے کا بتا رہے ہیں، گورنر پنجاب ہمیشہ ناراض ہی رہتے ہیں، گورنر پنجاب سے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کروں گی۔
انہوں نے کہا کہ جب عوام کے مسائل حل ہو رہے ہیں، تو وہ کیوں کسی کی کال پر باہر نکلیں گے؟، جب ہمیں حکومت ملی تو مہنگائی کی شرح 38 فیصد تھی، آج 4 فیصد پر ہے، ہم 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں جیسے دعوے نہیں کرتے، مریم نواز وہی وعدہ کرتی ہیں، جس پر عمل درآمد ہوسکتا ہو۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: نے کہا کہ کے عوام عوام کو کے لیے
پڑھیں:
اسرائیلی حکومت غزہ کے عوام کو مکمل طور پر ختم کرنے کا منصوبہ بناچکی ہے، جماعت اسلامی ہند
سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ اسرائیلی مصنوعات اور اس نسل کشی میں شریک کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں اور فلسطینی مزاحمت کے خلاف پھیلائی جارہی گمراہ کن معلومات کا مؤثر جواب دیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے غزہ میں جاری نسل کشی اور انسانی بحران پر اپنی شدید مذمت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے بھارتی حکومت سمیت عالمی طاقتوں اور دنیا بھر کے باضمیر شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ غزہ میں ہونے والے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اسرائیل کے مسلسل حملوں کو فوری طور پر روکنے کے لئے عملی اقدامات کریں۔ میڈیا کے لئے جاری اپنے بیان میں سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ غزہ میں 21 لاکھ سے زائد فلسطینی جن میں 11 لاکھ سے زائد بچے شامل ہیں، مسلسل محاصرے اور شدید بمباری کی زد میں ہیں۔ 18 مارچ 2025ء کو جنگ بندی کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے اپنی فوجی جارحیت کو مزید تیز کردیا ہے اور بنیادی ضروریات اور امداد پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے عوام بھوک سے مر رہے ہیں۔ ان کے گھر تباہ ہوچکے ہیں اور ان کی آوازیں خاموش کردی گئی ہیں۔ غزہ کی صورتحال انتہائی نازک ہے اور فوری توجہ کی مستحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت غزہ کے عوام کو مکمل طور پر ختم کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہے، اب یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس المیے کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق غزہ کے 90 فیصد طبی مراکز تباہ یا ناکارہ ہوچکے ہیں۔ پورے غزہ میں صرف چند غذائی مراکز کام کررہے ہیں جبکہ ہزاروں ٹن خوراک اور دوائیں کئی مہینوں سے سرحدی راستوں پر رکی ہوئی ہیں۔ صفائی، پینے کے صاف پانی اور طبی سہولیات کی تباہی کے باعث اسہال، ہیپاٹائٹس اے اور سانس کی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ یونیسیف کے مطابق 6 لاکھ 60 ہزار بچے اسکولوں سے محروم ہیں اور 17 ہزار سے زائد بچے یتیم یا اکیلے رہ گئے ہیں، اگر غزہ کا محاصرہ ختم نہ ہوا تو ستمبر 2025ء تک مکمل قحط پڑنے کا خطرہ ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر نے عالمی برادری سے فیصلہ کن اقدام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ عالمی نظام کے لئے ایک سخت آزمائش کا وقت ہے۔ ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل سے فوجی اور معاشی تعلقات ختم کریں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے تعلق سے امیر اور طاقتور ممالک بالخصوص امریکہ کی دوہری پالیسی کا خاتمہ ہونا چاہیئے، امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو رسمی بیانات سے آگے بڑھ کر امن اور انصاف کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنا چاہیئے، جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔
سید سعادت اللہ حسینی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا تاریخی اور اخلاقی فریضہ ادا کرے، بھارت نے ہمیشہ فلسطین کے جائز موقف کی حمایت کی ہے۔ اس نازک وقت میں ہماری آواز پہلے سے زیادہ بلند اور واضح ہونی چاہیئے۔ حکومت کو اسرائیلی مظالم کی کھل کر مذمت کرنی چاہیئے، اس کے ساتھ تمام عسکری اور اسٹریٹجک تعلقات معطل کرنے چاہئیں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے بین الاقوامی اقدامات کی پرزور حمایت کرنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری آواز سیاسی مصلحتوں کے بجائے آئینی اقدار اور تہذیبی ورثے سے رہنمائی حاصل کرے۔ نسل کشی کے وقت غیر جانبدارانہ سفارتکاری کی پالیسی انسانی قدروں کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے آخر میں ملک کے عوام سے پرامن مزاحمت میں فعال شرکت کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی مصنوعات اور اس نسل کشی میں شریک کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں اور فلسطینی مزاحمت کے خلاف پھیلائی جا رہی گمراہ کن معلومات کا مؤثر جواب دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ہر فورم، سوشل میڈیا، عوامی اجتماعات اور ذاتی روابط کا استعمال کرتے ہوئے غزہ کی حقیقت دنیا کے سامنے رکھنی چاہیئے اور مظلوموں کے ساتھ کھل کر کھڑے ہونا چاہیئے۔