بارکھان میں بس پر حملے میں سات پنجابی مسافر ہلاک، حکام
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 فروری 2025ء) بلوچستان میں حکام کے مطابق مسلح افراد نےضلع بارکھان میں ایک مسافر بس پر حملے میں شناخت کے بعد سات غیر مقامی مسافروں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ افغانستان اور ایران کی سرحدوں سے متصل غریب لیکن معدنیات سے مالا مال بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کئی دہائیوں سے فرقہ وارانہ، نسلی اور علیحدگی پسند تشدد کا مقابلہ کر رہی ہیں۔
اس شورش زدہ صوبے میں سکیورٹی فورسز اور نسلی گروہوں پر حملوں میں گزشتہ چند سالوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، حملہ آور خاص طور پر ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے اور خوشحال صوبے اور فوج کے لیے بھرتی کا ایک بڑا مرکز سمجھےجانے والے صوبے پنجاب کے مزدوروں کو نشانہ بناتے آئے ہیں۔
(جاری ہے)
بارکھان کے ایک سینئر سرکاری اہلکار سعادت حسین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ حملہ آوروں نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب رات دیر گئے ایک بس پر حملہ کیا، جو بلوچستان سے پنجاب کے ساتھ صوبائی سرحد کے قریب ایک ہائی وے پر سفر کر رہی تھی۔
مسلح افراد بس میں سوار ہوئے اور مسافروں سے شناختی کارڈ دکھانے کا مطالبہ کیا۔حسین نے کہا، ''صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسافروں کو دہشت گردوں نے اتار کر ہلاک کر دیا۔ انہیں قطار میں کھڑا کر کے گولی مار ی گئی۔‘‘ اس حملے کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی ہے۔ تاہم، بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) خطے میں سب سے زیادہ فعال عسکریت پسند گروپ ہے، جس نے جنوری میں ایک بم دھماکے میں چھ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
ان بلوچ علیحدگی پسندوں نے گزشتہ سال مربوط حملوں میں کم از کم 39 افراد کو ہلاک کیا، جس میں بڑی تعداد میں نسلی پنجابیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ نومبر میں، بی ایل اے نے کوئٹہ کے مرکزی ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی، جس میں 14 فوجیوں سمیت 26 افراد ہلاک ہوئے۔
یہ مسلح گروپ ماضی میں بھی صوبے میں غیر ملکی خاص طور پر چین مالی اعانت سے چلنے والے توانائی کے منصوبوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔
علحیدگی پسند بلوچ مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر پاکستان کے اس غریب ترین حصے کے رہائشیوں کے استحصال کا الزام لگاتے ہیں۔اے ایف پی اعدادو شمار کے مطابق رواں برس یکم جنوری سے ریاست کے خلاف لڑنے والے مسلح گروپوں کے تشدد میں کم از کم 67 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سکیورٹی فورسز کے ارکان کی اکثریت شامل ہے۔ اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فارریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق گزشتہ سال پاکستان کے لیے دہشت گردانہ حملوں کے اعتبار سے ایک دہائی میں سب سے زیادہ مہلک رہا، جس میں 1,600 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں سکیورٹی فورسز کے 685 اراکین شامل تھے۔
تشدد کی یہ کاروائیاں زیادہ تر شمال اور جنوب میں افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سرحدی علاقوں تک محدود ہے، بڑے شہروں میں بہت کم حملے ہوتے ہیں۔ بارکھان میں دہشت گردی کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب پاکستان کی میزبانی میں منعقدہ چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹ کا پہلا میچ آج بروز بدھ کراچی میں کھیلا جا رہا ہے جس میں آٹھ بین الاقوامی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں اور وہ میچوں کے لیے راولپنڈی، کراچی اور لاہور کا دورہ کریں گی، جہاں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
ش ر⁄ ر ب (اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں سکیورٹی فورسز
پڑھیں:
شمالی وزیرستان: پاک افغان سرحد کے قریب سیکیورٹی فورسز کی کارروائی، 2 خوارج ہلاک، 5 زخمی
شمالی وزیرستان میں پاکستان،افغانستان سرحد کے قریب سیکیورٹی فورسز نے اہم کارروائی کرتے ہوئے 2 خوارج کو ہلاک کر دیا ہے۔سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ خوارج کے خلاف کارروائی خفیہ معلومات کی بنیاد پر عمل میں لائی گئی، اس دوران فائرنگ کے تبادلے میں 2 خوارج ہلاک ہوئے۔سیکیورٹی ذرائع کے مطابق ہلاک ہونے والے خوارج میں سے ایک کا تعلق افغان طالبان سے ہے۔مزید بتایا گیا کہ کامیاب کارروائی میں مزید 2 خوارج کے ہلاک اور 4 سے 5 کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں، جب کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے علاقے میں سرچ اور سینیٹائزیشن آپریشن جاری ہے۔
قبل ازیں خیبرپختونخوا کے ضلع ہنگو کے علاقے دوآبہ میں پولیس قافلے پر آئی ای ڈی حملے کے نتیجے میں ایس ایچ او سمیت 3 اہلکار زخمی ہوگئے۔ دوآبہ میں پولیس قافلے کو آئی ای ڈی حملے کا نشانہ اس وقت بنایا گیا جب پولیس افسران سرچ آپریشن سے واپس آ رہے تھے۔پولیس نے بتایا کہ دھماکے کے نتیجے میں ایس ایچ او تھانہ دوآبہ عمران الدین سمیت زخمی اہلکاروں کو فوری طور پر ڈی ایچ کیو ہسپتال ہنگو منتقل کر دیا گیا۔واقعے کے فورا بعد پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی.علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے، سیکیورٹی فورسز نے واقعےکی تحقیقات شروع کر دی ہیں جب کہ ضلع بھر میں سیکیورٹی کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں خاص طور پر دہشت گردی کی سرگرمیوں اس وقت نمایاں طور پر اضافہ دیکھا گیا جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے نومبر 2022 میں حکومت کے ساتھ ہونے والا جنگ بندی معاہدہ ختم کر دیا تھا۔معاہدہ ختم کرتے ہوئے کالعدم ٹی ٹی پی نے اعلان کیا تھا کہ وہ سیکورٹی فورسز، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں میں تیزی لائے گی۔