کینیڈا اور میکسیکو سے ٹیرف ڈیل ممکن نہیں آج سے نفاذ ہوگا، صدر ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ کینیڈا اور میکسیکو سے ٹیرف ڈیل ممکن نہیں آج سے 25 فیصد ٹیرف نافذ ہوگا جبکہ چین سے اشیا کی امریکا درآمد پر بھی 10 فیصد اضافی چارجز آج سے نافذ کیے جائیں گے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی اقدام سے امریکی اسٹاک مارکیٹ میں غیر معمولی گراوٹ دیکھی گئی۔ صدر ٹرمپ کے اقدام سے کینیڈا میں تیار وہ تمام اشیا جو امریکا بھیجی جاتی ہیں، ان کی تیاری میں کمی ہونے کا خدشہ ہے جس سے ملازمتیں ختم ہوں گی، افراط زر بڑھے گا اور الیکشن کے سال میں اقتصادی تباہی درپیش ہوگی۔
مزید پڑھیں: عمران خان اور بشریٰ بی بی بغیر کچھ کھائے پیے سحری کرتے ہیں؟ بیرسٹر سیف نے کیا بتایا
ٹیرف نفاذ کی اطلاعات کے بعد 2025 میں پہلی بار ایس اینڈ پی 500 میں ایک روز میں 1.
امریکی اقدامات کے ردعمل میں کینیڈا کی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکا کو فوری جواب دیا جائے گا، کینیڈا بھی 155 ارب ڈالر کے ٹیرف کے لیے تیار ہے جس کی پہلی قسط 30 ارب ڈالر کی صورت میں ہوگی۔
مزید پڑھیں: ولادیمیر زیلنسکی سے تلخ کلامی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا یوکرین کی امداد روکنے کا فیصلہ
ادھر امریکی اقدامات پر تبصرہ کرتے ہوئے معاشی ماہرینِ نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ ٹیرف کے باعث امریکا میں مہنگائی اور دیگر مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
اپنے حالیہ بیانات میں ٹرمپ بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ ٹیرف کے نفاذ سے امریکیوں کو تکالیف اٹھانا پڑ سکتی ہیں لیکن یہ عارضی نوعیت کی مشکلات ہیں اور آخرِ کار امریکا کی معیشت کو ان اقدامات سے فائدہ پہنچے گا۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ درآمدات پر محصولات عائد کرنے سے مصنوعات تیار کرنے والی کمپنیوں کی امریکا میں پروڈکشن کرنے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ٹرمپ ٹیرف چین کینیڈا میکسیکوذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ٹیرف چین کینیڈا میکسیکو
پڑھیں:
جوہری طاقت کے میدان میں امریکی اجارہ داری کا خاتمہ، دنیا نئے دور میں داخل
دنیا ایک نئے جوہری دور میں داخل ہو رہی ہے، جہاں امریکا اور مغرب کا جوہری اجارہ داری کا خواب بتدریج ختم ہو رہا ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ جوہری ہتھیار دوسرے ممالک تک پھیلیں گے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کتنی تیزی سے یہ عمل مکمل ہوگا۔
آنے والے برسوں میں دنیا میں جوہری طاقتوں کی تعداد 9 سے بڑھ کر 15 یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ اگرچہ مغرب اس امکان کو عالمی تباہی کے مترادف سمجھتا ہے، لیکن ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی دنیا کی سیاسی ساخت کو بنیادی طور پر متاثر نہیں کرے گی اور نہ ہی کسی عالمی قیامت کا باعث بنے گی۔
جوہری طاقت: جنگی تاریخ میں انقلابجوہری ہتھیاروں کی ایجاد نے عالمی سیاست میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کی۔ ان کی موجودگی نے طاقتور ریاستوں کو بیرونی جارحیت سے تقریباً ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ چند ممالک – خاص طور پر روس اور امریکا – ایسی جوہری طاقت رکھتے ہیں کہ انہیں کسی عالمی اتحاد کے ذریعے بھی شکست دینا ممکن نہیں رہا۔
یہ بھی پڑھیے روس کے نئے غیر جوہری دفاعی ہتھیار نے پوری دنیا کو چونکا دیا
چین بھی اب اس جوہری اشرافیہ میں شامل ہونے کی طرف گامزن ہے، اگرچہ اس کا ذخیرہ ابھی تک امریکا اور روس کے مقابلے میں محدود ہے۔
سلامتی مہنگی، خواہشات محدودعالمی سطح پر جوہری سپرپاور بننا انتہائی مہنگا عمل ہے۔ چین جیسے وسائل سے مالا مال ملک نے بھی حالیہ برسوں میں اس منزل کی طرف پیش رفت کی ہے، لیکن بیشتر ممالک کے لیے یہ راستہ قابلِ برداشت نہیں۔
خوش قسمتی سے زیادہ تر ممالک کو اس حد تک جانے کی ضرورت بھی نہیں۔ بھارت، پاکستان، ایران، برازیل، جاپان، اسرائیل جیسے ممالک کی جوہری خواہشات علاقائی تحفظ تک محدود ہیں، نہ کہ عالمی تسلط تک۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے چھوٹے جوہری ہتھیار عالمی طاقت کے توازن کو متزلزل نہیں کرتے۔
جوہری پھیلاؤ: خطرہ نہیں، استحکام کا ذریعہ؟ماضی میں کئی معروف مغربی اور روسی ماہرین کا یہ مؤقف رہا ہے کہ محدود سطح پر جوہری پھیلاؤ دراصل عالمی استحکام کو بڑھا سکتا ہے۔ جوہری ہتھیار کسی بھی جارحیت کی قیمت بہت بڑھا دیتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں ریاستیں حملے سے پہلے کئی بار سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
یہ اصول شمالی کوریا کے طرزعمل میں واضح دیکھا جا سکتا ہے، جو معمولی جوہری صلاحیت کے باوجود واشنگٹن کے سامنے قدرے جری ہو چکا ہے۔ اس کے برعکس، ایران نے معاہدوں پر بھروسہ کیا، اور جون 2025 میں امریکا اور اسرائیل کے حملے کا نشانہ بن گیا۔ اس واقعے نے دنیا کو واضح پیغام دیا کہ جوہری تحفظ کے بغیر ریاستیں غیرمحفوظ ہیں۔
عدم پھیلاؤ کا نظام ناکام؟عالمی جوہری عدم پھیلاؤ کا نظام رفتہ رفتہ غیر مؤثر ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا جیسے ممالک نے اس نظام کی خلاف ورزی کی، مگر کسی کو سزا نہیں ملی۔ دوسری طرف ایران نے ضوابط پر عمل کیا اور اس کی قیمت چکائی۔
یہ منظرنامہ دیکھ کر جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک اب خود کو جوہری طاقتوں کی صف میں شامل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ چاہے امریکی حمایت سے خاموشی سے ہو یا خود مختارانہ طور پر۔
کیا 15 جوہری طاقتیں دنیا کا خاتمہ ہوں گی؟اگرچہ مغرب میں بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں مزید جوہری ریاستوں کا مطلب تباہی ہے، لیکن حقیقت میں ایسا ضروری نہیں۔
نئے جوہری ممالک – خواہ ایران ہو یا جاپان – فوری طور پر روس یا امریکا جیسے بڑے ذخائر نہیں بنا سکتے۔ ان کی جوہری طاقت زیادہ سے زیادہ دفاعی سطح تک محدود ہوگی، نہ کہ مکمل عالمی خطرہ۔
یہ بھی پڑھیے ایران جوہری افزودگی ترک نہیں کرے گا یہ قومی وقار کا مسئلہ ہے، عباس عراقچی
ہاں، علاقائی جنگوں کا خطرہ ضرور رہے گا۔ مثلاً بھارت اور پاکستان، یا ایران اور اسرائیل کے درمیان لیکن یہ تصادم عالمی تباہی کا سبب نہیں بنیں گے۔ اور ایسی صورتحال میں غالب امکان ہے کہ روس اور امریکا جیسے بڑے جوہری ممالک صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے مداخلت کریں گے۔
اصل خطرہ کہاں ہے؟ماہرین کے مطابق اصل خطرہ ان نئے جوہری ممالک سے نہیں، بلکہ مغرب – خصوصاً واشنگٹن کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں سے ہے۔
امریکا کی مشرقی ایشیا میں مداخلت، چین کو روکنے کے جنون میں اپنے اتحادیوں کو خطرے میں ڈالنا، اور ہر قیمت پر اسٹریٹیجک غلبہ برقرار رکھنے کی خواہش – یہی وہ عناصر ہیں جو دنیا کو واقعی بحران میں دھکیل سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا جوہری ہتھیار چین