سرینگر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی اپنے مذموم سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے معاشرے میں دوریاں پیدا کرنےکا کام کر رہی ہے اور وہ مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنا رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی بھارتی حکومت عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے فرقہ وارانہ کشیدگی کو دانستہ طور پر ہوا دے رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق محبوبہ مفتی نے سرینگر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی اپنے مذموم سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے معاشرے میں دوریاں پیدا کرنےکا کام کر رہی ہے اور وہ مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زعفرانی جماعت تفرقہ انگیز سیاست کر رہی ہے اور وہ اپنا ووٹ بنک مضبوط کرنے کیلئے فرقہ واریت کو خوب ہوا دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت معاشی بدحالی اور بے روزگاری عروج پر ہے لیکن بی جے پی کو اس کی کوئی فکر نہیں اور اس کا سارا دھیان مذہبی اختلافات پیدا کرنے کی طرف ہے۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ بی جے پی کی سیاست کے انتہائی سنگین مضمرات ہون گے، اس کی تقسیم کی سیاست بھارت کو عدم استحکام کی طرف دھکیل رہی ہے۔ انہوں نے کشمیریوں پر زور دیا کہ وہ بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست سے ہوشیار رہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: محبوبہ مفتی بی جے پی کہا کہ رہی ہے نے کہا

پڑھیں:

سیاست کا بوجھ اہل سیاست خود اٹھائیں

پاک بھارت جنگ کےدوران قومی یکجہتی کی جو فضاء بنی ہےاس کابرقرار رہنا ملکی استحکام کےلئےبہت ضروری ہےحکومت اور اپوزیشن کے درمیان لیکن جب تک تنائو کی کیفیت رہے گی ملک میں سیاسی عدم استحکام رہے گا اور قومی یکجہتی بھی یقینی طور پر متاثر ہوگی۔ دریں حالات حکومت کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔
پاکستانی سیاست کا المیہ ہے کہ یہاں حکومت نے اپوزیشن کو کبھی اس وقت انگیج نہیں کیاجب یہ مضبوط ہوتی ہے۔ ہرحکومت اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت تب دیتی ہے جب اس کی نائو ڈوبنے لگتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اپوزیشن حکومت کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیتی ہے کیونکہ ’’گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو‘‘ کا نعرہ مستانہ اس کی زبان پر ہوتا ہے اور وہ حکومت کے کفن میں آخری کھیل ٹھونکنے کے لئے بےتاب ہوتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اور غلطیوں سے عبارت ہے۔ اہل سیاست خاص طور پر وہ جو حکومت میں ہوتے ہیں انہیں ہوش تب آتا ہے جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہوتا ہے۔90کی دہائی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا طرز سیاست ہمارے سامنے آہے۔ پاور پالٹیکس کے سہارے وہ ایک دوسرے کی حکومتیں گراتے رہے۔ اصول، قاعدے اور ضابطے سب کتابی باتیں تھیں جس کا جدھر دائو لگا اس نے اپنےحریف کے گرانے میں دیر نہ لگائی۔ یکے بعد دیگرے دونوں صدارتی اختیار 58-2B کاشکار ہوئے۔ نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کو ہوش اس وقت آیاجب جنرل مشرف فوجی وردی پہنےجلوہ افروز ہوئے اور ان دونوں رہنمائوں کو سیاست سے آئوٹ کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں جلاوطن ہوئےتو احساس ہواکہ وہ کیاکرتے آئے ہیں۔ دریں حالات سنجیدہ سیاست کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا جب دونوں رہنمائوں کی کوششوں سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین ’’میثاق جمہوریت‘‘ طے پایا اور مستقبل کی سیاست کے زریں اصول کئے گئے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم اسی میثاق جمہوریت کا تحفہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے بعدازں غلطی یہ کی کہ انہوں نے تحریک انصاف کو ابھرتی ہوئی سیاسی قوت تسلیم کرنے سے انکار کیا اور چشم پوشی اختیار کی۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد بھی تحریک انصاف کو انگیج کرنے کی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی حالانکہ انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کو صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت ملی اور قومی اسمبلی میں یہ تگڑی اپوزیشن بن کر سامنے آئی۔ آج ایک مرتبہ پھر یہ غلطی دہرائی جارہی ہے۔ حکومت اسٹیبلشمنٹ کے سہارے اپنے آپ کو مضبوط سمجھ رہی ہے چنانچہ یہ پھر اس راستے پر چلنے سے گریزاں ہے جو پائیدار سیاسی استحکام کا راستہ ہے۔ وقت اور حالات کی ایک ٹھوکر لگے گی اور یہ تنکوں کے سہارے قائم نام نہاد راج محل گر جائے گا۔ حیرانی ہوتی ہے کہ سیاسی لوگ غیرسیاسی انداز سے کیونکر سوچتے ہیں اور وہ بھی جب وہ بہت سے نشیب و فراز سے گزرچکےہوتے ہیں۔اب نوازشریف یاشہباز شریف اورآصف زرداری کوکیا سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا؟
سب باخبر ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا سہارا ہمیشہ نہیں رہتا، ترجیحات بدلتی ہیں تو سیاسی چہرے اور کردار بھی بدل جاتے ہیں کل تک یہ سہارا عمران خان کو حاصل تھا آج ان کی جگہ شہباز شریف نے لے لی ہے۔ اگر صاحبان سیاست نے سیاسی مہرے ہی بن کر رہنا ہے پھر تو ٹھیک ہےلیکن اگر وطن عزیزمیں سیاست کوپائیدار بنیادوں پر استوار کرنا ہے اور جمہوریت کو دوام بخشنا ہے تو انہیں روایتی طاقت کے کھیل سے ہٹ کر راستہ اختیار کرنا ہوگا۔
آج پاکستان میں سیاسی محاذ پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ عمران خان کے لئے تو ایک نیا تجربہ ہے لیکن حکومت میں بیٹھے لوگ تو کئی بار ان گھن چکروں سے گزرے ہیں۔ اپنے تجربات کی روشنی میں انہیں ایک نیا سیاسی لائحہ عمل دینے کے لئے آگے بڑھنا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی شخصیات اپنے عمل اور اپنے بیانیے کی وجہ سے مقبول اور غیر مقبول ہوتے ہیں۔ درست سمت میں اٹھایاگیاکوئی قدم حکومت میں شامل جماعتوں کو غیرمقبول سے مقبول بنا سکتاہےتو دوسری طرف اپوزیشن غلط سمت میں سفرکرنا اسے مقبولیت سے غیر مقبولیت کی طرف لے کرجاسکتا ہے۔ یہ سطور لکھتے وقت میرے پیش نظر وہ تمام ایکشنز(Action) ہیں جنہوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو عوام کی نظروں میں غیر مقبول بنایا جبکہ دوسری طرف عمران خان اور تحریک انصاف کو عوام میں پذیرائی ملی۔ پاکستان کے عوام سیاسی طور پر بڑے باشعور ہیں، وہ بخوبی جان لیتے ہیں کہ تاریخ کی درست سمت میں کون کھڑا ہےاورکون ہےجو غلط راہ کا مسافر ہے۔حکومت وقت پر الزام ہےکہ یہ فارم 47 کی پیداوار ہے لیکن اس زمینی حقیقت سے بھی مفر نہیں ہے کہ جیسے تیسے یا صاف لفظوں میں کہیں تو اسٹیبلشمنٹ کے سہارے زمام اقتدار اب ان کے ہاتھ آچکا ہے۔ اب اپوزیشن کو حکومت سےبات کئےبناکوئی اورچارہ نہیں کہ اصلاح احوال کادوسرا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ حکومت کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیےکہ جتنی جلد وہ اپوزیشن کو انگیج کرلے تو وہ اس کے حق میں بہتر رہےگا ورنہ پاکستان میں حالات کب پلٹا کھالیں کچھ کہانہیں جاسکتا۔ ایک ایسے وقت میں جب عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کا عندیہ دےچکے ہیں حکومت کو چاہیے کہ یہ خود سے آگے بڑھے اور بات چیت کا روڈمیپ دےعمران خان حکومت سے بات کرنے کے لئے کیوں تیار نہ ہوں گے جب سیاسی قیادت کی جانب سے 2024ء کے انتخابات کی دھاندلی کی تحقیقات، الیکشن ٹریبونلز کےجلد فیصلوں سمیت نئے مڈٹرم انتخابات جیسی پیشکش بات چیت کے ایجنڈے میں شامل ہوں گے۔ علاوہ ازیں عمران خان پربنائے جانے والے بے بنیاد مقدمات کا خاتمہ اور عمران خان کی رہائی کی پیشکش بھی موجودہ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کا راستہ ہموار کرسکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت دلیری دکھائے اور ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے وطن عزیز میں سیاسی استحکام کے لئے اپنا ناگزیر کردار ادا کرے۔

متعلقہ مضامین

  • گلوکار پیدا ہوتے ہیں، بنائے نہیں جاتے، سجاد علی
  • بھارت میں فرقہ وارانہ نفرت کی لہر کے پیچھے مودی سرکار ہے، سابق ہوم سیکرٹری کی سخت تنقید
  • کوئی ہے جو توجہ کرے!!
  • نیشنل کانفرنس کی حکومت عوامی امنگوں پر پورا نہیں اتر سکی، التجا مفتی
  • اسلام آباد، دیامر ڈیم متاثرین کے مسائل کے حل کیلئے اعلیٰ سطح کا اجلاس
  • اسمبلی کی نئی عمارت مستقبل کی ضروریات کے مطابق ہے ، آئندہ بجٹ میں نوجوان ترجیح ،روز گار کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں گے ، وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی
  • یو این سیکریٹری جنرل پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے کیلئے کام کریں، بلاول
  • علامہ راجہ ناصر عباس نے سعودی عرب میں قید علامہ غلام حسنین وجدانی کی رہائی کیلئے سینیٹ میں آواز اٹھادی
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے کشیدگی بڑھے گی ،طارق فاطمی
  • سیاست کا بوجھ اہل سیاست خود اٹھائیں