علیحدگی پسند منصوبہ” لائی چھینگ ڈہ ” کی ” جعلی جمہوریت کو بےنقاب کرتا ہے، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
“بیجنگ : تائیوان خطے کے رہنما لائی چھینگ ڈہ نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں دعویٰ کیا تھا کہ ‘تائیوان ایک خود مختار اور جمہوری ملک ہے۔’ “جمہوریت” ایک ایسا لفظ ہے جس کے بارے میں لائی چھینگ ڈہ اکثر بات کرتے ہیں ، لیکن جو وہ کرتے ہیں وہ بالکل غیر جمہوری ہے۔ جمہوریت عوام کے حقوق کے لئے ہونی چاہیے، اس کے برعکس نہیں۔
گزشتہ سال مئی میں اقتدار میں آنے کے بعد سے لائی چھینگ ڈہ انتظامیہ نے انتظامی، عدالتی اور رائے عامہ کے ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے آبنائے تائیوان کے دونوں کناروں کے درمیان میل جول اور تبادلوں میں رکاوٹ ڈالنے کے
.
لائی چھینگ ڈہ انتظامیہ نے آبنائے تائیوان کے دونوں اطراف کے درمیان “ڈی کپلنگ” کو زبردستی آگے بڑھایا، جو تائیوان کے عوام کے امنگوں کے خلاف ہے۔تائیوان جزیرے میں رائے عامہ نے تنقید کی ہے کہ لائی چھینگ ڈہ کے “علیحدگی کے حصول” کے عمل کی وجہ سے ، آبنائے تائیوان کے دونوں اطراف کے درمیان تبادلوں میں “بڑی رکاوٹ” کا دور آ گیا ہے۔
حال ہی ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی) کی انتظامیہ نے تائیوان کے سرکاری افسران سے مطالبہ کیا کہ وہ چائنیز مین لینڈ میں ڈومیسائل نہ کرانے اور مین لینڈ شناختی کارڈ استعمال نہ کرنے پر ‘تحریری گارنٹی ‘ جمع کرایں۔ تائیوان کے عوام بخوبی جانتے ہیں کہ لائی چھینگ ڈہ اقتدار میں آنے کے بعد عدالتی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے اندر مخالفین بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے میں مصروف ہیں۔ ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی) نے جمہوریت کو اپنی پارٹی کے ذاتی مفادات کا آلہ بنا لیا ہے، جو اس کی “آمرانہ” فطرت کو ظاہر کرتا ہے۔ لائی چھینگ ڈہ انتظامیہ کی “جعلی جمہوریت اور حقیقی آمریت” کا کھیل تائیوان کے عوام یا بین الاقوامی برادری کو دھوکہ نہیں دے سکتا۔ جہاں تک “علیحدگی کے لئے ایکشن پلان” کا تعلق ہے جو عوام کی خواہشات کے خلاف ہے اور غیر جمہوری ہے، اسے لامحالہ تاریخ کے پہیے سے کچل دیا جائے گا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: تائیوان کے
پڑھیں:
کراچی: سیلاب، کرپشن اور جعلی ترقی کے منصوبے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-6
میر بابر مشتاق
کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب، ہمیشہ سے اپنے مسائل کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جو ملک کے ریونیو کا 65 فی صد اور صوبہ سندھ کے ریونیو کا تقریباً 95 فی صد دیتا ہے، لیکن بدلے میں اسے جو سہولتیں ملنی چاہییں وہ آج بھی خواب ہیں۔ اس شہر کو چلانے والے ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنائیں گے، جدید انفرا اسٹرکچر فراہم کریں گے اور عوام کو معیاری سہولتیں دیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی آج بھی بارش کے چند قطروں سے مفلوج ہو جانے والا شہر ہے۔ بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ یہ زمین کو شاداب کرتی ہے، کھیتوں کو سیراب کرتی ہے اور زندگی کو تازگی بخشتی ہے، لیکن بدقسمتی سے کراچی کے عوام کے لیے بارش کسی عذاب سے کم نہیں۔ یہاں بارش کا مطلب ہے گھنٹوں کا ٹریفک جام، پانی میں ڈوبی سڑکیں، گھروں میں داخل ہوتا ہوا گندا پانی، بیماریاں، کاروبار کی بندش اور ناقص منصوبہ بندی کا کھلا تماشا۔ حالیہ بارشوں نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ ہمارے حکمران صرف دکھاوے کے منصوبے بناتے ہیں، جن پر اربوں روپے خرچ کر کے عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، لیکن جیسے ہی بارش کا پہلا ریلا آتا ہے، یہ منصوبے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔
کراچی میں 55 ارب روپے کی شاہراہ بھٹو اور 12 ارب روپے کی حب کنال صرف چند دن کی بارش میں بہہ گئیں۔ یہ وہی منصوبے تھے جن کے افتتاحی تقاریب پر حکومت نے کروڑوں روپے لٹائے، میڈیا پر اشتہارات چلائے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی، لیکن چند دن بعد ہی یہ سب فراڈ بے نقاب ہو گیا۔ شاہراہ بھٹو کا ڈھانچہ بیٹھ گیا، حب کنال ٹوٹ گئی، اور عوام کے اربوں روپے مٹی میں مل گئے۔ یہ کسی ایک منصوبے کی بات نہیں، پورے شہر کا انفرا اسٹرکچر انہی خامیوں کا شکار ہے۔سندھ حکومت نے ہمیشہ کراچی کے وسائل کو لوٹا اور شہر کو نظرانداز کیا۔ پچھلے پندرہ سال میں صوبائی فنانس کمیشن (PFC) کا اجلاس تک نہیں ہوا۔ کراچی کو اس کے جائز حق کے 3360 ارب روپے نہیں دیے گئے۔ صوبائی ترقیاتی پروگرام میں کراچی کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا اور جو منصوبے دیے بھی گئے، ان کا حال وہی ہوا جو شاہراہ بھٹو اور حب کنال کا ہوا۔ کراچی میں بارش کے بعد سب سے زیادہ ناکامی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے نظام کی سامنے آئی۔ نکاسی آب کا نظام مفلوج ہو گیا۔ ندی نالے قبضہ مافیا اور کچرے سے بھرے پڑے ہیں۔ اورنگی نالہ، ناظم آباد، گلشن، گلبہار اور نارتھ ناظم آباد کے شہری بدترین اذیت میں رہے۔ پانی گھروں میں داخل ہو گیا، گاڑیاں ڈوب گئیں، کاروبار بند ہو گئے اور بیماریاں پھیلنے لگیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بیچارہ مرتضیٰ وہاب چند لاکھ کی نوکری کے بدلے میں کبھی حب کینال پر وزیراعلیٰ کی گندگی صاف کرتا ہے تو کبھی شاہراہ بھٹو پر زرداری کا داغدار چہرہ دھوتا ہے۔ یقین کریں، پیپلز پارٹی کے وڈیرے اپنی نجی محفلوں میں ہنستے ہیں کہ کراچی والو کیسا دیا؟ کتنے سستے میں ہمیں یہ چغد مل گیا جو ہمارے کرپشن، تعصب اور بدمعاشی سے لتھڑے گندے چہرے کو صاف کرتا رہتا ہے۔ یہ بیچارا بے اختیار ہوتے ہوئے بھی مجبور ہے کہ کہے کہ میں با اختیار ہوں، حالانکہ نہ بلڈنگ کنٹرول میں اس کی بات چلتی ہے، نہ واٹر بورڈ میں، نہ سالڈ ویسٹ میں، نہ سڑکیں بنانے کے کلک میں۔ کراچی کے ووٹ کی پیپلز پارٹی کو ضرورت نہیں، بس کراچی کے وسائل کی ضرورت ہے جو وہ سامنے رکھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے۔ بیچارہ میئر نہ لیپنے کا نہ پوتنے کا…
کراچی کی تباہی کا دوسرا بڑا سبب سیاسی قبضہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے ہمیشہ کراچی کو اپنے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔ ایم کیو ایم نے شہری حکومت کے نام پر لوٹ مار کی اور پیپلز پارٹی نے صوبائی حکومت کے ذریعے وسائل پر قبضہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے حصے میں محرومیاں، تباہ حال سڑکیں، کچرا کنڈیاں اور بیماریاں آئیں۔ یہ کہاں کی ترقی ہے کہ اربوں روپے کے منصوبے بارش کے چند قطروں میں بہہ جائیں؟ کہاں کی حکمرانی ہے کہ شہری بارش کے پانی میں ڈوب کر بیماریاں برداشت کریں جبکہ حکمران افتتاحی تقریبات اور پریس کانفرنسوں میں خود کو کامیاب قرار دیتے رہیں؟ یہ دراصل جعلی ترقی کے منصوبے ہیں جن کا مقصد صرف کمیشن خوری اور سیاسی تشہیر ہے۔ ایسے حالات میں واحد جماعت جس نے عوام کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا، وہ جماعت اسلامی ہے۔ ’’حق دو کراچی تحریک‘‘ نے کراچی کے عوام کو آواز دی اور ان کے مسائل کو قومی سطح پر اجاگر کیا۔ یہ تحریک محض احتجاج نہیں بلکہ عوامی حقوق کی جنگ ہے۔ جماعت اسلامی نے ثابت کیا کہ اگر نیت صاف ہو تو محدود اختیارات میں بھی بڑے کام کیے جا سکتے ہیں۔
صرف دو سال کے اندر جماعت اسلامی نے کراچی میں وہ کام کیے جو پچھلے پندرہ سال میں صوبائی اور شہری حکومتیں مل کر بھی نہ کر سکیں۔ 86 ہزار سے زائد گھروں تک پانی پہنچایا گیا، جس سے 6 لاکھ افراد مستفید ہوئے۔ 9 ٹاؤنز میں سیکڑوں ماڈل اسٹریٹس بنائی گئیں۔ رین واٹر ہارویسٹنگ کے کئی منصوبے شروع کیے گئے۔ 171 تباہ حال پارکس بحال کیے گئے۔ 42 اسکول اپ گریڈ کیے گئے اور ریکارڈ نئے داخلے ہوئے۔ ایک لاکھ سے زائد اسٹریٹ لائٹس نصب ہوئیں، جس سے ہزاروں گلیاں روشن ہوئیں۔ 30 ہزار سے زائد گٹر کے ڈھکن اور رنگز نصب کیے گئے۔ بورنگ کا پانی جو صرف 10 منٹ آتا تھا، اب ایک گھنٹے تک مستقل آنے لگا۔ نارتھ ناظم آباد میں بارش کے پانی کو جمع کرنے کا جدید نظام کامیاب ہوا۔ یہ تمام کام اس بات کا ثبوت ہیں کہ جماعت اسلامی نے سیاست نہیں بلکہ خدمت کی۔ اسی خدمت کی وجہ سے قابض میئر مرتضیٰ وہاب جماعت اسلامی پر تنقید کر کے حقیقت سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں اور عوامی ردعمل کے دباؤ سے پریشان ہیں۔ کراچی کے عوام سب دیکھ رہے ہیں کہ کس نے خدمت کی اور کس نے صرف بیانات دیے۔ میئر کے عہدے کا ادب اور آداب یہی ہے کہ وہ عوامی مسائل کو ترجیح دیں، لیکن افسوس کہ موجودہ میئر نے اس منصب کو بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے صرف تنقید کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات ضروری ہیں۔ سب سے پہلے تو شہر کے ندی نالوں کو مستقل بنیادوں پر صاف کرنا ہوگا اور قبضہ مافیا کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی۔ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی مکمل اصلاح ناگزیر ہے۔ نکاسی آب کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت اور معیار کو یقینی بنانا ہوگا۔ کراچی کو اس کا جائز مالی حصہ دینا ہوگا اور صوبائی فنانس کمیشن کو فوری طور پر بحال کرنا ہوگا۔
کراچی کے لیے کم از کم 500 ارب روپے کا ہنگامی ترقیاتی فنڈ فوری جاری ہونا چاہیے، اور اس میں سے ہر ٹاؤن کو 2 ارب روپے ملنے چاہئیں تاکہ مقامی سطح پر ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ منصوبوں کی تکمیل میں عوام کی شراکت داری اور نگرانی ضروری ہے تاکہ کرپشن اور ناقص کام کی گنجائش نہ رہے۔ کراچی کی موجودہ صورتحال نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ حکمران عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ ہر بارش کے بعد وہی اذیت، وہی بیماریاں اور وہی وعدے دہرا دیے جاتے ہیں۔ لیکن اب کراچی کے عوام مزید دھوکا کھانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ہر بار ان کی محنت کی کمائی کرپشن کے نذرانے میں ضائع کی جاتی ہے۔ اب فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہیں تو جعلی ترقی اور کرپشن کے ایجنڈے کو مزید سہنے کے بجائے ایسی قیادت کا انتخاب کریں جو اختیار سے بڑھ کر خدمت کرے۔ جماعت اسلامی نے عملی مثال دے دی ہے کہ دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ عوام کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ اب یہ کراچی کے عوام پر ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں۔