Daily Ausaf:
2025-11-03@18:12:58 GMT

’’پراجیکٹ عمران خان‘‘۔۔۔بہت مہنگا پڑ رہا ہے!

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

’جعفر ایکسپریس‘ کے دہشت گردانہ اغوا نے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کو لرزا دیا ۔ مسلح افواج کے دلیرانہ اور جزئیات کی حد تک پختہ کار پیشہ ورانہ آپریشن نے بہت بڑی خون ریزی سے بچالیا۔ فوج کے جوانوں نے اپنی جانیں نچھاور کرکے، اپنے ہم وطنوں کی جانیں بچائیں۔
دشوار گزارسنگلاخ پہاڑی سلسلوں میں، دہشت گردوں کے نرغے میں گھری جعفر ایکسپریس کے چارسُو رات کے اندھیرے گہرے ہو رہے تھے، سینکڑوں گھرانے اپنے پیاروں کی زندگیوں کے بارے میں امیدوبیم کی صلیب پر لٹکے ہوئے تھے اورنیند سے عاری آنکھوں میں چنگاریاں سی بھر گئی تھیں جب رات دس بج کر بتیس منٹ پر، بانی پی۔ٹی۔آئی، عمران خان کے تصدیق شدہ ذاتی ایکس اکائونٹ سے ایک طویل بیان جاری ہوا۔ خارجہ پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کے بگاڑ کی تمام تر ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کے بعد موصوف نے فرمایا __ ’’خفیہ اداروں کا اصل کام، سرحدوں کا تحفظ اور دہشت گردی سے بچائو ہے۔ اگر وہ پولیٹیکل انجینئرنگ اور تحریک انصاف کو توڑنے میں ہی لگے رہیں گے تو سرحدوں کا تحفظ کون کرے گا؟‘‘ جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کے حملے اور مسلح افواج کے آپریشن کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے اپنی ’’اُفتاد‘‘ کی داستان سناتے ہوئے فرمایا __ ’’میری اپنے بچوں سے بات نہیں کرائی جاتی۔ جیل مینوئل کے مطابق اپنی بیوی سے نہیں ملایا جارہا۔‘‘
یہ ہے اُس ’’پراجیکٹ عمران خان‘ کا تازہ ترین چہرہ جسے بڑی ہُنرمندی سے تراشا اور 25 جولائی 2018 ء کی رات کی اولیں ساعتوں میں آر۔ٹی۔ایس کی شہہ رگ دبوچ کر قوم پر مسلّط کیاگیا۔ علی الصبح جنرل آصف غفور نے ’’وتُعزُّ من تشاء وتُزِلُّ من تشاء‘‘ (وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے) کا شہرۂِ آفاق ٹویٹ کرکے اہل وطن کو یہ مژدۂِ جانفزا سنایا کہ ہم ایک مدّت سے جس شجرِآرزو، کو سینچ رہے تھے، وہ بالآخر پھل لے آیا ہے۔ یہ پھَل قوم وملک کو کس بھائو پڑا، اِس کا اندازہ سرِدست نہیں لگایاجاسکتا کیونکہ ’’صدقۂِ جاریہ‘‘ کی طرح یہ پراجیکٹ جانے کب تک ’صدمۂِ جاریہ‘ بن کر، عذابِ پیہم کی طرح ہم پر مسلّط رہے گا۔
معاشی امور پر گرفت رکھنے والے مبصر خُرّم حسین نے 13 مارچ کو معروف انگریزی اخبار ’’ڈان‘‘ میں ایک چشم کُشا آرٹیکل لکھا۔ خُرّمکا کہنا ہے کہ افراط زر (مہنگائی) کی شرح میں بے تحاشا اضافے کا سلسلہ عمران خان کے دور میں شروع ہوا جب یہ شرح 38 فی صد تک پہنچ گئی۔ اُن کے اقتدار سے ہٹنے کے فوراً بعد یہ شرح نقطۂِ عروج پر پہنچ گئی لیکن عمران خان نے، اقتدار سے محرومی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اِس کا ملبہ آنے والوں پر ڈال دیا۔‘‘ اِسی آرٹیکل میں خُرّم حسین نے دو اور اقتصادی مبصرین کی آراء کا حوالہ بھی دیا ہے جن میں سے ایک، حفیظ پاشا لکھتے ہیں کہ ’’2008ء سے2017ء تک عام پاکستانی کی قوّتِ خرید میں اوسطاً 3 فی صد سالانہ کی شرح سے اضافہ ہوا۔‘‘ حفیظ پاشا مزید کہتے ہیں __ ’’یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ آج ایک غریب پاکستانی ورکر کی قوّتِ خرید، اُس قوّتِ خرید سے بھی بہت کم ہے جو اُسے آٹھ سال پہلے (2017ء میں) حاصل تھی۔ شاذونادر ہی دیکھاگیا ہے کہ غریب کارکنوں کی آمدنی/ قوّتِ خرید پر ایسی تباہ کُن ضرب لگی ہو۔‘‘ خُرّم حسین نے ایک اور معتبر اقتصادی مبصر، عادل منصور کا حوالہ بھی دیا ہے جس نے اعدادو شمار کی مدد سے واضح کیا ہے کہ ’’اگر آنے والے مزید پانچ سالوں تک، عام پاکستانی کی اُجرت میں دس فی صد سالانہ کی شرح سے اضافہ کیاجاتا رہے، تو اُس کی قوّتِ خرید 2029ء میں، اُس قوّتِ خرید کے برابر پہنچے گی جو اُسے 2017ء میں حاصل تھی۔‘‘ کاش اِس امر کا بھی جائزہ لیاجائے کہ اگر 2017ء والا پاکستان، نوازشریف کی قیادت میں اُسی ثابت قدمی اور سُبک روی کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا تو آج کہاں کھڑا ہوتا اور عام پاکستانی کے شب و روز میں کتنی بہتری آچکی ہوتی۔
اِس فتنہ ساماں ’’پراجیکٹ‘‘ نے پاکستان کی سیاسی، سماجی اور جمہوری اقدار پر کتنے چرکے لگائے اور باہمی نفرتوں کے کیسے کیسے خارزار کاشت کئے، اِس کا اندازہ لگانے میں کئی سال لگیں گے۔ 9 مئی کی غارت گری کو خوش آمدید کہنے اور اِسے اپنے فدائین کا فطری ردّعمل قرار دینے کے مہینوں بعد پی۔ٹی۔آئی نے یہ پُرفریب بیانیہ تراشا کہ 9 مئی تو فوج کا ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘ تھا۔ مطلب یہ ہے کہ خود فوج نے سینکڑوں فوجی تنصیبات پر حملے کئے، فضائیہ کے اڈوں پر کھڑے طیارے جلائے، شہداء کی یادگاروں کی بے حُرمتی کی اور الزام، آب زمزم میں دھلی، پاکیزہ ومعصوم پی۔ٹی۔آئی کے سر تھوپ دیا۔ اب تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل، سلمان اکرم راجہ نے، جانے پہچانے اور معروف ایکس اکائونٹس سے کئے جانے والے پاکستان دشمن پراپگنڈے سے لاتعلقی کی کوشش کرتے ہوئے کہاکہ ’’پی۔ٹی۔آئی، لاکھوں اکائونٹس کو کنٹرول نہیں کرسکتی۔ لوگوں کو باہر بٹھاکر، پی۔ٹی۔آئی کا لبادہ اوڑھاتے ہوئے، دانستہ منصوبے کے تحت، اُن سے ٹویٹس کرائے جاتے ہیں۔ اُن کا پی۔ٹی۔آئی سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ کوئی ہے جو اِس بے سروپا دلیل پر یقین کرے ؟ پی۔ٹی۔آئی کی کانِ نمک میں جاکر، نمک ہوجانے والے، اچھے خاصے خوش سلیقہ وشیریں کلام سلمان اکرم راجہ، لاکھوں اکائونٹس نہ سہی، صرف عمران خان ہی کا باضابطہ اور مصدقہ ذاتی ایکس کائونٹ بند کرا دیں جو ملک کے اداروں اور قومی سلامتی کے خلاف زہریلے پرپگنڈے کا آتش فشاں بنا ہوا ہے۔ اور اگر لاکھوں اکائونٹس بند نہیں کرائے جاسکتے تو کیا کھُل کر اُن کی مذمت بھی نہیں کی جاسکتی؟ کیا ایف۔آئی۔اے کے سائبر کرائم ونگ کو اُن کے خلاف شکایت بھی نہیں کی جاسکتی؟ اور کیا اُن جانے پہچانے فتنہ پردازوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی جو پی۔ٹی۔آئی کے بیانیے کو پروان چڑھانے کے لئے سرِشام اپنی چھابڑیاں لگا کر بیٹھ جاتے ہیں؟
’’پراجیکٹ عمران خان‘‘ ایک ایسے عجیب الخلقت سانچے میں ڈھل چکا ہے جس کی کوئی نظیر قومی سیاست میں نہیں ملتی۔ کھیل کے میدان سے آئی۔ایم۔ایف کے دسترخوان تک، پاکستان کے حصے میں آنے والی ہر ناکامی پر اُن کے ہاں گھی کے چراغ جل اُٹھتے اور ہر کامیابی پر صفِ ماتم بچھ جاتی ہے۔ کوئی کچھ بھی کہتا رہے، اُن کے دل ودماغ سے پاکستانیت رُخصت ہوچکی ہے۔ کڑے امتحان کے نازک لمحات میں بھی، عمران خان کا ٹویٹ، کسی طور قوم کے جذبات واحساسات کی ترجمانی نہیں کرتا۔ اُس کے لفظ لفظ سے دہشت گردوں سے ہمدردی اور مسلح افواج سے بُغض کی بُو آ رہی ہے۔شرق وغرب کے تمام ممالک نے کسی تحفظ کے بغیر اِس مکروہ واردات کی مذمت کی یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی مذمتی بیان جاری کیا لیکن آج ایک ہفتہ ہونے کو آیا، عمران خان کا ٹوئٹر خاموش ہے۔ نہ دہشت گردوں کے لئے کوئی کلمۂِ مذمت، نہ کامیاب آپریشن پر مسلح افواج کے لئے کوئی حرفِ تحسین۔ اُوپر سے ضد یہ کہ خان کو پیرول پر رہا کرکے آل پارٹیز کانفرنس میں لایا جائے۔موصوف وزیراعظم تھے تو بھی قومی سلامتی کے موضوع پر کسی ایسی کانفرنس میں نہیں جاتے تھے جس میں تمام پارلیمانی جماعتیں اور مسلح افواج کی قیادت موجود ہوتی ۔ دلیل یہ تھی کہ جہاں یہ چور اور ڈاکو بیٹھے ہوں گے، میں نہیں جائوں گا۔ جنرل باجوہ ترلے ہی کرتے رہ جاتے ۔ کوئی پوچھے کہ کون سے فرشتوں کی ہم نشینی کے لئے آج یہ پیرول پر رہا ہونا چاہتے ہیں؟

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مسلح افواج پی ٹی ا ئی نے والے کے لئے

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد

سویلین حکومت تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے، اسٹیبلشمنٹ اس کی اجازت نہیں دیتی،پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنے کا اختیار نہیں، ترجمان کا ٹی وی چینل کو انٹرویو

امارت اسلامیہ افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنے کا اختیار نہیں۔ عمران کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے تھے، خاص طور پر تجارت، ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کی کوششوں اور دیگر شعبوں میں، سب کچھ آسانی سے چل رہا تھا۔ پاکستان کی سویلین حکومت افغانستان کے ساتھ باہمی مفادات کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ اس کی اجازت نہیں دیتی۔ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مجاہد نے کہا کہ افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی ایلچی صادق خان کابل میں تھے اور انہوں نے افغان حکام سے مثبت بات چیت کی، لیکن اسی عرصے کے دوران پاکستان نے افغان سرزمین پر حملے بھی کیے۔مجاہد نے نوٹ کیا کہ پاکستان کی طرف سے ڈیورنڈ لائن کے ساتھ کراسنگ کی بندش سے دونوں طرف کے تاجروں کو بڑا نقصان ہوا ہے، اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے معاملات کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے، دوسری طرف پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات روکنا ہمارا اختیار نہیں۔دریائے کنڑ پر ڈیم بننے کی خبروں پر پاکستان کی تشویش سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغان سرزمین پر تعمیرات اور دیگر سرگرمیاں مکمل طور پر افغانستان کا حق ہے، اگر دریائے کنڑ پر کوئی ڈیم بنایا جاتا ہے تو اس سے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، پانی اپنی قدرتی سمت میں بہنا جاری رہے گا، اور اسے مقررہ راستے میں ہی استعمال کیا جائے گا۔ذبیح اللہ مجاہد نے سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دور میں افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے تھے، خاص طور پر تجارت، ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کی کوششوں اور دیگر شعبوں میں، سب کچھ آسانی سے چل رہا تھا۔انہوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان سرزمین پر ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے بارے میں کسی بھی معلومات کو امارت اسلامیہ کے ساتھ شیٔر کرے تاکہ مناسب کارروائی کی جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فریق چاہتا ہے کہ ہم پاکستان کے اندر ہونے والے واقعات کو بھی روکیں، لیکن پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنا ہمارے اختیار سے باہر ہے۔ امارت اسلامیہ پاکستان میں عدم تحفظ نہیں چاہتی اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ افغان سرزمین سے کوئی خطرہ پیدا نہ ہو۔افغان ترجمان نے امید ظاہر کی کہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان مذاکرات کے اگلے دور میں دو طرفہ مسائل کے دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے دیانتدارانہ اور ٹھوس بات چیت ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں دینی مدارس کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے، احسن اقبال
  • پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پاکستان کی سیکیورٹی کی ضامن مسلح افواج، یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • طورخم بارڈ غیرقانونی افغان باشندوں کی واپسی کے لیے کھولا گیا، کوئی تجارت نہیں ہورہی، خواجہ آصف
  • دہشتگردی پاکستان کیلئے ریڈ لائن ، اسپر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، بیرسٹر دانیال
  • دہشت گردی پاکستان کےلیے ریڈ لائن ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، بیرسٹر دانیال چوہدری
  • افغان طالبان نے جو لکھ کر دیا ہے ، اگر اس کی خلاف ورزی ہوئی تو ان کے پاس کوئی بہانہ نہیں بچے گا: طلال چوہدری