چین کی جانب سے پاکستان سمیت 15 ممالک کو ڈیجیٹل بنیادی تنصیبات کی تعمیر میں مدد کی فراہمی
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
بیجنگ :چین کے انٹرنیشنل ڈولپمنٹ کوآپریشن ایجنسی کے ترجمان نے کہا کہ چین ڈیجیٹل معیشت اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں باہمی رابطے اور تعاون کو مسلسل فروغ دے رہا ہے۔ چین نے پاکستان، لاؤس، مصر، یوگنڈا سمیت 15 ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے لیے مواصلات، انٹرنیٹ، الیکٹرانک سرکاری امور، ذہین نقل و حمل اور سیٹلائٹ جیسے شعبوں پر محیط ڈیجیٹل بنیادی تنصیبات کی تعمیر میں مدد فراہم کی ہے۔ ڈیجیٹل معیشت اور مصنوعی ذہانت جسے کسی زمانے میں صرف ترقی یافتہ ممالک کا خصوصی میدان سمجھا جاتا تھا، اب اس حوالے سے ایک ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے، چین عالمگیر عوامی مصنوعات فراہم کر رہا ہے، جس سے امیر ممالک کی میراث سمجھے جانے والے میدان میں زیادہ عالمگیر یت پیدا ہوئی ہے اور مصنوعات کی دستیابی بھی آسان ہوگئی ہے ۔
جمعرات کے روز چینی میڈیانے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت، جو نئے سائنسی اور صنعتی انقلاب کی مرکزی قوت ہے، عالمی ترقی کے نقشے کو تیزی سے تبدیل کر رہی ہے۔ تاہم، ڈیجیٹل خلیج اب بھی موجود ہے اور دن بدن نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔ فروری میں پیرس میں منعقدہ آرٹیفشل انٹیلیجنس ایکشن سمٹ میں، فرانس، چین، بھارت اور یورپی یونین سمیت ممالک اور تنظیموں نے “انسانیت اور زمین کے فائدے کے لیے جامع اور پائیدار مصنوعی ذہانت کی ترقی کے بارے میں اعلامیہ” پر دستخط کیے، لیکن امریکہ اور برطانیہ نے اس پر دستخط نہیں کیے۔ یہ اختلاف نہ صرف عالمی مصنوعی ذہانت کی ترقی میں مفادات کے کھیل کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ بین الاقوامی برادری کو ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ترقی کو تمام انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہونا چاہیے، نہ کہ اسے چند “امیر” افراد یا”امیر” ممالک کا خصوصی آلہ بننا چاہیے۔چین نے مصنوعی ذہانت کے بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مصنوعی ذہانت کی صلاحیت کی تعمیر کی قرارداد کی منظوری سے لے کر، مصنوعی ذہانت کی صلاحیت کی تعمیر کے بین الاقوامی تعاون کے فرینڈلی گروپ کی تشکیل اور چین-برکس مصنوعی ذہانت کی ترقی اور تعاون مرکز کے قیام تک، چین ہمیشہ مصنوعی ذہانت کی کھلی اور جامع ترقی کے لیے کوشاں رہا ہے۔
خاص طور پر مصنوعی ذہانت کی زیادہ آسان دستیابی میں، چین مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو اوپن سورس کرنے کا حامی ہے، تاکہ عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کے اشتراک اور خدمات کی دستیابی کو فروغ دیا جا سکے۔ مثال کے طور پر، چین کی مصنوعی ذہانت کمپنی ڈیپ سیک نے اوپن سورس کے بڑے ماڈلز متعارف کروائے ہیں، جو نہ صرف اعلیٰ کارکردگی اور مفت تجارتی استعمال کے حامل ہیں، بلکہ ان کی تربیتی لاگت بھی کم ہے، جس نے عالمی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کی دستیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ترقی میں دستیابی پرتوجہ نہ صرف اعلیٰ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں نظر آتی ہے، بلکہ عوامی زندگی میں بھی اس کے اثرات نمایاں ہیں ۔ عوامی نقل و حمل کی مثال لوں تو گزشتہ سال میں نے چین اور جاپان کے شہروں میں بسوں میں سفر کیا تھا۔ اس سفر میں ،میں نے دیکھا کہ جاپان میں بس کا کرایہ چین کی نسبت 10 گنا زیادہ ہے ۔ چین کی بسوں میں سفر کرنے والوں میں آ پ کو ضعیف اور بچے زیادہ نظر آتے ہیں ۔ یہ چھوٹا لیکن گہرا موازنہ اس تصور کو ظاہر کرتا ہے جو چین میں عوامی زندگی کے تمام شعبوں میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے ۔مسلسل کم ہوتی دواؤں کی قیمتوں سے لے کر مستحکم ہوتی رئیل اسٹیٹ سیکٹرکی قیمتیں،کسانوں کے لیے مخصوص سستی ٹکٹس والی ریل گاڑیوں سے لے کر مصنوعی ذہانت، خلائی تحقیق جیسے اعلیٰ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ترقی پذیر ممالک کے ساتھ تعاون تک، دستیابی کو بڑھانا ہمیشہ چین کی ترقی کا اہم نکتہ رہا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کہ چین کی ترقیاتی منطق میں، انسان ،ترقی کا ہدف ہے نا کہ پیسہ کمانے کا آلہ ۔چاہے وہ سونے اور چاندی کے پہاڑ ہوں یا جنگلات سے ڈھکے ہوئے سرسبز پہاڑ اور صاف شفاف پانی ،سب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہیں۔شمولیت کا ترقیاتی تصور صرف گھریلو ترقی تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ بین الاقوامی تعاون میں بھی پھیلا ہوا ہے۔ تنزانیہ میں، چین کے مواصلاتی منصوبوں نے وہاں فون کے اخراجات کو 58 فیصد اور انٹرنیٹ کے اخراجات کو 75 فیصد تک کم کر دیا ہے۔ پاکستان میں، مواصلاتی نیٹ ورک، لاجسٹکس ڈیلیوری، سمارٹ شہر کی تعمیر، اور ڈیجیٹل ثقافت و میڈیا کی ترقی جیسے متعدد شعبوں میں تعاون نے نہ صرف بین الاقوامی تجارت، دوردراز طبی امداد جیسے شعبوں کو مضبوط سہارا فراہم کیا ہے، بلکہ مقامی لوگوں کے لیے مزید روزگار کے مواقع اور زیادہ آسان طرز زندگی بھی پیدا کیا ہے۔ آج بھی جب کچھ ممالک اس بحث میں ہیں کہ ریلوے لائن بچھانے سے منافع ہوگا یا نہیں ، چین دور دراز کے دیہات کے لیے ترقی کے راستے تعمیر کر چکا ہے ۔اس ترقیاتی تصور نے عام لوگوں کے کچھ پانے اور خوشی کے احساس کو بہت بڑھا دیا ہے۔ تیس سال پہلے چین میں ذاتی کار خریدنا بہت سے لوگوں کے لیے ایک خواب تھا، لیکن اب زیادہ تر خاندان نہ صرف کار خرید سکتے ہیں، بلکہ کم قیمت پر جدید ترین نیو انرجی کاروں کے مالک بھی بن سکتے ہیں۔ اس لیے، جب کچھ ممالک چین کی نیو انرجی مصنوعات کی کم قیمتوں پر تنقید کرتے ہیں، تو وہ بیشتر صارفین کے حقوق کی بجائے صرف چند اقیلتی مفاداتی گروہوں کے منافع کی فکر کر رہے ہوتے ہیں۔اس لیے، ایک ایسا معاشی نظام تشکیل دینا جو زیادہ لوگوں کے مفادات کا خیال رکھے، اور “امیر ممالک کے کھیل” سے آزاد دنیا بنانا، نہ صرف چین کا وژن ہے، بلکہ گلوبل ساؤتھ کی مشترکہ خواہش بھی ہے۔ اس مقصد کے لیے، چین نے عالمی ترقیاتی انیشٹو سمیت بنی نوع انسان کے ہم نصیب معشرے کی مشترکہ تعمیر کی وکالت کی اور عملی اقدامات کے ذریعے زیادہ ترقی پذیر ممالک کو معاشی عالمگیریت کے عمل میں شامل ہونے میں مدد دی ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ تعاون یک طرفہ امداد نہیں ہے، بلکہ باہمی فائدے پر مبنی ہے اور یہ قلیل مدتی عمل کے بجائے ایک طویل مدتی منصوبہ بندی ہے۔ ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے سے لے کر مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی تک، عوامی زندگی کی بہتری سے لے کر بین الاقوامی تعاون تک، چین دیگر ممالک کے ساتھ عملی اقدامات کے ذریعے عالمی ترقی کو زیادہ منصفانہ اور عالمگیر بنا رہا ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت کی ترقی بین الاقوامی تعاون کی تعمیر لوگوں کے سے لے کر ترقی کے کیا ہے چین کی رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تعمیر میں اہم سنگ میل حاصل کر لیا
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تعمیر میں اہم سنگ میل حاصل کر لیا۔
چین اور پاکستان کے درمیان سمندروں سے گہری اور پہاڑوں سے بلند دوستی کی اعلیٰ مثال، ملک کے سب سے بڑے چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تعمیر تیزی سے جاری ہے۔
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ یونٹ 5 (سی-5) کی تعمیر میں ایک اہم سنگ میل حاصل کر لیا ہے۔ پاک چین دوستی کا درخشاں باب قرار دیے جانے والے ملک کے اس سب سے بڑے اور جدید ترین نیوکلیئر پاور پلانٹ کا سنگ بنیاد وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے 14 جولائی 2023 کو رکھا تھا-
یہ منصوبہ تعمیر کے باقاعدہ مرحلے میں داخل ہو گیا ہے- اس سلسلے میں جنرل منیجر چشمہ نیوکلیئر پاور کمپلیکس انجینئر حبیب الرحمن نے نیوکلیئر پاور کو توانائی کا کاربن فری اور با کفایت ذریعہ قرار دیتے ہوئے ملک کی انرجی سکیورٹی کے حوالے غیر معمولی اہم قرار دیا ہے۔
نیوکلیئر پاور کے شعبے میں پاکستان کا کامیاب سفر قابل فخر اور پاک چین دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے جو 1990 کی دہائی سے شروع ہوا۔ ملک کے سب سے بڑے اور جدید ترین نیوکلیئر پاور پلانٹ سی-5 کے اضافے سے جس کی تکمیل 2030 تک متوقع ہے قومی گرڈ میں مزید 1200 میگاواٹ کاربن فری اور سستی بیس لوڈ بجلی کا اضافہ ہو گا جس سے گرڈ میں جوہری توانائی کا حصہ 4700 میگاواٹ سے زائد ہو جائے گا۔
اس پراجیکٹ سے سماجی و اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا اور پاکستانی عوام کے لیے روزگار کے ہزاروں مواقع بھی پیدا ہوں گے۔