آسٹریلیا کا ایک قصبہ جہاں منہ مانگی تنخواہ پر بھی کوئی ڈاکٹر جانے کو تیار نہیں، وجہ کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
آسٹریلیا کے ایک قصبے کو ڈاکٹر کی تلاش ہے، جسے تنخواہ چار لاکھ امریکی ڈالر سے زیادہ، مفت رہائش اور کار بھی ملے گی مگراتنی اچھی آفر کے باوجود وہاں کوئی جانے کو تیا ر نہیں۔
آسٹریلیا کے دور دراز علاقے جولیا کریک میں واقع کوینزلینڈ ٹاون کے واحد ڈاکٹر کی مدت ملازمت ختم ہونے والی ہے اور مقامی انتظامیہ نے نئے ڈاکٹر کی تلاش شروع کردی ہے۔ جسے ریاستی دارالحکومت برسبین کے عام یا فیملی ڈاکٹر کے مقابلے میں دوگنا تنخواہ کی پیش کش کی گئی ہے۔ انتظامیہ نئے ڈاکٹر کو مفت رہائش اور کار بھی فراہم کرے گی۔
لیکن پانچ سو افراد کی آبادی والے اس قصبے کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ برسبین سے سترہ گھنٹے اور قریب ترین بندرگاہی شہر ٹاؤنس ویل سے سات گھنٹے کے ڈرائیو پر ہے۔
اس کے ساتھ ہی ممکنہ ڈاکٹر کو شدید گرمی میں رہنے اورعلاقوں میں پائے جانے والے حشرات الارض سے بچنے کی عادت بھی ڈالنی ہو گی۔
تاہم سبکدوش ہونے والے ڈاکٹر ایڈم لوؤز کا کہنا ہے کہ ان کی جگہ یہاں آنے والے شخص کو ایک پرسکون زندگی ملے گی اور اسے ایسے ہنر سیکھنے کا موقع بھی ملے گا، جس کا اس نے پہلے کبھی استعمال نہ کیا ہو۔
لوؤز کی تقرری 2022 میں ہوئی تھی۔ اس وقت تقریبآ تین لاکھ امریکی ڈالر کی پیش کش کی وجہ سے جولیا کریک قومی خبروں کی سرخیوں میں آگیا تھا۔
لوؤز بتاتے ہیں، میری خوشدامن نے مجھے ایک خبر کا لنک بھیجا، جس میں لکھا تھا، ”نصف ملین آسٹریلوی ڈالر کے باوجود کوئی ڈاکٹر ملازمت کے لیے تیار نہیں۔“ انہوں نے کہا جب میں نے اس خبر کو دیکھا تو میرا پہلا سوال تھا،”آخر یہ جولیا کریک ہے کہاں؟“
ڈاکٹر لوؤز کا تجربہ کیسا رہا؟
جب 2022 میں ملازمت کے لیے اشتہار دیا گیا تو صحت کی دیکھ بھال کے امور کے کچھ تجزیہ کاروں نے کہا تھا کہ تنہا اتنی بڑی ذمہ داری کو دیکھتے ہوئے اتنی زیادہ تنخواہ بھی ناکافی ہے۔
لیکن سکبدوش ہونے والے ڈاکٹر لوؤز نے کہا کہ اکیلے کام کرنے کے دوران انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور اس سے ان کی طبی مہارت میں اضافہ ہوا۔
لوؤز بتاتے ہیں کہ یہا ں قیام کے دوران ”میں نے دودھ دوہنا سیکھنے کا بچپن کا اپنا خواب بھی پورا کیا۔“
لوؤز کا کہنا تھا کہ پیسہ تو کافی زیادہ ہے لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہاں جو چیزیں ہمیں ملتی ہیں، وہ شہر میں نہیں ملتی۔
ڈاکٹروں کو لبھانے کی کوشش
جولیا کریک آسٹریلیا کا ایک دور دراز اور نسبتا غیر آباد علاقہ ہے۔ لیکن یہ کافی خوبصورت ہے اور قدرتی ماحول کافی رومانوی ہے۔ یہاں کے وسیع اور کھلے علاقوں میں غروب آفتاب کا منظر ایک سحر انگیز ماحول پیش کرتا ہے۔ بچے مستی میں کھیلتے کودتے اور گھڑ سواری کرتے نظر آتے ہیں۔
سن 2024 کی ایک حکومتی رپورٹ کے مطابق، آسٹریلیا میں 2500 جنرل پریکٹیشنرز ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ دیہی علاقوں میں کمی سب سے زیادہ ہے اور اس میں اضافہ متوقع ہے۔
آسٹریلیا میں دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کو راغب کرنا کافی مشکل ہو گیا ہے کیونکہ دور دراز کے قصبوں سے شہروں کی دوری کافی ہے۔ آسٹریلیا دنیا کی سب سے کم گنجان آبادی والے ملکوں میں سے ایک ہے۔
جرمنی میں ڈاکٹروں کی کمی کیوں ہے؟
لوؤز کے مطابق ملازمت کے ابتدائی چھ ماہ میں ہی وہ یہاں کے دس میں سے نو لوگوں کو ان کے نام سے جانتے تھے۔ ”مجھے ایسا لگا گویا میں تقریبا ساٹھ سال پیچھے لوٹ گیا ہوں۔“
انہوں نے مزید کہا،”یہاں رہنے والا ہر شخص ایک دوسرے کو جانتا ہے۔“
لوؤز تاہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہاں قیام کی وجہ سے وہ اپنے رشتہ داروں سے ملنے جلنے سے محروم رہے۔ جولیا کریک میں اپنے دو سالہ معاہدے کے اختتام کے بعد مئی میں لوؤز اب اپنے شہر جاکر پریکٹس شروع کرنا چاہتے ہیں۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
قربانی کے بعد معیشت کا خزانہ
عیدالاضحی کا سماں ہو، گلی گلی، بستی بستی، قصبوں وشہروں میں قربانی کے لیے جانور ذبح کیے جا رہے ہوں، نوجوانوں کی ٹولیاں گوشت بنانے میں مصروف ہوں، سب کی نظریں گوشت پر ہی ہوتی ہیں۔
سات حصے ہوں تو ناپ تول سے کام چلایا جاتا ہو، بکرا یا دنبہ ہو تو ادھر کھال ادھیڑی دیگر فضلہ نکال باہرکیا اور سالم بکرا فریزر کی نذر ہوکر رہ گیا۔ لیکن کھال کے علاوہ دیگر اشیا بھی ہوتی ہیں جیسے ہڈیاں، سینگ، اوجھڑی، خون اور چربی۔ بس ایک فکر لاحق ہوتی ہے کہ کسی طرح ان آلائشوں کو ٹھکانے لگایا جائے لیکن راقم کو یہی فکر ستائے جاتی ہے کہ جسے گند سمجھ کر آلائش سمجھ کر بے کار سمجھ کر پھینکا جا رہا ہے جہاں وہ گلتا سڑتا رہتا ہے تعفن، بدبو اور بیماریوں کا سبب بن جاتا ہے، اس کو مکمل طور پر استعمال میں لا کر ایک بڑی صنعت کھڑی کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ اس فالتو میٹریل سمجھے جانے والے کوڑا کرکٹ کا 15 فی صد حصہ ہی پاکستان میں استعمال ہو رہا ہے۔
قربانی محض عبادت نہیں ہے یہ معیشت کی شہ رگ بن سکتی ہے اور وفاقی حکومت کو چھوڑ دیں صوبائی حکومت کو چھوڑ دیں، مقامی انتظامیہ، بلدیہ، ان کے سربراہان اس پر وہ نگاہ ڈالیں جس سے روزگارکی شاخیں نکلتی ہوں، صنعتی برآمدات کی جھلک ہو۔ بس اب اپنی سوچ کا زاویہ بدل لیں، جب میونسپلٹی کو ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے کہ ان فضلات کو ٹھکانے لگایا جائے۔
آئیے! میں آپ کو بتاتا ہوں کہ برازیل، ہالینڈ، چین کس طرح سے جب جانور کو ٹھکانے لگاتے ہیں تو صرف گوشت اور کھال نہیں حاصل کرتے بلکہ وہ ان جانوروں سے حاصل کردہ آلائشوں سے کس طرح مصنوعات تیار کرتے ہیں۔ مثلاً برازیل جیلاٹن، بائیوڈیزل اور بلیوں کی خوراک تیار کرنے میں بازی لے گیا۔ کہتے ہیں کہ سوا ارب ڈالر سے زائد کی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔
ہالینڈ ویلیو ایڈڈ لیدر، اور پرفیوم تیار کرکے تقریباً ایک ارب ڈالر کما لیتا ہے، چین مکمل آلائش کو ری سائیکلنگ کر لیتا ہے اور ویٹرنری پراڈکٹس تیار کرکے ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر سمیٹ لیتا ہے اور پاکستان میں صرف 2 سے ڈھائی کروڑ ڈالر اس میں بھی زیادہ رقم کھال بیچ کر کچھ چربی اور ہڈیوں سے انکم ہوتی ہے۔ حالانکہ اس ملک میں 80 لاکھ سے زائد جانوروں کی قربانی سے ہر چھوٹے بڑے شہر میں آلائشوں کے پہاڑ کھڑے کر لیے جاتے ہیں۔
حل یہ ہونا چاہیے کہ قربانی کے ویسٹ کے لیے ہر یونین کونسل کی سطح پر ہر گاؤں کی سطح پر کلیکشن پوائنٹ بنائے جائیں، پھر ہر شہر ضلع میں ایسے صنعتی یونٹ ہوں جوکہ ان آلائشوں سے صابن، کھاد، جیلاٹن اور بلیوں کے لیے خوراک بنا کر ایکسپورٹرز کے حوالے کریں۔ وہ برآمد کرکے اس کی رقم یونین کونسل کو جمع کرائے جس سے علاقے میں ترقیاتی کام مکمل کرائے جائیں۔ پورے پاکستان میں آگاہی مہم چلائی جائے کہ یہ قربانی کا کچرا نہیں جسے گٹر میں پھینک دیا جائے، زمین میں دبا دیا جائے بلکہ یہ تو ملکی معیشت کا خزانہ ہے۔
اگرچہ پاکستان میں ہڈیوں سے محدود پیمانے پر جیلاٹن بنایا جاتا ہے جب کہ 90 فی صد جیلاٹن ہم اب بھی مختلف ملکوں سے درآمد کر لیتے ہیں۔ پنجاب میں ایسے چھوٹے کارخانے دیکھے گئے ہیں جہاں ہڈی چربی خون اوجھڑی کو پروسیس کرکے پالتو جانوروں کی خوراک بناتے ہیں۔ صابن گلو اور کھاد بھی بنا لیا جاتا ہے لیکن غیر معیاری کام ہوتا ہے۔ برآمدات کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ چربی سے کچھ اشیا تیار ہوتی ہیں لیکن انتہائی محدود پیمانے پر۔ حالانکہ 80 لاکھ سے زائد جانوروں سے گوشت علیحدہ کر لیں۔
لاکھوں کھالوں کو ٹک لگ جانے کے باعث قیمت انتہائی کم رہ جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 30 سے 35 ہزار ٹن چربی حاصل ہوتی ہے۔ 50 ہزار ٹن سے زائد ہڈی حاصل ہوتی ہے۔ اوجھڑی 30 ہزار ٹن اور خون 10 سے 12 ہزار ٹن حاصل ہوتا ہے۔ یہ اعداد و شمار صحیح ہیں یا غلط اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس کا 15 سے 20 فی صد ہی استعمال ہوتا ہے باقی دفن یا کسی کھلے علاقے میں لے جا کر ڈھیر لگا دیتے ہیں۔
اب آپ دیکھیں ہر جانورکی کھال قربانی کا خاموش تحفے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ زیادہ تر کھالیں ہم ایکسپورٹ کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں مزید لیدر انڈسٹری لگائیں،کیونکہ یہ کھالیں اور دیگر ملکوں کی کھالوں میں مقابلہ نہیں۔ پاکستان خود ان سے اگرچہ کم مقدار میں لیدر جیکٹس، جوتے، بیگز وغیرہ بناتا ہے۔ تشہیرکرے اور عالمی سطح پر دعویٰ کرے کہ قربانی کی کھالوں سے تیار کردہ جیکٹس ہوں یا جوتے کوئی بیماری نہیں لگے گی۔
میں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو شوگر کا مریض جسے ڈاکٹرز ڈراتے رہتے ہیں کہ اپنے پیروں کی حفاظت کرو وہ شخص قربانی کی کھالوں سے تیار کردہ جوتے پہنے وہ پاؤں کی بیماریوں سے محفوظ رہے گا اور چربی جس سے صابن، لپ اسٹک، شیمپو بنایا جاتا ہے، شیمپو سے یاد آیا کہ اکثر بالوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ شیمپو بدلو۔ ارے بھائی، شیمپو نہیں بدلو بلکہ قربانی کے جانور کی چربی سے تیار کردہ شیمپو لگاؤ،کبھی بدلنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
اوجھڑی اور آنتوں سے انتہائی کم مقدار میں سرجیکل دھاگہ بنایا جاتا ہے اور مشرق وسطیٰ اور یورپ برآمد کیا جاتا ہے اور تقریباً ایک کروڑ ڈالرز کما لیتے ہیں۔ یہ 50 سے 60 کروڑ ڈالر تک باآسانی لے جا سکتے ہیں بشرطیکہ اوجھڑی وغیرہ کو گندگی کے ڈھیر میں نہ بدل دیا جائے۔ سینگ اور کھر سے کئی اشیا بنائی جاتی ہیں جن میں بٹن، ہینڈی کرافٹ وغیرہ وغیرہ ہیں اور آمدن صرف 20 سے 30 لاکھ ڈالر۔ بھئی یہ 30 سے 40 کروڑ ڈالرز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ گلی گلی میں گائے، بکرے کے سینگ پھینک دیے جاتے ہیں۔
قصہ مختصر روزگار کے ہزاروں مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ برآمدات 3 سے 4 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس جانب توجہ دینا ہوگی، قربانی کے بعد معیشت کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔