عیدالفطر کا آج دوسرا روز، خوب ہوں گے کھابے اور سیر سپاٹے
اشاعت کی تاریخ: 1st, April 2025 GMT
سٹی42؛ میٹھی عید کے دوسرے دن کو بھی شہریوں نے بھرپور طریقے سے منانے کا پلان بنا لیا، کہیں سیر سپاٹے تو کہیں دعوتوں کے دوران ہلے گلے کا پروگرام ہے۔
کل کے میزبان آج کے بنیں گے مہمان، گھروں میں لذیذ پکوان بنیں گے، مزے مزے کی ڈشوں سے مہمانوں کی تواضع ہوگی۔
عیدالفطر کے پہلے روز بھی بچوں نے خوب سیر سپاٹے کئے، آج بھی موج مستی کریں گے، پارکوں میں بھی جھولوں سے لطف اندوز ہوں گے۔
کرشمہ کیور کو لولو اور کرینہ کو بیبو کیوں کہتے ہیں؛ لولو نے خوبصورت وجہ خود بتادی
عید ہے تو دوستوں کے ساتھ پارٹی تو بنتی ہے، نوجوان مل جل کر فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس کا رخ کریں گے اور گپ شپ لڑا کر من ہلکا کریں گے، شام کو سینما گھروں کا ٹائم سیٹ بھی کر لیا ہے۔
خواتین کا بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ گھومنے کا پروگرام ہے، بڑے بزرگ بھی اپنی منڈلیاں لگائے بیٹھے ہیں اور اپنی دلچسپیوں میں مگن ہیں۔
دوسری جانب لاہور میں عید کے دوسرے روز شہریوں نے ناشتے کے لئے دکانوں کا رخ کر لیا، کوئی فیملی کو ساتھ لایا تو کوئی دوستوں کے ہمراہ آیا، مزیدار بونگ پائے، چنے کوفتہ اور حلوہ پوری سے لطف اندوز ہوتے شہری کہتے ہیں تہوار کا مزہ تو اب آیا ہے۔
میگا ارتھ کوئیک؛ تین لاکھ اموات، معیشت کی بربادی؛ جاپانیوں کو انتظار کیوں ہے
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: سٹی42
پڑھیں:
اک چادر میلی سی
آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ آخر پسند کی شادی میں بے غیرتی کہاں آ جاتی ہے؟
بیٹی نے اگر اپنی مرضی سے کسی کو چن لیا، تو قیامت کیوں ٹوٹ پڑتی ہے؟
غیرت کے علمبرداروں کو تب تو کچھ محسوس نہیں ہوتا جب اپنی بیٹی کو ڈھول تاشوں کے ساتھ ایک اجنبی کے حوالے کر دیتے ہیں، ایسے مرد کے بستر پر پھینک دیتے ہیں جسے اُس نے نہ کبھی دیکھا، نہ جانا، نہ سمجھا ہوتا ہے ـ ہاں البتہ یہ بڑے فخر کی بات سمجھی جاتی ہے کہ بچی نے بنا چوں چراں، بنا سوال کیے اپنی زندگی کے سب سے اہم اور بڑے فیصلے پر خاندان کی مرضی کے آگے سر جھکا دیا۔
اور یہی بیٹی کی قربانی خاندان کی عزت کہلاتی ہے۔
قبائلی اور جاگیردارانہ معاشروں میں عورت
ایک نجی ملکیت سمجھی جاتی ہے،
کبھی باپ کی، کبھی شوہر کی، کبھی بھائی کی، اور کبھی بیٹے کی …..
عزت کا استعارہ،
غیرت کا بہانہ ـ
عورت …اس معاشرے میں انسان کہاں سمجھی جاتی ہے؟
اس کی سوچ؟
اس کی رضا؟
اس کی پسند، ناپسند؟
یہ تمام الفاظ تو اس کے مقدر میں لکھے ہی نہیں گئےـ
وہ تو بس ایک چیز ہے، جیسے کرسی، میز
جیسے بکری،
جیسے بھینس،
جیسے کھیت کا کوئی زرخیز ٹکڑا،
جسے وقت آنے پر بیچ دیا جائے،
یا دشمنی کے بدلے میں دے دیا جائے،
یا کسی رشتے کی سیج پر رکھ کر اپنی غیرت یا عزت بچانے کا ہتھیار بنا دیا جائے !
کیا کسی نے پوچھا
وہ کیا چاہتی ہے؟
کیا اس کے کوئی خواب ہیں؟
نیلے پیلے اودے….ست رنگی ……رنگ برنگے ـ لیکن …
بھلا ایک عورت کیسے خواب دیکھ سکتی ہے
جس کی گواہی بھی آدھی تسلیم کی جائے وہ کیونکر ایک مکمل انسان ہو سکتی ہے ـ
وہ تو اپنی قسمت کا نوحہ پڑھتی ایک مخلوق ہے
ایک جسم کا لوتھڑا ہے
جو جینے کے لیے نہیں
صرف حکم ماننے اور نبھانے کے لیے ہے ـ
کیا بانو اس معاشرے کی پہلی عورت تھی؟
جو اپنی زندگی کی قیمت
کسی عدالت میں نہیں
بلکہ مقتل میں ادا کر آئی ـ
کسی نے کہا کہ ’قبائل میں اگر کوئی عورت یا مرد ایسی حرکت کریں تو جرگے کو ایسا فیصلہ دینا لازمی ہوتا ہے تاکہ آئندہ کوئی لڑکی ایسا قدم اٹھانے سے پہلے 10 بار سوچے‘ گویا عورت کی عزت کا تحفظ قتل سے مشروط ہے، اور عورت کی ’بھٹکی ہوئی راہ‘ کا حل تعلیم، شعور، یا برابری کے حق میں نہیں بلکہ اس کی جان لینے میں پوشیدہ ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ قبائلی غیرت کے نظام میں عورت کو کیا کبھی انسان سمجھا گیا ہے؟ اگر اسے اپنی مرضی سے جینے کا اختیار ہو، تو جرگہ کیونکر بیٹھے؟ اگر بیٹی کو تعلیم کے ساتھ اعتماد ، اپنی پسند سے جینے کا حق دیا جائے ، اسے اپنی مرضی کا ہم سفر چننے کی اجازت ہو، اگر اسے کم عمری میں بیاہنے سے گریز کیا جائے، اگر اسے یہ سکھایا جائے کہ اس کی زندگی کا فیصلہ وہ خود کر سکتی ہے، اور اگر شادی ناکام بھی ہو جائے تو ماں باپ کا دروازہ اس کے لیے ہمیشہ کھلا ہو، تو پھر نہ کوئی بھاگے گی، نہ کسی کو مارنے کے جواز تراشے جائیں گے۔
پہلے بانو کے بہیمانہ قتل کی ویڈیو جنگل میں آگ کی طرح پھیلی ـ ہاہا کار مچ گئی ـ کسی نے اسکی شان میں قصیدے پڑھے تو کسی نے نوحہ۔
اگلے ہی روز وزیراعلیٰ صاحب پریس کانفرنس کرنے آئے اور کیس کو زنا بالرضا کا ڈنکا بجا کر قتل کا بالواسطہ جواز مہیا کر گئے ـ
اس کے بعد جو الزامات کی بوچھاڑ ہوئی، کردار پر کیچڑ اچھالا گیا، اور آخرکار اس کے قتل کو بھی کچھ لوگوں نے ’عبرت کا سامان‘ قرار دے دیا۔
بات یہیں تک نہ رہی بلکہ تیسرے روز بانو کی والدہ نے بَبانگ دُہل اپنی بیٹی کے ہی قصور وار ہونے کا اعلان کردیا جِس سے شکوک و شبہات مزید بڑھ گئے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے ـ
مان لیں کہ وہ غلط تھی …. مجرم بھی تھی …. تو گویا ماورائے عدالت قتل جائز قرار دے دیا جائے؟ ایک قبیلے کا سردار کیا خدا بن بیٹھا ہے جو کسی کی بھی جان لینے کا حکم صادر کر سکتا ہے؟
اگر ہے …. تو پھر تالے لگادیں قانون کے تمام اداروں کو، اور پھر چلنے دیں ملک میں جنگل کا قانون۔
چلیں بانو کے کیس میں تو ’آئیں بائیں شائیں‘، ’اگر مگر‘ شامل ہو گیا ہے ـ لیکن کیا یہ عورت کے ساتھ تشدد کی واحد کہانی ہے؟
کراچی کے علاقے لیاری کی 19 سالہ شانتی کی مثال لیجیے۔
شانتی نے محبت میں خاندان کا نام رسوا نہیں کیا تھا۔ وہ چپ چاپ گھر سے بھاگ کر کسی غیر مرد سے شادی کرنے نہیں گئی تھی۔ اس نے اپنے گھر والوں کی رضا سے، رسم و رواج نبھاتے ہوئے اشوک کے ساتھ 7 پھیرے لیے۔ وہ تمام مراحل طے کیے جو ایک ’مہذب‘ شادی کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن پھر شادی کے تیسرے دن ہی اشوک ’اس کے اپنے شوہر‘ نے اس کے جسم کو کیوں دوزخ بنا دیا؟
وہ تو ایک بیوی تھی،
جسے شوہر نے انسان نہیں
اپنی ملکیت سمجھا ـ
جسے مارنا، پیٹنا، نوچنا، روندنا اُس کا حق تھا۔
وہی ظلم جو دہلی کی بس میں ہوا، وہی اذیتیں، وہی زخم، وہی چیخیں ـ فرق صرف اتنا تھا کہ دہلی کی بس میں وہ 6 ریپسٹ غیر مرد تھے، اور یہاں شانتی کا ریپسٹ اس کا اپنا شوہر تھا۔
دلی بس ریپ والا واقعہ اور اشوک نے جو شانتی کے ساتھ کیا وہ ہوبہو ایک جیسا تھاـ
وہی راڈ تھی،
وہی سفاکیت تھیـ
انتڑیاں تھیں،
خون تھا،
اور عورت کی زندہ لاش تھی،
کہانی ختم ۔
جان بھی گئی اور شان بھی گئی۔
چلیے شانتی تو ہندو مذہب کی ایک کمتر لڑکی تھی غریب ـ چمار … اس کے مر جانے سے کون سے ہمارے مسلم ملک میں کوئی فرق پڑ جائے گا ـ
لیکن کورنگی کی عائشہ نور کا کیا قصور تھا، جو 2 بچیوں کی ماں تھی۔ نہ جانے کس بات پر اس کے شوہر کو غصہ آیا شاید صرف اس لیے کہ وہ اس کے سامنے جواب دینے کی جرأت کر بیٹھی، یا آواز بلند ہو گئی۔ پہلے تو شوہر نے بے رحمی سے مارا پیٹا، جیسے وہ کوئی انسان نہیں، ایک چیز ہو۔ پھر جب وہ جان بچانے کے لیے بھاگی تو شوہر نے اپنے باپ اور بھائی کے ساتھ مل کر اس کے منہ میں تیزاب انڈیل دیا۔ جلتا ہوا جسم، جھلستی چیخیں، لڑکھڑاتی سانسیں….
عائشہ بھی عورت تھی، اور عورت ملکیت ہوتی ہے۔
ایک اور کہانی ختم ہوئی۔
جھنگ کی کنزی، زرعی یونیورسٹی راولپنڈی کی طالبہ، تعلیم کے خواب آنکھوں میں سجائے، ایک روشن کل کی امید لیے جینے والی کنزی، اپنے عم زاد ادریس کے ہاتھوں برباد ہو گئی۔ پہلے اس نے کنزی کا ریپ کیا، پھر زہر دے کر اسے مار ڈالا۔ ….وجہ؟ رشتے سے انکار….گویا عورت کا انکار بھی موت کا پروانہ ہے۔
ویہاڑی کی نائلہ کی کہانی بھی لرزہ خیز ہے۔ محض کھانے میں دیر ہو جانے پر اس کے بھائی نے غصے میں چھری اٹھائی، ایک بہن کو موقعے پر ہلاک کیا، دوسری کو شدید زخمی کر دیا۔ کیونکہ گھر میں عورت مرد کی ملکیت ہوتی ہے۔
اب قانون حرکت میں آئے، عدالتیں لگیں ، کیس چلے، دیت ہو جائے، معافی نامہ ہو یا سزا مل جائے ـ جان تو گئی … سج دھج سے گئی یا خوف سے … کیا فرق پڑتا ہےـ
یہ واقعات انفرادی نہیں، یہ ایک اجتماعی المیہ ہیں۔
مقامی این جی او ساحل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اس سال جنوری تا جون تک خواتین پر تشدد، ریپ اور قتل کے 3958 کیسز رجسٹرڈ ہوئے جو کہ پچھلے سال 1732 تھےـ ان میں 80% پنجاب، 13% سندھ اور بقیہ کیسز بلوچستان، کے پی، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے ہیں ـ لیکن یہ پوری سچائی نہیں کیونکہ حالات اسے کہیں زیادہ بدتر ہیں ـ
دس دنوں میں، ملک کے مختلف حصوں میں، سینکڑوں عورتیں قتل ہو گئیں۔ سب کی کہانیاں الگ الگ دکھ سے بھری ہیں لیکن سچ ایک ہے : عورت کو مارنے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ وہ عورت ہے ـ
چونکہ وہ ایک ملکیت ہے، ایک شے…..جسے خریدنا، بیچنا، قابو رکھنا اور بوقتِ ضرورت ختم کرنا مرد کا پیدائشی حق مان لیا گیا ہے۔ اور جب تک اس سوچ کی بنیادیں نہیں ہلائی جاتیں، جب تک ریاست اس ظلم کے خلاف تن کر نہیں کھڑی ہوتی تب تک عورت قتل ہوتی رہے گی نام بدل بدل کر …… اور ہم صرف ان کے نام یاد رکھیں گے، ان کے زخم نہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔
بلوچستان دہرا قتل عورت کا قصور عورت ہونا قاتل بھائی قاتل شوہر کراچی کی شانتی