ٹرمپ ٹیرف اسٹاک مارکیٹ لے بیٹھا، کملا ہیرس کی پیشگوئی سچ ثابت
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
امریکا کے کے 180عالمی تجارتی شراکت داروں پر محصولات لاگو ہونے کے بعد جمعرات کو کھلتے ہی امریکی اسٹاک مارکیٹیں مندی کا شکار ہوگئیں۔
یہ بھی پڑھیں : ٹرمپ کا نیا ٹیرف،کسی کا فائدہ نہیں ہوگا، اٹلی اور میکسیکو
بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق ڈاؤ جونز انڈسٹریل ایوریج صبح 11 بجے ای ڈی ٹی پر 1,552 پوائنٹس یا 3.68 فیصد نیچے تھا،جبکہ S&P 500 میں 4.
ICE امریکی ڈالر انڈیکس 3 اکتوبر سے 102 سے اوپر رہنے کے بعد جمعرات کی صبح تک 2.2 فیصد کم ہو کر 101.41 پر آ گیا۔
S&P 500 سے جمعرات کو ٹریڈنگ کے آغاز میں تقریباً 1.7 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا جو کہ بلومبرگ کے مطابق 2 سالوں میں بدترین کمی ہے۔
بروکریج فرم موومو میں حکمت عملی کے شمالی امریکا کے نائب صدر جسٹن زیکس نے بتایا کہ میکسیکو اور کینیڈا کے لیے چھوٹ کے باوجود مجموعی ٹیرف تاجروں کی توقع سے زیادہ خراب ہیں۔
مزید پڑھیے: ٹرمپ ٹیرف، بٹ کوائن سمیت دیگر کرنسیز کی قیمت میں کمی کیوں ہورہی ہے؟
انہوں نے کہا کہ خبروں کے رد عمل میں اسٹاک کم ٹریڈ کر رہے ہیں، بہت سی بڑی ٹیک کمپنیوں کے ساتھ ساتھ صارفین کے اسٹاک جیسے کہ خوردہ فروش، ایئر لائنز، ملبوسات بنانے والے اور کروز لائنز نمایاں طور پر نیچے ہیں۔
سینکچوری ویلتھ کی چیف انویسٹمنٹ اسٹریٹجسٹ میری این بارٹلز نے کہا کہ یہ ٹیرف کے لیے بدترین صورت حال تھی اور مارکیٹوں میں اس کی قیمت نہیں لگائی گئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ ہم اس طرح کا رد عمل دیکھ رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کا درآمدات پر جوابی ٹیرف کا اعلان! پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے؟
سنہ2024 کی صدارتی مہم کے دوران ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس نے خبردار کیا تھا کہ بلند ٹیرف استعمال کرنے کا ٹرمپ کا اقتصادی منصوبہ معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔
اکتوبر 2024 میں اقتصادیات میں تقریباً 2 درجن نوبل انعام جیتنے والوں نے بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے محصولات افراط زر کا باعث ہوں گے اور وفاقی خسارے کو بڑھا دیں گے۔
یہ بھی پڑھیے: امریکی صدر ٹرمپ کا درآمدات پر ٹیرف کا اعلان، پاکستان پر 29 فیصد ٹیرف عائد
ایک کھلے خط میں ان ماہرین اقتصادیات کا کہنا تھا کہ مہم کے دوران کملا ہیریس نے جس منصوبے کی وکالت کی تھی اس کا نتیجہ ایک مضبوط معاشی کارکردگی کا باعث بنے گا جس میں اقتصادی ترقی زیادہ مضبوط، زیادہ پائیدار اور زیادہ منصفانہ ہو گی۔
مارچ میں ماہرین اقتصادیات نے کہا تھا کہ دوسرے ممالک کی طرف سے محصولات اور محصولات کی جوابی کارروائی سے امریکی صارفین کے لیے قیمتیں بڑھیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملازمتوں میں کمی واقع ہوگی اور کاروبار سست ہوگا۔
جمعرات کو مارکیٹ کے رد عمل نے اقتصادی ماہرین کی جانب سے ٹیرف کی صورت میں ہونے والے معاشی نقصان کی پیش گوئی سچ ثابت کردکھائی۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ ٹیرف، بٹ کوائن سمیت دیگر کرنسیز کی قیمت میں کمی کیوں ہورہی ہے؟
چیلنجر، گرے اور کرسمس کی جمعرات کی رپورٹ کے مطابق ٹیرف کی وجہ سے ہونے والا معاشی نقصان سبنہ 2020 کے وبائی امراض کے وقت پہنچنے والے نقصان سے زیادہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا کی اسٹاک مارکیٹ امریکی محصولات امریکی محصولات کے منفی اثراتذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا کی اسٹاک مارکیٹ امریکی محصولات ٹرمپ کا کے لیے تھا کہ
پڑھیں:
غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ
غزہ جنگ بندی معاہدے کے بعد جہاں ایک طرف غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مسلسل معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے، وہاں ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امریکی اور اسرائیلی دلال، فلسطینی عوام اور فلسطین کی مزاحمت یعنی حماس کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ مسلسل حماس کو دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ہتھیانے سمیت متعدد خلاف ورزیوں پرکسی قسم کا کوئی رد عمل نہیں دیا جا رہا ہے۔
دنیا کے بعض صحافیوں اور دانشوروں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ یہ تاثر پیدا کریں کہ معاہدے کی خلاف ورزی حماس کی طرف سے ہوئی تو پھر حالات کی ذمے داری حماس اور فلسطینیوں پر آن پڑے گی لیکن یہ سارے لوگ اسرائیل کی خلاف ورزیوں کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
یہ رویہ خود اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ان کو کسی خاص مقصد کے لیے اس کام پر لگایا گیا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین کو کمزورکیا جائے اور اسے فراموش کرنے کے لیے جو ممکن ہتھکنڈے استعمال ہو سکتے ہیں، وہ کیے جائیں۔
حال ہی میں ٹائمز آف اسرائیل نامی اخبار نے یہ خبر شایع کی ہے کہ غزہ میں امن فوج کے نام پر انڈونیشیا، آذربائیجان اور ترکیہ کی افواج کو بھیجا جا رہا ہے۔ تشویش، اس لیے بھی پائی جا رہی ہے کیونکہ ایک تو امن معاہدے کی سرپرستی امریکی صدر ٹرمپ کر رہے ہیں۔
جن پر دنیا کے عوام بالکل بھی اعتماد نہیں کرتے اور انھوں نے آج تک غزہ میں نسل کشی کے ذریعے قتل ہونے والے ستر ہزار فلسطینیوں کے قتل پر اسرائیل کی مذمت تک نہیں کی ہے، لٰہذا اب ٹرمپ کی خواہشات کے مطابق مسلم ممالک کی افواج کو غزہ میں تعینات کرنے کے اعلان پر دنیا بھر کے عوام کو اس لیے تشویش ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ مسلمان افواج کو حماس اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے لیے مسلمان افواج کی خدمت لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اگر یہ خدشات درست ہیں تو یقینا اس سے بڑی پریشانی مسلمانوں کے لیے اور کچھ نہیں ہو سکتی ہے۔اگر تاریخی اعتبار سے بھی اس معاملے پر غورکیا جائے تو ہم جانتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ سے فلسطین کے مکمل کنٹرول اور مزاحمتی قوتوں کی سرکوبی پر مرکوز رہی ہے۔
ٹرمپ کے سابقہ دورِحکومت صدی کی ڈیل یعنی Deal of the Century کے نام پر فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، تاہم ٹرمپ ناکام رہے۔ اسی طرح سابقہ دور میں ہی ٹرمپ نے یروشلم (القدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امتِ مسلمہ کے دل پر وارکیا تھا، لیکن پوری دنیا میں اس عمل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اسی تسلسل میں اگر ٹرمپ یا اس کے حمایتی حلقے مسلمان ممالک کی افواج کو امن یا نگرانی کے نام پر غزہ بھیجنے کا حکم دیں، تو اس کا مقصد مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح اور فلسطینی عزم کو توڑنا ہوگا۔ ماضی میں بھی عراق، افغانستان، شام اور لیبیا میں اتحادی افواج کے نام پر مسلمان ممالک کے فوجی استعمال کیے گئے جس کے نتیجے میں استعماری ایجنڈے کو تقویت ملی۔
لہٰذا امریکی صدرکے عزائم کو سمجھتے ہوئے مسلم دنیا کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی ایسا فیصلہ نہ کریں جس کے سبب نہ صرف فلسطین کاز کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ مسلمانوں کی باہمی وحدت اور یکجہتی بھی متاثر ہوتی ہو۔
امریکی حکومت کا یہی ایجنڈا ہے کہ وہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتی ہے۔کسی غیر مسلم یا استعماری قوت کے سیاسی ایجنڈے کے مطابق مسلمان افواج کا استعمال اسلامی وقار کے بھی منافی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ علماء اور مفتیان کرام اس عنوان سے کیا ارشاد فرمائیں گے؟
کیونکہ ترکیہ سمیت آذربائیجان اور انڈونیشیا تو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ہیں، لٰہذا ان سے امید کم ہی نظر آتی ہے لیکن دیگر مسلم ممالک کو کیوں اس دلدل میں گھسیٹا جا رہا ہے؟ اگر مقصد فلسطینی عوام کی تحفظ و حمایت کے بجائے امریکی پالیسیوں کی تکمیل ہے، تو یہ عمل غلامی کے مترادف ہے، اگر مسلمان افواج کو غزہ اس نیت سے بھیجا جائے کہ وہ حماس یا فلسطینی مزاحمت کو کمزورکریں، تو یہ امتِ مسلمہ کی اخلاقی شکست ہوگی۔
ایسے فیصلے اسلام کے سیاسی استقلال، جہادی فلسفے اور امتِ واحدہ کے اصول کی نفی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان افواج کا مقصد طاغوت کے حکم پر مظلوموں کو دبانا ہے یا ظالموں کو روکنا؟خلاصہ یہ ہے کہ دو سال تک غزہ میں مسلسل نسل کشی کی جاتی رہی لیکن مسلم و عرب دنیا کی افواج خاموش تماشائی بنی رہیں اور اب امریکی صدر ٹرمپ کے احکامات کو بجا لانے کے لیے غزہ میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کی افواج کی تعیناتی کی بات کی جا رہی ہے اور جس کا مقصد بھی اسرائیلی غاصب افواج سے لڑنا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اسرائیلی اور امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر مسلمان حکمران اپنے عوام کے احساسات اور فلسطین کی حمایت کے بجائے امریکی دباؤ پر فیصلے کریں، تو یہ سیاسی غلامی کی علامت ہے، اگرکسی بھی فوجی اقدام میں سیاسی وفاداری کا مرکز واشنگٹن ہے، تو یہ امت کے لیے ذلت کا باعث ہے۔
امت کے علما، دانشوروں اور عوام کو ایسے’’ فریبِ امن‘‘ منصوبوں کو علمی و عوامی سطح پر بے نقاب کرنا چاہیے۔اگر واقعی مسلمان ممالک غزہ کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پھر حقیقی مدد تب ہے جب مسلمان ممالک فلسطین کو اسلحہ، سفارتی حمایت، انسانی امداد اور سیاسی پشت پناہی فراہم کریں نہ کہ ان کے خلاف امن فوج کے نام پر جائیں۔
سعادت اُس میں ہے کہ مسلمان طاغوت کے سامنے جھکنے کے بجائے ظلم کے نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، یہی قرآن کا پیغام، یہی محمد ﷺ کی سنت اور یہی فلسطین کی مزاحمت کا سبق ہے۔