دہشت گردی، کثیر الجہت چیلنجز
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دہشت گرد افغانستان سے آپریٹ کررہے ہیں، افغانستان دہشت گردوں کو لگام ڈالے، لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ پاکستانی عوام، افواج، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ دوسری جانب آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی کانگریس کے وفد سے ملاقات میں دونوں جانب سے باہمی احترام، مشترکہ اقدار اور اسٹرٹیجک مفادات کی اہمیت پر زور دیا گیا جب کہ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی اور دنیا کے درمیان دیوار کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانے افغانستان میں موجود ہیں، ان کے ہینڈلرز افغانستان میں ہیں اور اس درندہ صفت گروہ کو طالبان حکومت کی طرف سے آراستہ رہائش گاہیں، گاڑیاں اور امریکی چھوڑا گیا جدید وبھاری اسلحہ مہیا کیا جاتا ہے۔ مالی معاونت بھارت فراہم کرتا ہے اور واردات کی منصوبہ بندی بھی کی جاتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر خصوصاً بلوچستان اور کے پی کے میں ان درندوں کے سہولت کار بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کی صورت میں موجود ہیں۔
صدر ٹرمپ افغانستان سے اپنے چھوڑے گئے ہتھیار اور جنگی سازو سامان واپس لینے کا اعلان بھی کر چکے ہیں کیونکہ یہ غیر ملکی ہتھیار پاکستان کے اندر دہشت گردی پھیلانے میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔ آج پاکستان کو ماضی کی نسبت زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ پاکستان کا محل وقوع اسے زبردست دفاعی اہمیت دیتا ہے اور پوری دنیا اس کو اپنے ساتھ ملانا چاہتی تھی۔ بدقسمتی سے اب وہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان ایک خطرناک محل وقوع میں گھرا ہوا ہے۔ سوائے اس کے آزمودہ دوست چین کے، باقی تمام ہمسائے اس کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔
پاکستان اس وقت دو اطراف سے دہشت گرد حملوں کی زد میں ہے۔ ایک جانب تو تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر یہ حملے کر رہی ہے۔ جس کی پناہ گاہیں، پاکستان کے بقول افغانستان کے اندر ہیں تو دوسری طرف بلوچستان میں علیحدگی پسند جنگجو کارروائیوں میں مصروف ہیں جن کا ہدف ماہرین کے مطابق پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور چین کے اشتراک سے چلنے والے منصوبوں کو نشانہ بنانا ہے۔اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو کیا کرنا چاہیے جو ماضی میں بھی ایسی صورت حال سے دوچار رہا ہے اور ماہرین کے نزدیک اس نے ملک کے اندر جڑ پکڑنے والی طالبان کی تحریک کو مرحلہ وار فوجی آپریشنز میں شدید دھچکا پہنچایا تھا، لیکن ایک بار پھر دہشت گردی پاکستان کے لیے چیلنج بن رہی ہے۔
اس قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے ریاست پاکستان نے مختلف اوقات میں مختلف نوعیت کی حکمت عملی اختیارکی ہے اور اس بار بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا۔ افغان طالبان کا خیال ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کے خلاف وہ کوئی کارروائی کرتے ہیں تو ان کے نچلی سطح کے لوگ خاص طور سے ان کے جو جنگجو ہیں، ان کی طرف سے رد عمل آئے گا۔ شاید اس لیے وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ پاکستان کے پاس یہی آپشن ہے کہ طالبان پر سفارتی دباؤ برقرار رکھے اور ظاہر ہے کہ اس حوالے سے طالبان پر ایک بین الاقوامی دباؤ بھی موجود ہے کہ طالبان اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغانستان ایک بار پھر دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے پائے۔
بلوچستان کے اندر بھی بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملوں میں شدت آ رہی ہے اورسمجھا جارہا ہے کہ یہ تنظیم اپنی کارروائیوں کے ذریعے نہ صرف سیکیورٹی فورسز کو بلکہ پاکستان اور چین کے اشتراک سے چلنے والے منصوبوں کو بھی اپنا اہم ہدف سمجھتی ہے۔ بلوچ عسکریت پسندوں کے بارے میں بھی پاکستان کا موقف رہا ہے کہ وہ کارروائیاں کرنے کے بعد سرحد پار چلے جاتے ہیں اور اکثر اوقات افغانستان یا ایران میں روپوش ہو جاتے ہیں۔یہ دہشت گرد جو افغانستان سے واپس آئے ہیں جارحانہ انداز میں ریاست پاکستان اور اس کے اداروں پر حملے کر رہے ہیں۔پاکستانی فورسز ان دہشت گردوں سے بخوبی نمٹ رہی ہے ، دوسری جانب گراس روٹ لیول پر بھی عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
چند روز قبل ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں پاکستان مخالف دہشت گرد گروہ کے مبینہ حملے میں آٹھ پاکستانی شہریوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ مقتولین کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولپور سے تھا۔ حملہ آوروں کی تعداد ایک درجن سے زائد بتائی گئی ہے جو واردات کے بعد فرار ہو گئے۔ ایران کا صوبہ سیستان و بلوچستان ماضی میں پاکستان مخالف گروہوں کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ اگرچہ ایران ان گروہوں کے خلاف کارروائیاں کرتا رہا ہے، مگر حالیہ واقعہ سرحدی سیکیورٹی تعاون پر سنجیدہ سوالات اٹھا رہا ہے۔دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ناگزیر ہے کہ پاکستان اور ایران مل کر اس مسئلے کو حل کریں ،دونوں فورسز کے باہمی رابطے،معلومات کی شیئرنگ اور مشترکہ کارروائیاں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔پاکستان کی وسیع پیمانے پر انسداد دہشت گردی کی مہارت نے اسے عالمی سلامتی کے مباحثوں میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر پیش کیا ہے۔
اس کی سیکیورٹی ایجنسیاں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہیں، جو پاکستان کو انسداد دہشت گردی تعاون میں قائدانہ کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ سفارتی کوششیں، جیسے کہ پاکستان، افغانستان امن عمل اور علاقائی استحکام کے اقدامات، اس کے دیرپا امن کے عزم کو مزید اجاگر کرتے ہیں۔ جیسا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنی طویل جدوجہد کے اثرات کا تجزیہ کر رہا ہے، اسے اپنی قربانیوں اور کامیابیوں دونوں پر غور کرنا ہوگا۔ قوم نے گہرے انسانی اور اقتصادی نقصانات برداشت کیے ہیں، سفارتی چیلنجز کا سامنا کیا ہے، اور عالمی سطح پر ایک مسخ شدہ بیانیے سے دوچار رہی ہے۔ پھر بھی، اس کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں نمایاں کمی، سیکیورٹی اداروں کی مضبوطی، اور اس کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کا بڑھتا ہوا اعتراف قابل ذکر کامیابیاں ہیں۔درحقیقت پاکستان اس وقت کثیر الجہت چیلنجز میں گھرا ہوا ہے۔
اب عملی اقدام کرنے کا حقیقی معنوں میں فیصلہ کرلیا گیا ہے، ترجیحات بھی متعین کرلی گئی ہیں، اب وفاق یکسو ہوگیا ہے کہ صوبوں کی مشاورت کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا، صوبوں میں کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ کی استعدادِ کار کو بڑھایا جائے گا، اور صوبوں کو وسائل دیے جائیں گے۔ پہلے مرحلے میں نیشنل انٹیلی جنس فیوژن اینڈ تھریٹ اسسمنٹ سینٹرز قائم کیے جائیں گے، فرنٹیئر کانسٹیبلری کی تنظیم نو کی جائے گی اور اسے ریزرو پولیس میں تبدیل کیا جائے گا، وزارتِ خارجہ افغان حکومت کے ساتھ روابط بڑھائے گی اور دہشت گردی کے مسئلے سے مؤثر طریقے سے نمٹا جائے گا۔ بلوچستان میں تشدد کے سلسلے کا تفصیل سے جائزہ لے کر اسے بند کرنے کی راہ اپنائی جائے گی، حق سے محروم لوگوں کو مزاحمت کاروں سے الگ کرنے کی حکمت عملی پر عمل کیا جائے گا، تاہم ان فیصلوں پر نتیجہ خیز عمل درآمد کے لیے ملک میں گزشتہ کئی سال سے جاری سیاسی انتشار اور محاذ آرائی پر قابو پانا بھی ناگزیر ہے۔
ان تمام مشکلات کے باوجود، پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف ثابت قدمی نے بین الاقوامی سطح پر جزوی طور پر پذیرائی حاصل کی ہے۔ حال ہی میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ہائی پروفائل دہشت گرد کی گرفتاری میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے تعاون کو عالمی سلامتی کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ اسی طرح، سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اعتراف کیا کہ سوویت افواج کو شکست دینے میں پاکستان کی مدد لینے کے بعد، امریکا نے اسے تنہا چھوڑ دیا، جس کے نتیجے میں شدت پسند گروہوں کو پنپنے کا موقع ملا اور خطے میں عدم استحکام پیدا ہوا۔دہشت گردی کے خلاف میدان جنگ میں، پاکستان نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس کی مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں بڑے دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے میں کامیاب رہی ہیں، جس کے نتیجے میں حملوں کی شدت اور تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔
فوجی آپریشنز، جیسے کہ ضربِ عضب اور ردالفساد، نے ان علاقوں میں امن بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا جو پہلے شدت پسندی کا مرکز تھے۔ پاکستانی عوام کی استقامت اور محافظوں کی قربانیوں نے ملک کو انتہا پسندی کے آگے جھکنے نہیں دیا۔مستقبل کے لیے، پاکستان کو اقتصادی بحالی، اسٹرٹیجک علاقائی سفارت کاری، اور فعال عالمی شمولیت کی طرف بڑھنا ہوگا۔ اس کی قربانیوں کو اقتصادی شراکت داری، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، اور بین الاقوامی فورمز میں منصفانہ سلوک کے ذریعے ٹھوس فوائد میں تبدیل ہونا چاہیے۔ صرف دانشمندانہ پالیسی سازی اور متوازن خارجہ پالیسی کے ذریعے ہی پاکستان یہ یقینی بنا سکتا ہے کہ اس کی استقامت دیرپا فوائد میں ڈھلے اور قوم ایک مستحکم اور خوشحال مستقبل کی طرف گامزن ہو۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی دہشت گردی کے میں پاکستان پاکستان کے پاکستان کی پاکستان کو کہ پاکستان جائے گا کے خلاف کے اندر کی طرف رہا ہے رہی ہے ہے اور اور اس
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات میں بہتری: کیا طورخم بارڈر سے تجارت پر اثر پڑے گا؟
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے، اور دونوں ممالک نے چین کے تعاون سے باہمی تجارت کو فروغ دینے اور سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے پر اتفاق کیا ہے۔ اس سفارتی پیشرفت کے بعد نہ صرف سیاسی تعلقات میں بہتری آئی ہے، بلکہ سرحدی تجارتی سرگرمیوں میں بھی واضح بہتری دیکھی جا رہی ہے۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور دیگر مال بردار گاڑیاں بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے افغانستان میں داخل ہو رہی ہیں، جبکہ پاکستانی حکام نے طورخم اور دیگر سرحدی گزرگاہوں پر سہولیات کی فراہمی کے لیے نئے اقدامات کیے ہیں۔
سفارتی کوششوں کے مثبت اثراتپاک افغان امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق، پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق خان کی کوششوں اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے حالیہ دورے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا بحال ہوئی ہے۔ ان سفارتی کوششوں میں چین نے بھی اہم کردار ادا کیا، جو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی روابط کو وسعت دینے میں معاونت کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: پاک افغان طورخم بارڈر سے تجارتی سرگرمیاں بحال
تینوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ تجارت کو وسعت دے کر وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی حاصل کی جائے، اور سی پیک روٹ کو افغانستان تک بڑھایا جائے۔
طورخم میں تجارت کا نیا منظرنامہخیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں واقع اہم گزرگاہ طورخم بارڈر پر تجارتی سرگرمیوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اب مال بردار گاڑیوں کی آمد و رفت میں حائل رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں اور ڈرائیوروں کو خصوصی اجازت نامے جاری کیے جا رہے ہیں، جس سے تجارت میں روانی پیدا ہوئی ہے۔
طورخم پر تعینات ایک افسر نے بتایا کہ حکومت پاکستان افغان تجارت کو سہل بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل نمائندہ خصوصی محمد صادق نے طورخم کا دورہ کیا اور افغان تاجروں سے ملاقات کر کے ان کے مسائل سنے، جس کے بعد واضح بہتری دیکھنے میں آئی۔
روزانہ 300 سے زائد گاڑیاں افغانستان میں داخلسرکاری اعداد و شمار کے مطابق حالیہ دنوں میں طورخم بارڈر سے روزانہ 300 سے زائد مال بردار گاڑیاں افغانستان میں داخل ہو رہی ہیں، جبکہ قریباً اتنی ہی تعداد میں گاڑیاں افغانستان سے واپس پاکستان آتی ہیں۔ ان میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنٹینرز، درآمدی مال اور خالی گاڑیاں شامل ہیں۔
مزید پڑھیں:25 دنوں سے بند پاک افغان طورخم بارڈر کھول دیا گیا، تجارتی سرگرمیاں بحال
گزشتہ روز کے ریکارڈ کے مطابق 369 گاڑیاں افغانستان میں داخل ہوئیں، جن میں 34 افغان ٹرانزٹ ٹریڈ، 288 درآمدات اور 13 دیگر اشیا شامل تھیں، جبکہ 164 خالی گاڑیاں افغانستان سے واپس آئیں۔ یہ اعداد و شمار تعلقات کی بہتری کے بعد تجارت میں واضح اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
کرم میں خرلاچی بارڈر دوبارہ کھول دیا گیادونوں ممالک کے درمیان رابطوں کو مزید آسان بنانے کے لیے حکومت پاکستان نے قبائلی ضلع کرم میں واقع خرلاچی بارڈر کو بھی تجارت کے لیے کھول دیا ہے۔ اس موقع پر ’پاک افغان دوستی اسپتال‘ کا بھی افتتاح کیا گیا، جس میں جدید طبی سہولیات بشمول لیبارٹری، فارمیسی، بلڈ پریشر، شوگر اور امراضِ قلب کی ابتدائی تشخیص کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ یہ اسپتال سرحدی علاقوں کے مکینوں اور افغان شہریوں کے لیے اہم طبی مرکز ثابت ہوگا۔
تجارت کو 3 گنا بڑھانے پر اتفاقافغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے حالیہ دنوں کابل میں چین کے خصوصی نمائندے یو شیاؤیونگ اور پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کے ہمراہ وفود سے ملاقات کی، جس میں سی پیک کو افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک تک توسیع دینے پر اتفاق کیا گیا۔
چین میں ہونے والی سہ فریقی کانفرنس میں تینوں ممالک نے تجارت کو 3 گنا بڑھانے، روٹ کو خیبر پختونخوا کے 7 اضلاع سے گزارنے، اور افغانستان میں نئی راہداریوں کے قیام پر رضامندی ظاہر کی۔
مزید پڑھیں: طورخم بارڈر پر کسٹم عملے نے کام روک دیا، وجہ کیا ہے؟
ذرائع کے مطابق وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے حالیہ دورے کے دوران اس حوالے سے تفصیلی گفت و شنید ہوئی، اور پاکستان سے تاجکستان و دیگر وسطی ایشیائی ممالک تک تجارتی راستے بڑھانے پر بھی بات ہوئی۔
پاک افغان تجارت کا نیا دورافغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی شہاب یوسفزئی کے مطابق، پاکستان اور افغانستان ایک نئے تجارتی دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اب تجارت کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور پاکستان بھی ویزا پالیسی اور بارڈر مینجمنٹ میں نرمی لا کر افغان شہریوں کو سہولیات دے رہا ہے۔
شہاب یوسفزئی نے کہا کہ افغانستان کو اب یہ سمجھ آ گیا ہے کہ ان کے لیے پاکستان کے ساتھ تجارت زیادہ مفید ہے، اور بھارت کے ساتھ براہ راست تجارت فی الحال ان کے لیے ممکن یا سودمند نہیں۔
پاکستان افغانستان سے کیا درآمد و برآمد کرتا ہے؟پاکستان، افغانستان کے لیے ایک اہم تجارتی روٹ ہے۔ پاکستان سے افغانستان سیمنٹ، سریا، ادویات، سبزیاں، چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ برآمد کی جاتی ہیں، جبکہ افغانستان سے پاکستان کو پھل، سبزیاں اور خشک میوہ جات درآمد کیے جاتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان پاک افغان تجارت پاک افغان تعلقات پاکستان چائنا سی پیک طورخم بارڈر