سچ کہا جائے تو اب فضا ہے کہ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس لوٹ جائیں، افغان کونسل جنرل
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
پشاور میں تعینات افغان کونسل جنرل حافظ محب اللہ شاکر نے کہا ہے کہ افغان مہاجرین کے لیے افغانستان میں کمیشن بنایا گیا ہے۔ طورخم بارڈر کے اس پار افغانستان میں کیمپ قائم کیا گیا ہے۔
وہ پشاور میں پریس کاںفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
NEWSFLASH: Afghan Consul General in Peshawar Hafiz Muhibullah Shakir has said that Afghan refugees should return to their country without apprehension and they will be given facilities including land.
— Khabar Kada (@KhabarKada) April 16, 2025
حافظ محب اللہ شاکر کا کہنا تھا کہ وطن واپسی پر مہاجرین کو تمام تر سہولیات دی جارہی ہیں۔ افغان مہاجرین نے پاکستان میں 40 سال گزار دیے، مہاجرین پاکستان میں اسلام کے خاطر پاکستان کی جانب ہجرت کی۔
یہ بھی پڑھیں:افغان مہاجرین کے نام پر کھربوں ڈالرز کمائے گئے، بیدخلی بند کی جائے، پشتون قوم پرست جماعتیں
انہوں نے کہا کہ افغانستان پر حملے کے بعد افغان مہاجرین نے سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ پاکستان کو ہجرت کی۔ اگر سچ کہا جائے تو اب فضا ہے کہ افغان مہاجرین اپنے ملک واپس چلے جائیں۔
حافظ محب اللہ شاکر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اب امن قائم ہے۔ افغان مہاجرین اپنے ملک میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں اور اپنی زندگی آرام سے گزار سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانوں کو اب تشویش نہیں ہونا چاہیے ، وہاں ان کے لیے تمام سہولیات موجود ہیں۔کنڑ میں کاروباری افراد کو زمینیں دی جارہی ہے۔کاروبار کیلئے ماحول سازگار ہے۔
افغان کونسل جنرل کا کہا تھا کہ ہم نے پاکستان میں آزادانہ زندگی گزاری، ہمیں کسی قسم کی شکایت نہیں ہے۔
حافظ محب اللہ شاکر کے مطابق اپنا ملک اپنی حکومت اور اپنا نظام ہے۔ اب افغانستان میں کسی کو تشویش نہیں ہونا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغان کونسل جنرل افغان مہاجر افغانستان پاکستان پشاور حافظ محب اللہ شاکرذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان کونسل جنرل افغان مہاجر افغانستان پاکستان پشاور حافظ محب اللہ شاکر حافظ محب اللہ شاکر افغان کونسل جنرل افغانستان میں افغان مہاجرین کہ افغان تھا کہ
پڑھیں:
افغان مہاجرین کے انخلا سے بلوچستان میں کاروباری سرگرمیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
پاکستان میں مقیم غیرقانونی افغان مہاجرین کے انخلا کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے تارکین وطن کو افغانستان واپسی کے لیے 31 مارچ کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی جس کے بعد مہاجرین کا انخلا وقتا فوقتا جاری ہے ادھر بلوچستان کے مکتلف علاقوں سے مہاجرین کے انخلا کا عمل جاری ہے۔
محکمہ داخلہ کے ذرائع کے مطابق اب تک 32 ہزار تارکین وطن کو افغانستان بھیجا جا چکا ہے جبکہ روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار تک مہاجرین کو چمن اور برابچہ سرحدی علاقوں سے ہمسایہ ملک بھیجا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاک افغان اہم مذاکرات: نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار ایک روزہ دورے پر کابل پہنچ گئے
بلوچستان میں گزشتہ تین دہائیوں سے افغان تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو کاروباری سرگرمیوں میں مصروف تھی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہاجرین کے انخلا سے بلوچستان میں کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوں گی یا نہیں؟
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایوان صنعت و تجارت کے سابق صدر فدا حسین نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے ایک بار افغان تارکین وطن کو واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے جس کے سبب روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد افغانستان کا رخ کررہے ہیں، ایسی صورت میں بلوچستان میں کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ بلوچستان میں سرحدی تجارت سمیت کئی اہم کاروباری شعبوں میں مہاجرین دہائیوں سے کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کاروباری افراد نے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری یہاں کر رکھی ہے اگر ایسے میں یہ افراد وطن واپس جاتے ہیں تو یہ اپنا سرمایہ مارکیٹ سے کھینچ لیں گے اور یوں کاروباری سرگرمیوں میں یک دم کمی آئے گی جس سے چھوٹا کاروباری سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے: پاک افغان اہم مذاکرات: نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار ایک روزہ دورے پر کابل پہنچ گئے
فدا حسین نے بتایا کہ افغان مہاجرین نے بلوچستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری پراپرٹی کے شعبے میں کر رکھی ہے۔ صوبے میں سیکیورٹی کی مخدوش صورتحال کے سبب پہلے پراپرٹی کی قیمتیں کم ہوئی تھیں ایسے میں مہاجرین کے انخلا کے معاملے نے پراپرٹی کے کاروبار کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، اس وقت مارکیٹ میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے کی پراپرٹی 70 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
فدا حسین نے بتایا کہ پالیسی سازوں کی جانب سے غیرمستحکم فیصلے کاروباری سرگریوں کو شدید متاثر کررہے ہیں، اگر صورتحال یہی رہی تو بلوچستان میں کاروبار ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے: غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کا انخلا تیزی سے جاری
دوسری جانب وی نیوز سے بات کرتے ہوئے چمن کے رہائشی ستار خوندئی نے کہا کہ پاک افغان سرحدی شہر چمن میں اس وقت کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئی ہیں، سرحد بند ہونے سے پہلے ہی کاروبار شدید متاثر ہوا تھا لیکن اب اشیاء کی ڈیمانڈ نہ ہونے کی وجہ سے کاروبار دھول چاٹ رہا ہے۔ چمن میں بسنے والے لوگوں کی رشتہ داریاں اور کاروبار افغانستان کے علاقے قندھار میں موجود منڈی ‘ویش منڈی’ سے منسلک تھا۔ ماضی میں چمن کے لوگ ویش منڈی سے سامان لے کر چمن اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں لے جایا کرتے تھے اور اسی طرح چمن سے سامان خرید کر لوگ قندھار لے جایا کرتے تھے تاہم سرحد بند ہونے اور مہاجرین کے انخلا سے کاروبار شدید متاثر ہوا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا موقف ہے کہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلوچستان میں یک دم افغان مہاجرین کے انخلا سے کاروباری سرگرمیوں میں خلا پیدا ہوگا لیکن اگر غیرقانونی طور پر آئے مہاجرین اپنے وطن کو لوٹ جاتے ہیں تو ایسے میں مقامی افراد کے لیے روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغان انخلا افغان شہری بلوچستان تجارت کاروبار معیشت