امریکا میں پابندی کے خدشات کے بعد پاکستانی طلبہ کے لیے کن ممالک میں بہترین مواقع موجود ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
امریکا میں پاکستانی طلبہ کو درپیش حالیہ چیلنجز کے بعد واشنگٹن جانے کے خواہشمند طلبہ اب دیگر ممالک میں تعلیم کے مواقع تلاش کررہے ہیں۔
طلبہ کا رجحان کچھ عرصے سے ویسے بھی یورپ کے ایسے ممالک کی جانب بڑھ رہا ہے، جہاں طلبہ کی تعداد ان بڑے ممالک کی نسبت بہت کم ہے جس کی وجہ سے وہاں تعلیم کے بعد روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں پاکستانی طلبہ بھارتیوں پر سبقت لے گئے
واضح رہے کہ صرف امریکا ہی نہیں بلکہ طلبہ کے لیے یورپ میں بھی اعلیٰ تعلیم کے مواقع موجود ہیں، لیکن اس کے بعد سوال ذہن میں آتا ہے کہ آخر یورپ کے کس ملک میں جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے؟
جرمنی:جرمنی پاکستانی طلبہ کے لیے ایک ممتاز مقام کے طور پر ابھر رہا ہے، یہاں کی کئی نامور جامعات جیسے کہ ٹی یو میونخ (TU Munich)، آر ڈبلیو ٹی ایچ آخن (RWTH Aachen University)، اور یونیورسٹی آف ہائیڈل برگ (Heidelberg University)، انجینیئرنگ، سائنس اور ہیومینٹیز میں بین الاقوامی معیار کی تعلیم مفت یا انتہائی کم ٹیوشن فیس پر فراہم کرتی ہیں۔
جرمنی کی سب سے بڑی اسکالرشپ جو جرمن اکیڈمک ایکسچینج سروس کی جانب سے طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ ڈی اے اے ڈی (DAAD – German Academic Exchange Service) کے نام سے مشہور ہے، اور یہ اسکالرشپ جرمنی میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند بین الاقوامی طلبہ کے لیے خاص طور پر مختص ہے، جس کو حاصل کرنا طلبہ کے لیے ایک بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔
فرانس:فرانسیسی جامعات بھی پاکستانی طلبہ کے لیے بہترین انتخاب ہیں، یونیورسٹی آف پیرس (Université PSL)، ایکل پولی ٹیکنیک (École Polytechnique)، اور سوربون یونیورسٹی (Sorbonne University) آرٹس، سائنس، اور انجینیئرنگ کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم فراہم کرتی ہیں۔ فرانسیسی حکومت اور مختلف تنظیمیں جیسے کہ ایفل اسکالرشپ (Eiffel Scholarship) بین الاقوامی طلبہ کو مالی معاونت فراہم کرتی ہیں۔
نیدرلینڈز:نیدرلینڈز ایک کثیر الثقافتی ملک ہے جہاں انگریزی میں پڑھائی جانے والی یونیورسٹیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی (Delft University of Technology)، یونیورسٹی آف ایمسٹرڈیم (University of Amsterdam)، اور لائیڈن یونیورسٹی (Leiden University) سائنس، ٹیکنالوجی اور سوشل سائنسز میں بہترین پروگرام پیش کرتی ہیں۔ ہالینڈ اسکالرشپ (Holland Scholarship) اور اورنج نالج پروگرام (Orange Knowledge Programme) پاکستانی طلبہ کے لیے مالی مدد کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
ان اسکالرشپس کے ذریعے طلبہ نیدر لینڈ میں اپنے لیے بہترین تعلیمی مواقع نہ صرف تلاش کرسکتے ہیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ نیدرلینڈز طلبہ کے اعتبار سے ایک بہترین ملک ہے۔
یہ بھی پڑھیں بین الاقوامی رضاکار تنظیم کے ذریعے طالبات کے لیے میٹرک اسکالرشپ کا اعلان
سویڈن:سویڈن اپنے جدت پسندانہ تعلیمی نظام اور تحقیق پر مبنی اپروچ کے لیے جانا جاتا ہے، کے ٹی ایچ رائل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (KTH Royal Institute of Technology)، لنڈ یونیورسٹی (Lund University)، اور اپسالا یونیورسٹی (Uppsala University) انجینیئرنگ، سائنس، اور پائیدار ترقی کے شعبوں میں اعلیٰ معیار کی تعلیم مہیا کرتی ہیں۔ سویڈش انسٹیٹیوٹ اسکالرشپس (Swedish Institute Scholarships) بین الاقوامی طلبہ کو مالی امداد فراہم کرتے ہیں۔
پاکستانی طلبا کے لیے ایشیا میں ابھرتے ہوئے مواقع کون سے ہیں؟
چین:چین تیزی سے بین الاقوامی طلبہ کے لیے ایک اہم تعلیمی مرکز بن رہا ہے، سنگھوا یونیورسٹی (Tsinghua University)، پیکنگ یونیورسٹی (Peking University)، اور شنگھائی جیاوٹونگ یونیورسٹی (Shanghai Jiao Tong University) سائنس، انجینیئرنگ، میڈیسن اور بزنس کے شعبوں میں عالمی معیار کے پروگرام پیش کرتی ہیں، چینی حکومت اور مختلف جامعات پاکستانی طلبہ کے لیے متعدد اسکالرشپس فراہم کرتی ہیں۔
چائنا کی سب سے بڑی اسکالرشپ کو عام طور پر چینی حکومت کی اسکالرشپ (Chinese Government Scholarship – CGS) سمجھا جاتا ہے۔
یہ اسکالرشپ چین کی وزارت تعلیم کے زیرانتظام چائنا اسکالرشپ کونسل (China Scholarship Council – CSC) کے ذریعے دی جاتی ہے۔ اس کا مقصد دنیا بھر کے ہونہار طلبہ اور اسکالرز کو چین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے یا تحقیق کرنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں 120 پاکستانیوں نے امریکا میں اعلیٰ تعلیم کے لیے فلبرائٹ اسکالرشپ حاصل کرلی
چینی حکومت کی اسکالرشپ مختلف اقسام کی ہوتی ہے، جو انڈرگریجویٹ، ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی سطح کے ساتھ ساتھ جنرل اور سینیئر اسکالرز کے لیے بھی دستیاب ہے۔ یہ اسکالرشپ عام طور پر ٹیوشن فیس، رہائش، طبی انشورنس اور ماہانہ وظیفہ پر مشتمل ہوتی ہے۔
اگرچہ دیگر اسکالرشپس بھی موجود ہیں، جیسے کہ مختلف یونیورسٹیوں اور مقامی حکومتوں کی طرف سے پیش کی جانے والی اسکالرشپس، لیکن چینی حکومت کی اسکالرشپ اپنی وسیع کوریج اور بڑی تعداد میں دستیاب ہونے کی وجہ سے سب سے نمایاں ہے۔
ملائیشیا:ملائیشیا نسبتاً کم لاگت میں معیاری تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طلبہ کے لیے ایک اچھا آپشن ہے۔ یونیورسٹی ملایا (University of Malaya)، یونیورسٹی سائنس ملائیشیا (Universiti Sains Malaysia)، اور یونیورسٹی ٹیکنالوجی ملائیشیا (Universiti Teknologi Malaysia) انجینئرنگ، آئی ٹی، اور بزنس کے شعبوں میں انگریزی میں تعلیم فراہم کرتی ہیں، ملائیشین حکومت اور جامعات کی جانب سے بھی اسکالرشپس دستیاب ہیں۔
چائنا کی طرح ملائیشیا میں بھی بین الاقوامی طلبہ کے لیے کئی اسکالرشپس دستیاب ہیں، لیکن سب سے بڑی اور باوقار اسکالرشپس میں سے ایک ملائیشین انٹرنیشنل اسکالرشپ (Malaysian International Scholarship – MIS) ہے۔
یہ اسکالرشپ ملائیشیا کی حکومت کی جانب سے ان باصلاحیت بین الاقوامی طلبہ کو راغب کرنے کے لیے پیش کی جاتی ہے جو ملائیشیا کی نامور یونیورسٹیوں میں ماسٹرز یا ڈاکٹریٹ کی سطح پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
آسٹریلیا:آسٹریلیا اپنی بہترین یونیورسٹیوں اور طرز زندگی کے معیار کے لیے جانا جاتا ہے، آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی (Australian National University)، یونیورسٹی آف میلبرن (University of Melbourne)، اور یونیورسٹی آف سڈنی (University of Sydney) مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم فراہم کرتی ہیں۔ آسٹریلین حکومت کی جانب سے اینڈیور اسکالرشپس (Endeavour Scholarships) اور یونیورسٹی کی سطح پر بھی اسکالرشپس موجود ہیں۔
نیوزی لینڈ:نیوزی لینڈ ایک پُرامن اور خوبصورت ملک ہے جو معیاری تعلیم کے مواقع فراہم کرتا ہے، یونیورسٹی آف آکلینڈ (University of Auckland)، وکٹوریہ یونیورسٹی آف ویلنگٹن (Victoria University of Wellington)، اور یونیورسٹی آف اوٹاگو (University of Otago) مختلف مضامین میں بہترین پروگرام پیش کرتی ہیں، نیوزی لینڈ کی حکومت اور جامعات بین الاقوامی طلبہ کے لیے اسکالرشپس مہیا کرتی ہیں۔
نیوزی لینڈ میں بین الاقوامی طلبہ کے لیے کئی اہم اسکالرشپس دستیاب ہیں، جن میں سے ایک اہم اسکالرشپ ’مانااکی نیوزی لینڈ اسکالرشپ‘ ہے۔
اس کے علاوہ، نیوزی لینڈ کی یونیورسٹیاں بھی بین الاقوامی طلبہ کے لیے مختلف اسکالرشپس پیش کرتی ہیں۔ ان میں سے کچھ اہم اسکالرشپس یہ ہیں:
یہ بھی پڑھیں گوگل کا بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے 1000 اسکالر شپس کا اعلان
یونیورسٹی آف آکلینڈ انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ ایکسیلنس اسکالرشپ (University of Auckland International Student Excellence Scholarship)
وکٹوریہ یونیورسٹی آف ویلنگٹن وائس چانسلر انٹرنیشنل ایکسیلنس اسکالرشپ (Victoria University of Wellington Vice Chancellor’s International Excellence Scholarship)
یونیورسٹی آف اوٹاگو انٹرنیشنل اکیڈمک ایکسیلنس اسکالرشپ (University of Otago International Academic Excellence Scholarships)
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسکالر شپس امریکا ایشیائی ممالک بیرون ملک تعلیم پاکستانی طلبہ چین درپیش چیلنجز ڈونلڈ ٹرمپ مواقع وی نیوز یورپ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسکالر شپس امریکا ایشیائی ممالک بیرون ملک تعلیم پاکستانی طلبہ چین درپیش چیلنجز ڈونلڈ ٹرمپ مواقع وی نیوز یورپ بین الاقوامی طلبہ کے لیے پاکستانی طلبہ کے لیے طلبہ کے لیے ایک فراہم کرتی ہیں اور یونیورسٹی یونیورسٹی آف کے شعبوں میں پیش کرتی ہیں یہ اسکالرشپ چینی حکومت تعلیم حاصل نیوزی لینڈ کی جانب سے موجود ہیں حکومت اور حکومت کی میں اعلی تعلیم کے کے مواقع جاتا ہے طلبہ کو کرنے کے کے بعد
پڑھیں:
لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے
گزشتہ ہفتے بین الاقوامی دہشت گرد اور ریاستی دہشتگردی کے علمبردار اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے سیاسی بیورو کے رہائشی ہیڈکوارٹر پر حملہ کرکے ایک اور آزاد ریاست کی خود مختاری اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑائیں۔
اسرائیلی جنگی جنون کا ناسور چاروں طرف پھیل رہا ہے مگر اسرائیل نے قطر پر ایسے حساس وقت پر حملہ کیا جب ایک طرف قطر غزہ میں جنگ بندی کے لیے ثالث کا کردار ادا کر رہا تھا اور دوسری طرف دنیا کے مختلف ممالک اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسانیت کا درد لیے صمود فلوٹیلا (قافلہ استقامت) کی شکل میں غزہ کے مظلوم و مجبور بھوکے پیاسے اور بیمار شہریوں کے لیے امدادی سامان اور ادویات لے کر دن رات آگے بڑھ رہا تھا۔
قافلہ میں پاکستان کی نمایندگی استقامت اور بہادری کی علامت بن کر ابھرنے والے سابق سینیٹر برادر عزیز مشتاق احمد خان کررہے ہیں۔ جس قافلے کا حصہ بن کر وہ غزہ کی طرف بڑھ رہے ہیں اس پر اسرائیل کی جانب سے دو ڈرون حملے ہوچکے ہیں لیکن صمود فلوٹیلا بلا خوف آگے بڑھ رہا ہے۔
اللہ رب العزت صمود فلوٹیلا کے تمام ممبران کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ان کی سعی کو مظلومین غزہ کے زخموں کا مرہم اور اسرائیلی بربریت کے خاتمے کا ذریعہ اور وسیلہ بنائے، آمین ثمہ آمین یا رب العالمین۔
قطر پر اسرائیلی حملے سے نہ صرف علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی ہوئی بلکہ اس حملے نے قطر کی علاقائی، عسکری اور سفارتی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا اور تمام عرب ممالک کی کھوکھلی شان و شوکت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔
اردن اور سعودی عرب کی فضائی حدود سے گزر کر اسرائیل کے دس ایف 35 جنگی طیاروں نے قطر کے خلاف اس آپریشن میں حصہ لیا۔ ان جہازوں کو قطر ہی کے ’’العدید ایئربیس‘‘ سے پرواز کر کے برطانوی اور امریکی طیاروں نے فضا میں ایندھن فراہم کیا، جس کے بعد وہ واپسی کی پرواز کے قابل ہوئے ورنہ سارے طیارے راستے میں گر راکھ کا ڈیر بن جاتے۔
دوحہ حملے کا سب سے چونکا دینے والا پہلو قطر اور سعودی عرب کے انتہائی جدید فضائی دفاعی نظام کی ناکامی ہے، نہ تو دونوں ممالک کے کسی زمینی فضائی دفاعی نظام نے کوئی ردعمل ظاہر کیا اور نہ ہی ان ممالک کی فضا میں موجود کسی طیارے نے الرٹ جاری کیا۔
اسرائیل اور اس کے گنے چنے حمائتیوں کو چھوڑ کر ساری مہذب دنیا اس بات پر متفق ہے کہ اسرائیل نے ’’بدمعاش ریاست‘‘ بن کر تمام بین الاقوامی اصولوں کی دھجیاں اڑا کر اپنی ریاستی دہشت گردی کے ذریعے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کردیا۔ یہ اظہرمن شمس ہے کہ اب اسرائیل کا وجود عالمی امن کے لیے خطرہ بن چکا۔
غزہ پر قبضے اور گریٹر اسرائیل کا خواب لیے توسیع پسندانہ عزائم کی حامل ریاستی دہشتگردی کا علمبردار اسرائیل اب اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر آزاد اور خود مختار اسلامی ریاستوں پر براہ راست حملوں پر اتر آیا ہے۔
اب تک سات اسلامی ممالک اسرائیل کی ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بن چکے ہیں جن میں سے بیشتر ممالک وہ ہیں جنھوں نے ہمیشہ اسرائیل کے ازلی سرپرست امریکا پر بھروسہ کیا اور امریکا کی دوستی کا دم بھرا، ان ممالک کے سربراہان تاحال امریکا کے ساتھ ہیں۔ قطر بھی امریکا کے اتحادیوں کی صف اول میں کھڑا ہے، وہ خوش فہمی مبتلا تھا کہ جب انھوں نے امریکا کے لیے اپنی سرزمین پر اڈے دیے ہیں، امریکا سے کھربوں ڈالرز کا اسلحہ خریدتے ہیں۔
حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دورہ قطر کے موقع 400 ملین ڈالر کا جہاز گفٹ کیا گیا اور اس کے علاوہ ہر موقع پر تابعداری اور جی حضوری کے بعد قطر کی طرف کون میلی آنکھ سے دیکھ سکتاہے اور اگر کوئی دیکھے گا تو ’’امریکا ماموں‘‘ اسے خود دیکھ لے گا۔
مگر امریکا کے بغل بچے اسرائیل نے تمام بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہوئے دوحہ پر حملے اور اس پر امریکا کی مجرمانہ خاموشی نے قطر کی یہ خوش فہمی چکنا چور کردی۔ اسرائیل کے اس حملے نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے نعرے اور ملکوں کی خود مختاری اور اقتدار کے احترام کے بیانیے محض ڈھکوسلے ہیں۔
دنیا میں ابھی بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہی رائج ہے۔ جب ہر بین الاقوامی فورم پر امریکا، اسرائیلی جرائم کے دفاع کے لیے کھڑا ہوگا تو پھر صرف فلسطین، شام، ایران اور قطر نہیں جہاں بھی اسرائیلی مفادات خطرے میں ہوں گے وہاں دوسروں کی خود مختاری اور اقتدار ریت کی دیوار ثابت ہو ںگے۔
اسرائیلی حملہ صرف قطر کے لیے نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ بالخصوص عربوں کے لیے بہت بڑا دھچکا، لمحہ فکریہ اور وارننگ ہے۔ اللہ کرے اس دھچکے کے بعد مسلمان حکمرانوں اور خاص کر عرب ممالک نیند سے جاگ جائیں اور اپنے پہلو میں موجود غزہ کے مظلوم و مجبور اور غذائی قلت کا شکار فلسطینیوں کے حق میں کھڑے ہو کر اﷲ کو راضی کریں۔
مسئلہ یہ نہیں کہ اسرائیل طاقتور ہے، المیہ یہ ہے کہ مظلوم امت مسلمہ کے حکمران کمزور، مصلحت پسند اور تقسیم ہیں۔ امت مسلمہ کے حکمران اب بھی متحد نہ ہوئے تو تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس حملے کے نتیجے میں مسلم امہ انگڑائی لیتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
حملے کے فوری بعد قطر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے قطر کا دورہ کیا، اس دورے میں اسرائیل کے بغل بچے بھارت کو شکست فاش دینے والے ریاست پاکستان کی طرف اسرائیل کے لیے واضح پیغام تھا کہ ’’تمہاری بدمعاشی مزید نہیں چلے گی۔
جس طرح ہم نے تمہارے اسٹرٹیجک اتحادی ہندوستان کو آپکی سرپرستی، آشیرباد اور مدد سے کی گئی جارحیت کا منہ توڑ اور دندان شکن جواب دیا اس سے خطرناک انجام سے اسرائیل کو دوچار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ اگر پوری مسلم امہ ساتھ دے تو پاکستان نے جس طرح انڈیا پر پھینکے گئے میزائلوں پر ان شہداء کے نام لکھے تھے جو رات کی تاریکی میں ہندوستان سے داغے گئے میزائلوں سے شہید ہوئے تھے۔
بلکل اسی طرح پاکستان اپنی میزائلوں پر صیہونی دہشت گردی کے شکار غزہ کے مظلوم شہید بچوں کے نام لکھ کر اسرائیل کو سبق سکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس وقت پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر اور پاک فوج کی کمان ایک ایسے سپہ سالار کے ہاتھوں میں ہے جس کا سینہ قرآن کے نور سے منور ہے، اگر وہ ہندوستان کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں تو دہشت گرد اسرائیل کو بھی لگام ڈال سکتے ہیں۔
یہ خوش آیند ہے کہ اس حملے کے بعد عرب دنیا میں اتحاد کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آئی ہے۔ تاحال تمام عرب ممالک اسرائیل کے خلاف ایک پیج پر اور سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ اتوار اور سوموار کو دو روزہ عرب اسلامی سربراہی اجلاس ہوا، اس اجلاس میں شریک مسلم ممالک کے سربراہان نے پہلی بار متفقہ لائحہ عمل اپنایا اور اسرائیل کی سخت الفاظ میں مزمت کی۔
مسلم سربراہان نے کہا کہ ’’اسرائیل نے تمام ریڈلائنزکراس کرلی ہیں، اقوام متحدہ کے چارٹراورعالمی قوانین کی خلاف ورزی پر اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے مسئلہ فلسطین حل کرنا ہوگا، صہیونی جارحیت روکنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘
سوموار کی شام جاری ہونے والے اعلامیہ میں مسلم ممالک کی جانب سے جارحیت کے لیے اسرائیل کو جواب دہ ٹھہرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اعلامیہ میں قطر پر اسرائیل کے بزدلانہ اور غیرقانونی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت، قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی اور قطری ردعمل کی حمایت کی۔
مگر یہ اب صرف مطالبات سے حل ہونے والا مسئلہ نہیں کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اسلامی ممالک ملکر انسداد ریاستی دہشتگردی کے لیے ’’بین الاقوامی اسلامی فورس خالد بن ولید فورس کے نام سے تشکیل دے کر دہشت گرد ریاست اسرائیل کو میدان جنگ میں نشان عبرت بنائیں۔
اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف اور بین الاقوامی دنیا ہماری بات تب تک نہیں سنے گی جب تک ہم متحد و متفق ہو کر عملی اقدامات کے ساتھ آگے نہیں بڑھیں گے۔ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے، اب محض زبانی جمع خرچ، کھوکھلے بیان بازیوں اور مذمتوں پر وقت ضایع کرنے کے بجائے آگے بڑھ کر ٹھوس عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر ایسا نہ کیا تو آج قطر تو کل کسی اور اسلامی ریاست کو اسرائیلی جارحیت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔