ناقص منصوبہ بندی کے نقصانات
اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT
بلوچستان صدیوں سے پسماندہ علاقہ رہا ہے۔ سندھ کا دارالحکومت کراچی بلوچستان کے شہر ضلع لسبیلہ سے متصل ہے۔ کراچی سے کوئٹہ کا فاصلہ 631 کلومیٹر ہے۔ بلوچستان کے سرحدی شہر حب کے بعد دشوار گزار پہاڑی راستہ شروع ہوجاتا ہے، یہ ایک قدیم راستہ ہے۔ کراچی سے کوئٹہ کے راستے پرکئی شہر آباد ہیں جن میں بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر خضدار بھی شامل ہے۔
سابق صدر جنرل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں جب پاکستان، ایران اور ترکی آر سی ڈی معاہدے میں منسلک ہوئے تو آر سی ڈی ہائی وے کے نام پر ایک چھوٹی سی سڑک تعمیر ہوئی، یوں کراچی سے نہ صرف کوئٹہ بلکہ افغانستان اور ایران جانے کے لیے بھی یہ سڑک اہم بن گئی، مگر یہ سڑک یک طرفہ ہے، اس لیے ٹریفک بڑھنے کے ساتھ اس سڑک پر حادثات کی اوسطاً تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی۔
اس سڑک کے اطراف میں کئی سابق وزراء اعلیٰ کے آبائی گاؤں بھی ہیں۔ ماضی میں وزرائے اعلیٰ نے اس سڑک کو توسیع دینے اور جدید ہائی وے میں تبدیل کرنے کے اعلانات کیے ہیں۔ ایسے ہی اعلانات وفاقی وزراء اور برسر اقتدار آنے والے وزرائے اعظم نے بھی کیے۔ بلوچستان سے منتخب ہونے والے اراکینِ قومی اسمبلی، سینیٹ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے بھی اس سڑک کی صورتحال پر توجہ دلائی۔ کبھی اس سڑک کی توسیع کے لیے فنڈز مختص کرنے کے اعلانات بھی ہوئے مگر عملی طور پر یہ سڑک خونی سڑک ہی رہی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دورِ اقتدار میں سی پیک کا بڑا منصوبہ شروع ہوا۔
سی پیک کے جاری کردہ لے آؤٹ کے تحت چین کو بلوچستان کی تمام اہم سڑکوں کو جدید سڑکوں میں تبدیل کرنا تھا۔ سی پیک کے تحت کراچی سے گوادر تک ہائی وے تعمیر ہوئی۔ گوادر، خضدار اور رتوڈیرو سے چین تک ایک جدید ترین ہائی وے کی تعمیر مکمل ہوئی۔ منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال جو سی پیک کو گیم چینجر قرار دیتے ہیں وہ بار بار یہ اعلان کرتے رہے کہ بلوچستان میں اب سڑکوں کا جال بچھ جائے گا مگر پھر مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہوئی تو تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی۔
اس حکومت کے وزراء بھی یہ نعرے لگاتے رہے ۔ اس دوران بلوچستان میں بد امنی بڑھ گئی۔ سڑکوں کا بند ہونا اور بلوچستان کے شہروں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا، پھر مسلم لیگ ن کی حکومت آگئی۔ اب پھر پروفیسر احسن اقبال نے یہ بیانیہ اختیار کیا ۔ یہ خبریں شائع ہونے لگیں کہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں سی پیک کے تحت کئی منصوبے مکمل ہوگئے۔
جس پر بلوچستان کے کچھ باشعور افراد کا یہ مفروضہ درست لگنے لگا کہ سی پیک منصوبہ کا دائرہ کار بلوچستان میں مخصوص سڑکوں کی تعمیر تک محدود ہے۔ صدر ٹرمپ کے عالمی معیشت کو تہہ و بالا کرنے والے فیصلوں کی بناء پر تیل کی مارکیٹ بری طرح متاثر ہوئی اور پوری دنیا میں تیل کی قیمتیں بڑی حد تک کم ہوگئیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پیٹرول اور HSP کی قیمتیں 6 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 5 بیرل تک پہنچ گئیں اور بعض ممالک نے تیل کی قیمتوں میں مزید کمی کردی۔
حکومتِ پاکستان نے پہلے تو یہ اعلان کیا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی بناء پر اس ماہ پیٹرولیم کی مصنوعات میں کوئی کمی نہیں ہوگی بلکہ حکومت کو اس کمی سے جو فائدہ ہوگا، اس سے بجلی کے بلوں میں کمی کی جائے گی، یوں اس بات کا امکان ہے کہ عام صارف کو چند ماہ تک بجلی کے بلوں میں 6 روپے کا ریلیف ملے گا۔ صدر آصف زرداری نے پیٹرولیم لیوی ترمیمی آرڈیننس جاری کیا۔ اس آرڈیننس کے تحت پیٹرولیم لیوی آرڈیننس سے ترمیم نمبر پانچ کو نکال دیا گیا اور پیٹرولیم پر لیوی 8 روپے 72 پیسے بڑھا دی گئی۔ پٹرولیم پر لیوی 70 روپے سے بڑھا کر 78 روپے 72 پیسے کردی گئی۔
ڈیزل لیوی پر بھی لیوی بڑھا دی گئی۔ یہ بھی خبر ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پٹرول پر فی بیرل 5 روپے کی لیوی نافذ کی جائے گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ دنوں بلوچستان کے عوام کو یہ خوش خبری سنائی کہ حکومت اس بچت کو بلوچستان میں سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کرے گی۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اس رقم سے بلوچستان کی بہت سے اہم شاہراہیں تعمیر ہونگی، جن میں چمن،کوئٹہ، قلات، خضدار اورکراچی شاہراہ کی تعمیر شامل ہے اور اس سڑک کو دو رویہ کیا جائے گا۔ اسی رقم سے کچھی کنال کا فیز 2 بھی مکمل کیا جائے گا۔ اسی طرح M-6 اور M-9 کو بھی مکمل کیا جائے گا۔
وزیر اعظم کے اس اعلان کا بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے بھرپور خیر مقدم کیا۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے اشیائے صرف کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ حکومت نے عام آدمی کو چند ماہ کے لیے بجلی کے بلوں میں جو ریلیف دیا ہے وہ بھی پھیکا پڑ جائے گا۔ بلوچستان کے دانشوروں کا یہ سوال اہمیت اختیارکرگیا ہے کہ سی پیک کے منصوبے میں بلوچستان کی اہم شاہراہیں شامل نہیں۔ کیا ملک کے دیگر صوبوں میں حکومت نے جو ترقیاتی منصوبے شروع کیے ہیں، اس کے لیے بھی پیٹرولیم مصنوعات کی عالمی منڈیوں میں کمی پر انحصارکیا جاتا ہے۔
بلوچستان کے امور کے ماہر عزیز سنگھور اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو پاکستان کی تقدیر بدلنے والا منصوبہ قرار دیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت گوادر کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور بلوچستان کو ’’ گیٹ وے‘‘ قرار دیا گیا تھا، مگر بدقسمتی سے سی پیک کے عملی ثمرات کا رخ ر چند دوسرے شہروں کی جانب ہوا، جہاں جدید سڑکیں، انڈسٹریل زونز اور دیگر منصوبے مکمل ہوئے، جب کہ بلوچستان آج بھی بنیادی انفرا اسٹرکچر سے محروم ہے۔
شاہراہ این 25، جو کوئٹہ کو کراچی سے ملاتی ہے، کو ’’ قاتل شاہراہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ سڑک نہ صرف خستہ حال ہے بلکہ روزانہ کئی قیمتی جانیں حادثات کی نذر ہو جاتی ہیں، اگر واقعی سی پیک کے تحت بلوچستان میں ترقیاتی کام ہوئے ہوتے تو این25 جیسے اہم ترین راستے کی حالت زار ایسی نہ ہوتی۔ یہ فیصلہ بذاتِ خود اس بات کا اعتراف ہے کہ سی پیک کے اعلانات کے باوجود بلوچستان میں زمینی سطح پر کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں ہوئی۔ یہ امر باعثِ تشویش ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے حاصل ہونے والی بچت کو عوامی ریلیف کے بجائے ایک ایسی سڑک کی مرمت پر خرچ کیا جا رہا ہے، جس کی تعمیر گزشتہ دہائیوں سے نظرانداز کی گئی۔
بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا مگر سب سے زیادہ نظر اندازکیا گیا صوبہ ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود یہاں کے عوام کو نہ گیس میسر ہے، نہ صاف پانی، نہ تعلیم، نہ صحت اور نہ ہی روزگار۔ اگر سی پیک واقعی ’’ گیم چینجر‘‘ ہوتا تو سب سے پہلے بلوچستان میں تعلیم، صحت، صنعت و حرفت، روزگار اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ہوتی۔ مگر زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کا بھی عکاس ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے جو فیصلے کیے جاتے ہیں وہ بغیر مقامی نمایندوں، ماہرین یا عوامی مشاورت کے ہوتے ہیں۔
یہ رویہ جمہوری اصولوں کے خلاف ہے ۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا بیانیہ ہے کہ حکومت نے گزشتہ 2 ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات میں رعایت دینے کے بجائے 34 ارب روپے ماہانہ ٹیکس بڑھا دیا۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ حکومت نے مارچ میں پیٹرولیم کی مصنوعات 10 روپے اور اپریل میں مزید 10 روپے کا اضافہ کیا، یوں پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی 80 روپے تک پہنچ گئی۔
مفتاح اسماعیل حکومت کے اس دعویٰ کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ یہ رقم بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوگی۔ پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے پھر عام آدمی کی زندگی درگور ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں ہر صورت سڑکیں تعمیر ہونی چاہئیں مگر ایسی ناقص منصوبہ بندی جس سے خود بلوچستان کے عوام میں احساسِ محرومی گہرا ہوجائے اور باقی صوبوں کے غریب عوام اور بلوچستان کے عوام کے درمیان تضادات پیدا ہوجائیں، نقصان دہ رہے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بلوچستان میں اور بلوچستان بلوچستان کی بلوچستان کے کہ بلوچستان مصنوعات کی سی پیک کے حکومت نے کراچی سے کہ حکومت کی تعمیر کے عوام ہائی وے جائے گا یہ سڑک اس سڑک کے تحت کے لیے
پڑھیں:
25 فیصد انڈسٹریل کمپنیوں پر سا ئبر حملوں سے ہونے والے نقصانات 50 لاکھ ڈالر سے زائد تک ہوتے ہیں:کیسپرسکی تحقیق
اسلام آباد: زیادہ تر صنعتی اداروں کا اندازہ ہے کہ سائبر حملوں کے نتیجے میں ہونے والے مالی نقصانات 10 لاکھ امریکی ڈالر سے زیادہ ہیں، جبکہ تقریباً ہر چار میں سے ایک ادارہ ایسے نقصانات کی اطلاع دیتا ہے جو 50 لاکھ امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں، اور کچھ کے لیے یہ نقصان 1 کروڑ ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ یہ انکشاف ایک مشترکہ تحقیق میں سامنے آیا جو کیسپرسکی اور وی ڈی سی ریسرچ کی جانب سے کی گئی۔
کیسپرسکی اور وی ڈی سی ریسرچ کی حالیہ مشترکہ تحقیق میں آپریشنل ٹیکنالوجی (OT) کی سائبر سیکیورٹی کی موجودہ صورتحال کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا ہے۔ توانائی، یوٹیلیٹیز، مینوفیکچرنگ، ٹرانسپورٹیشن اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے 250 سے زائد فیصلہ سازوں کے سروے کی بنیاد پر یہ مطالعہ صنعتی اداروں پر اثر انداز ہونے والے اہم کاروباری اور تکنیکی رجحانات کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کرتا ہے، اور ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اختیار کی گئی مؤثر ترین حکمت عملیوں پر روشنی ڈالتا ہے۔
تحقیق میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ OT سائبرسیکیورٹی کی خلاف ورزی کا مالی اثر پیچیدہ اور کئی جہتی ہوتا ہے۔ اداروں کو متفرق اخراجات کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے، جیسے کہ آمدنی کے مواقع کا ضیاع، غیر منصوبہ بند پیداوار میں تعطل، تیار شدہ یا زیر عمل مصنوعات کا ضیاع، اور مشینری یا اثاثوں کو پہنچنے والا نقصان۔ ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے، تقریباً 25 فیصد شرکاء نے اندازہ لگایا کہ ہر سائبر حملے سے دو سال کے دوران 50 لاکھ امریکی ڈالر سے زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق انسیڈنٹ رسپانس میں تقریباً 21.7 فیصد اخراجات آتے ہیں، اس کے بعد آمدنی کے ضیاع میں 19.4 فیصد، غیر منصوبہ بند تعطل میں 16.9 فیصد، مشینری یا اثاثوں کی مرمت یا تبدیلی میں 16.8 فیصد، تاوان کی ادائیگی میں 12 فیصد، اور تیار شدہ یا زیر عمل مصنوعات کے ضیاع میں 11.9 فیصد اخراجات آتے ہیں۔ خاص طور پر، غیر منصوبہ بند تعطل کو سب سے بڑا نقصان دہ عنصر قرار دیا گیا ہے — 70 فیصد شرکاء نے بتایا کہ اس قسم کے تعطل عموماً 4 سے 24 گھنٹے تک جاری رہتے ہیں۔ یہ رکاوٹیں نہ صرف آمدنی کے بڑے نقصان کا باعث بنتی ہیں بلکہ داخلی نظام میں رکاوٹیں اور صارفین کے اعتماد میں کمی بھی پیدا کرتی ہیں، جس سے OT سائبرسیکیورٹی اقدامات کی اہمیت مزید اجاگر ہوتی ہے۔
کیسپرسکی کے انڈسٹریل سائبر سیکیورٹی پروڈکٹ لائن کے سربراہ، اینڈرے سٹریلکوف کے مطابق ”غیر منصوبہ بند تعطل اداروں کو لاکھوں ڈالر کا نقصان پہنچا سکتا ہے، جو صنعتی اور مینوفیکچرنگ کمپنیوں کے لیے ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اگرچہ دیکھ بھال پر مبنی حکمت عملیاں اس مسئلے کو کم کرنے میں مدد دیتی ہیں، لیکن سائبر سیکیورٹی کو مضبوط بنانا ناگزیر ہے تاکہ ان حملوں کو روکا جا سکے جو مہنگی مشینری کی خرابیوں اور تعطل کا سبب بنتے ہیں۔ سائبر سیکیورٹی کے خطرات کو نظر انداز کرنا، تعطل کے خاتمے اور منافع کی حفاظت کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ناکام بنا سکتا ہے۔”
کیسپرسکی آپریشنل ٹیکنالوجی صارفین کے لیے ایک منفرد ماحولیاتی نظام فراہم کرتا ہے، جو کہ انٹرپرائز سطح کی ٹیکنالوجیز، ماہرین کی معلومات اور وسیع تجربے کا امتزاج ہے۔ اس نظام کا مرکزی جزو کیسپرسکی انڈسٹریل سائبر سکیورٹی ہے، جو ایک ایک ڈی آر پلیٹ فارم ہے جو اہم انفراسٹرکچر اور صنعتی اداروں کے تحفظ کے لیے تیار کیا گیا ہے۔