پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ملکی سلامتی کی موجودہ صورت حال پر وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ اور ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی جانب سے دی گئی بریفنگ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ صورت حال میں ضروری تھا کہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلائی جاتی۔

ایک بیان میں پی ٹی آئی نے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف نے ہمیشہ ہر قسم کی دہشتگردی کی دوٹوک اور غیر مبہم الفاظ میں مذمت کی ہے۔ عمران خان جو اس وقت ناجائز طور پر قید میں ہیں، انہوں نے جیل سے بھی قوم کے نام اپنے پیغامات میں واضح طور پر نہ صرف دہشت گردی کی مذمت کی بلکہ قومی یکجہتی، اتحاد اور داخلی استحکام کی ضرورت پر زور دیا۔

یہ بھی پڑھیں پہلگام واقعہ: سوئٹزر لینڈ کے بعد یونان نے بھی پاکستان کی تجویز کی حمایت کردی

بیان میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کا مؤقف خود وضاحتی ہے، اور انہوں نے جس بصیرت اور جرأت کے ساتھ قوم کو متحد ہونے کا پیغام دیا، وہ ایک قومی رہنما کی سوچ کا عکاس ہے۔

بیان کے مطابق تحریک انصاف واضح مؤقف ہے کہ کسی بھی بیرونی جارحیت کی صورت میں ہم ملک اور قوم کے دفاع کے لیے صفِ اول میں کھڑے ہوں گے۔ اس قومی مؤقف کو ہم نے اپنے یومِ تاسیس کے موقع پر بھی واضح کیا، جب پاکستان تحریک انصاف نے ایک باقاعدہ قرارداد منظور کی، جس میں پارٹی نے بھارتی جارحیت اور پروپیگنڈا سے متعلق اپنے اصولی مؤقف کو پوری قوم کے سامنے رکھا جو اس بات کی علامت ہے کہ تحریک انصاف ہر سطح پر قومی سلامتی، خودمختاری اور یکجہتی کے لیے سنجیدہ اور ہمہ وقت تیار ہے۔

پی ٹی آئی نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں حالیہ حساس حالات میں حکومت کو فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلانی چاہیے تھی، تاکہ تمام قومی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا۔ بدقسمتی سے حکومت نے یہ موقع ضائع کیا۔

’نہ صرف اے پی سی نہیں بلائی گئی بلکہ اس کی جگہ ایک حکومتی وزیر کی طرف سے یک طرفہ بریفنگ دی جا رہی ہے۔‘

پی ٹی آئی نے کہاکہ عمران خان اور تحریک انصاف ہی وہ آواز ہیں جو عوام کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ عمران خان نے ہمیشہ قومی اتحاد، ادارہ جاتی ہم آہنگی اور سیاسی استحکام کی بات کی ہے اور وہ کسی قسم کی تقسیم، تفرقہ یا کمزوری کے حامی نہیں رہے۔

پی ٹی آئی کے مطابق چونکہ یہ محض ایک حکومتی بریفنگ ہے، نہ اس میں کوئی قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی سنجیدہ کوشش نظر آتی ہے، اور نہ ہی عمران خان جیسے اہم قومی رہنما کو شامل کرنے کی نیت ہے، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اس بریفنگ میں پاکستان تحریک انصاف کی شرکت ضروری نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں ابدالی میزائل ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، رانا ثنااللہ نے بھارت کو خبردار کردیا

پی ٹی آئی نے کہاکہ ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ تحریک انصاف اس حکومتی بریفنگ میں شرکت نہیں کرےگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آرمی چیف بریفنگ پاک بھارت کشیدگی پاکستان بھارت جنگ سیاسی جماعتیں فوجی ترجمان قومی سلامتی ملکی سلامتی وزیر اطلاعات وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا رمی چیف بریفنگ پاک بھارت کشیدگی پاکستان بھارت جنگ سیاسی جماعتیں فوجی ترجمان قومی سلامتی ملکی سلامتی وزیر اطلاعات وی نیوز پاکستان تحریک انصاف پی ٹی ا ئی نے کہاکہ بریفنگ میں اے پی سی

پڑھیں:

ہونیاں اور انہونیاں

پاکستان میں نظام انصاف میں معاشرے سے زیادہ تقسیم نظر آرہی ہے۔ اب صرف باہمی اختلاف نہیں بلکہ عدم برداشت والا تاثر ابھر رہا ہے۔ اسے ملکی نظام انصاف کی کوئی خوشنما شکل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا نظام انصاف پر اعتماد جو پہلے ہی ڈگمگاہٹ کا شکار ہے، مزید ڈگمگانے کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتاہے۔

پاکستان کے لوگ پہلے ہی سیاستدانوں کی لڑائیوں سے تنگ ہیں۔ اگر نظام انصاف کے بارے میں وہ یہی تاثر لیتے ہیں، تو یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں تو جو کچھ چل رہا ہے، یہ سب کچھ چونکا دینے والا ہے۔ حال میں جو تین واقعات ہوئے ہیں، ان پر ججز پر بحث و مباحثہ شروع ہے جو اچھی روایت نہیں ہے۔ ہمارے لیے تو عدلیہ کا احترام لازم ہے۔ ججز کے لیے ایسا ہی ہے۔ عوام میں یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ ججز اور وکلا تو کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن عوام ایسا نہیں کرسکتے۔

سب سے پہلے ایمان مزاری اور اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کا معاملہ دیکھ لیں۔ کھلی عدالت میں ایک معاملہ ہوا۔ ججز صاحب نے اگلے دن معذرت مانگ لی۔ یہ معاملہ غصہ میں ہوئی گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔

میری رائے ہے کہ ایمان مزاری کو معذرت قبول کرلینی چاہیے تھی۔ محترم جج صاحب نے انھیں بیٹی بھی کہا۔ لیکن ایمان مزاری نے اس واقعہ پر سیاست کرنی شروع کر دی جو زیادہ افسوسناک بات ہے۔

ایمان مزاری نے اسلام آباد ہا ئی کورٹ میں جج ثمن رفعت کو چیف جسٹس صاحب کے خلاف ہراسگی کی درخواست دے دی، اس درخواست پر فورا ً تین جج صاحبان پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔ یوں صورتحال کس رخ پر جارہی ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

اس سے پہلے اسلام ا ٓباد ہائی کورٹ کے رولز بنانے پر بھی قانونی لڑائی سب کے سامنے تھی۔ سپریم کورٹ میں بھی صورتحال سب کے سامنے ہے۔

 اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ڈبل بنچ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ ان کی ڈگری کا معاملہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں جج کی ڈگری ایک حساس معاملہ ہوتی ہے۔

حال ہی میں ایک رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کی ڈگری جعلی نکلی ہے تو الیکشن کمیشن نے اسے ڈس کوالیفائی کر دیا ہے۔ یہ قانونی پہلو بھی درست ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف کاروائی کرنے کا واحد فورم سپریم جیوڈیشل کونسل ہے۔

بہرحال قانونی نکات اور تشریحات کے معاملات قانون دان ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں اور ججز ہی ان پر فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

 پاکستان میں خط میں تو ساتھی ججز کوچارج شیٹ کرنے کا طریقہ تو عام ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ بہر حال رٹ پٹیشن میں کسی جج صاحب کو کام کرنے سے روکنے کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا معاملہ ہے۔

لیکن میرا خیال ہے کہ آئین وقانون میں جعلی ڈگری کے ایشو پر کسی جج کوکام سے روکنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے مجھے فیصلہ میں کوئی قانونی رکاوٹ نظر نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایک پنڈورا بکس کھول دے گا۔

پاکستان میں سیاسی تقسیم بہت گہری ہے اور حالیہ چند برسوں میں اس تقسیم میں نفرت ‘عدم برداشت اس قدر بڑھی ہے کہ معاملہ دشمنی کی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ خصوصاً پی ٹی آئی نے جس انداز میں مہم جوئیانہ سیاست کا آغاز کیا ‘اس کا اثر پاکستان کے تمام مکتبہ ہائے فکر پر پڑا ہے۔

پاکستان میں نظام انصاف کے حوالے سے باتیں ہوتی رہتی ہیں تاہم یہ باتیں زیادہ تر سیاسی و عوامی حلقے کرتے تھے ‘زیادہ سے زیادہ وکلا حضرات ذرا کھل کر بات کرتے تھے لیکن نظام انصاف کے اندر اختلافات اور تقسیم کی باتیں باہر کم ہی آتی تھیں لیکن حالیہ کچھ عرصے سے جہاں بہت سی چیزوں میں بدلاؤ آیا ہے ‘یہاں بھی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے۔

اب پاکستان کے عام شہری کو بھی بہت سے معاملات سے آگاہی مل رہی ہے کیونکہ بحث و مباحثہ مین اسٹریم میڈیا میںہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا تک پہنچ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بارے میں تو آپ کو پتہ ہے کہ چھوٹی سی بات بھی کتنی بڑی بن جاتی ہے اور گلی محلوں تک پھیل جاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • 10پاکستانی نمائش کنندگان کی انٹرسٹائل شنگھائی ایکسپومیں شرکت
  • ہونیاں اور انہونیاں
  •  اب سزاؤں کا اتوار بازار ختم ہونا چاہیے، نفرتوں سے حکومت کرنے سے پاکستان کا نقصان ہوگا:چیئرمین پی ٹی  آئی
  • تحریک انصاف اب کھل کر اپوزیشن کرے ورنہ سیاسی قبریں تیار ہوں گی، عمران خان
  • سزاؤں کا اتوار بازار ختم ہونا چاہیے، نفرتوں سے پاکستان کا نقصان ہوگا: بیرسٹر گوہر
  • 200 روپے والے پرائز بانڈ کی قرعہ اندازی کے نتائج کا اعلان
  • سعودی ولیعہد سے علی لاریجانی کی ملاقات
  • وفاقی وزیر برائے آبی وسائل کی سیلابی صورتحال پر بریفنگ
  • لاہور: تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا دیگر کے ساتھ پریس کانفرنس کر رہے ہیں
  •  ملکی تاریخ کی پہلی قومی انسداد سرویکل کینسر مہم کا آغاز