Express News:
2025-09-18@19:09:13 GMT

فلسفۂ قربانی اور عصرِ جدید

اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT

مفہوم: ’’بے شک! ( اے حبیبؐ) ہم نے آپؐ کو خیر کثیر عطا فرمایا۔ پس اپنے رب کے لیے نماز ادا کیجیے اور قربانی دیجیے۔ بے شک! آپؐ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہے۔‘‘

ذی الحج کا مہینہ آنے سے قبل ہی عید قرباں اور قربانی کا غلغلہ مچ جا تا ہے۔ لاکھوں خوش نصیب بارگاہ ایزدی میں فریضۂ حج کی ادائی کے لیے اطراف و اکناف عالم سے کشاں کشاں مکہ مکرمہ کھنچے چلے جاتے ہیں، تاہم کروڑوں مسلمان جو بہ وجوہ وہاں نہیں پہنچ پاتے، وہ اپنی ایمانی و روحانی تسکین کے حصول کے لیے سنّت مصطفوی ﷺ کی پیروی کر تے ہوئے اس عظیم واقعے کی یاد تازہ رکھتے اور انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ ہر سال جانوروں کی قربانی کر تے ہیں، تاکہ سیدنا ابراہیم اور ان کے عظیم فرزند سیدنا اسمٰعیل علیہم السلام اور آپؑ کے خانوادے کی رضائے الٰہی کے لیے کی گئی عظیم قربانی کی یاد گار ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے۔

امام کائنات ﷺ کی بعثت مبارکہ سے قبل بھی یہ عمل ادا کیا جاتا رہا، بل کہ قرآن مجید کے مطابق ابتدائے انسانیت سے ہی یہ پاکیزہ جذبہ موجود ہے۔ البتہ اس جذبۂ قربانی کو اگر جِلا ملی تو محبوب رب العالمین ﷺ کے ورود مسعود اور امت مسلمہ کے برپا کیے جانے کے بعد ملی اور قیامت تک یہ سنت ابراہیمی اہل ایمان ادا کر تے رہیں گے۔

ہم اور ہمارے اسلاف صدیوں سے یہ عمل دہراتے آرہے ہیں تاہم آج جب کہ امت مسلمہ بے شمار مسائل کی گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، ایسے ماحول میں شدید ضرورت ہے کہ ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں جائزہ لیں کہ آیا اس عظیم عمل کی ادائی محض رسمی عبادت ہے اور اس کا مقصد صرف جانور ذبح کرنا اور گوشت کا حصول ہے یا اس عمل کے پس پردہ کار فرما رب تعالیٰ کو مطلوب مقاصد و حکمتیں ہیں۔

ذرا مشاہدہ کیجیے اور قرآن مجید و احادیث مبارکہ جن پر ہم نے جزدان سجا کر گرد و غبار کی موٹی تہیں جما رکھی ہیں، وہ کیا کہتی ہیں اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب ﷺ اور ان کی امت کو جو مقام شرف و عظمت عطا فرما یا ہے اس کے تقاضوں کے تحت شکر ربانی کے طور پر نماز اور قربانی کا حکم دیا گیا ہے، اﷲ تعالیٰ نے امام کائنات ﷺ کو جن بلندیوں و رفعتوں سے سر فراز فرمایا، انہیں امام الانبیاء، شفیع المذنبین اور رحمۃ اللعالمین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مناصب جلیلہ عطا فرمائے بل کہ ’’ وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَکَ‘‘ کہہ کر شان مصطفی ﷺ پر مہر تصدیق ثبت فرما دی کہ جب جب اور جہاں جہاں رب کی کبریائی ہے، وہاں وہاں میرے مصطفی ﷺ کی مصطفائی ہے۔

سبحان اﷲ! یہ مقام عظمت و بزرگی کسی پیغمبر کو حاصل نہ ہوسکا جب خالق کائنات نے اپنی نعمتوں کو اپنے محبوب پر اکمال و اتمام فرمایا تو شرط بھی عاید کردی کہ دنیا و آخرت میں ہم نے آپ ﷺ اور آپؐ کی امت کو سب سے بلندی عطا فرمائی تو شکر نعمت کا تقاضا ہے کہ اب آپ ﷺ اور آپؐ کی امت بھی اپنے رب کا حق ادا کریں اور اس کے لیے دو عمل بیان فرما دیے کہ ایک تو نماز قائم کریں اور دوسرے قربانی دیں۔

ہمارے معاشرے میں فریضۂ نماز کی ادائی کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے البتہ قربانی کے فریضے کا جائزہ لیں تو عجیب منظر دکھائی دیتا ہے۔ ہزاروں افراد مرد، خواتین یہاں تک کہ معصوم بچے اور بچیاں تک جانور کی تلاش میں دن بھر بل کہ رات رات بھر منڈیوں میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں اور نمازیں ضایع کر تے ہوئے ایک ایسے عمل میں منہمک رہتے ہیں جو یقیناً انتہائی محبوب و مستحسن ہے تاہم ایک ایسے فرض سے بے پرواہی جو کفر اسلام کا خط امتیاز ہے واجب یا مسنون عمل کی ادائی ہرگز اس کے مقابل نہیں ہو سکتا۔

قربانی نام ہے اپنی جان و مال سمیت فکر و نظریات، خواہشات، ضروریات، پسند ناپسند، خوشی غمی، حتیٰ کہ اہل و عیال اور عزیز ترین شے کو اپنے رب کی مرضیات کے مطابق ڈھال لینا اور ہر طرح کے ایثار کے لیے ذہنی، فکری، مالی، جسمانی رحجانات و میلانات کو سیرت مصطفی ﷺ کے مطابق ڈھال لینا۔ آئیے! بہ نظر عمیق خود احتسابی کی چھلنی سے اپنے آپ کو گزاریں۔ یقین جانیے صحیح تصویر سامنے آجائے گی کہ آیا ہم زبانی کلامی یا بعض نمائشی اقدامات کے ذریعے بہ زعم خود کسی پندار میں الجھے ہوئے ہیں یا واقعی ہم قربانی کی روح اور فلسفے سے آشنا ہوکر اپنے رب کے محبوب بندوں میں شمار ہو تے ہیں۔ اصولی بات ہے کہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔

عید الاضحیٰ اور قربانی کا سبق اہل ایمان کے لیے تو یہ ہے کہ ہر طرح کی عبادت و ریاضت کا مقصود و مطلوب خالق کائنات کی خالص بندگی اور رضا مندی حاصل ہوجائے۔ یقیناً قربانی بھی انھی اعمال میں سے ایک ہے، اگر یہ عمل خالصتاً اﷲ کے لیے ہے اور اس میں کسی قسم کی ریا کاری دکھا وا یا آج کل جیسا کہ رجحان بن چکا ہے، خاندان، برادری، محلے یا معاشرے میں مسابقت اور نمود و نمائش ہے تو پھر جان لیجیے کہ رب تعالیٰ کو ایسی قربانیوں کی ضرورت نہیں۔

ارشاد الٰہی کا مفہوم ہے: ’’اﷲ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے اور نہ ہی ان کے خون، بل کہ اسے (یعنی اﷲ تعالیٰ کو) تو تمہارے دلوں کی پرہیزگاری (یعنی تقویٰ) پہنچتا ہے۔ اسی طرح اﷲ نے ان جانوروں کو تمہارا مطیع کردیا ہے کہ تم اس کو (یعنی اﷲ تعالیٰ کی عطا کر دہ) ہدایت کے شکریے میں اس کی کبریائی بیان کر و اور (اے میرے حبیب ﷺ) نیک لوگوں کو (جنت و رضائے الٰہی) کی خوش خبری سنا دیجیے۔‘‘ (سورۃ الحج)

اب پتا چلا کہ ہمارا رب ہم سے کیا چاہتا ہے۔ آج امت مسلمہ کی زبوں حالی، بالخصوص ہماری قومی، معاشی، اقتصادی، دفاعی، تعلیمی پس ماندگی اس بات کی متقاضی ہے کہ ہر فرد اپنی صلاحیتوں کے مطابق جذبۂ قربانی کو بیدار کر ے اگر آپ کے مالی وسائل نہیں اور قرض کی ادائی بھی ممکن نہیں تو آپ قربانی کے مکلف نہیں ہیں، البتہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دیگر نعمتوں آپ مثلاً علم و ہنر، معاملہ فہمی، شعور و ادراک یا جسمانی، ذہنی اور فکری صلاحیتوں سے سر فراز فرمایا ہے تو اب آپ کی قربانی و ایثار یہ ہے کہ دین متین اور امت مسلمہ کی سربلندی و ترقی کے لیے اپنی صلاحیتوں سے ایثار و قربانی کے جذبے کے تحت جو نمایاں خدمات سر انجام دے سکتے ہوں، تو ضرور دیجیے۔

یہی قربانی کا فلسفہ ہے کہ جہاں ایک طرف اہل اسلام اپنے اندر انقلابی تبدیلیاں لاتے ہوئے منکرات سے بچ کر معروفات پر کماحقہ عمل پیرا ہوں، وہیں سنت ابراہیمی کی روشنی میں نفس امارہ کے منہ زور گھوڑے کو اﷲ و رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی، خود غرضی، بے حسی، کفار کی نقالی، تہذیبی اقدار کی پامالی، معاشرتی بے اعتدالی، ملی و ملکی عزت و حرمت کے منافی امور سے اجتناب، جھوٹ، ملاوٹ، خیانت، بددیانتی، نسلی، لسانی، علاقائی تفاخر کے بہ جائے اسلام کو وجۂ افتخار بنانے اور ظلم، زیادتی، کرپشن، رشوت لوٹ کھسوٹ اور تمام تر انفرادی و اجتماعی گناہوں سے استغفار و اصلاح نفس کے ساتھ پوری امت کی اصلاح و خیر خواہی کے جذبے کو بیدار کیا جائے اور اس کے عملی اظہار کی خاطر مضبوط جماعتی زندگی کی استواری ہو تو یقیناً ہم قربانی کے فلسفے کو سمجھ پائیں اور دنیا و آخرت کی کام رانیوں سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔

آئیے! اس موقع پر ہم اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے کتاب و سنّت سے راہ نمائی حاصل کریں اور قربانی کا درس دیں۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم: (اے میرے حبیب ﷺ) ’’آپ فرما دیجیے کہ بے شک! میری نماز میری قربانی (ساری عبادتیں) اور میرا جینا اور میرا مرنا سب خالصتاً اﷲ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں (نہ ذات میں نہ صفات میں) اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے ماننے والوں میں سے ہوں۔‘‘ (سورۃ الانعام)

اﷲ تعالیٰ اپنے پیارے پیغمبر ﷺ کی زبانی فلسفۂ قربانی بل کہ تمام تر عبادات نماز، روزہ، حج، قربانی، زکوٰۃ و صدقات وغیرہ کی غرض و غایت اور روح یہ ہے کہ ہر عمل خالص رضائے الٰہی کے حصول اور تطہیر نفس کے ساتھ اعتقادی، انفرادی و اجتماعی زندگی میں انقلاب برپا ہو اور مسلم معاشرہ باہمی رواداری، خیر خواہی اور انسانی ہم دردی پر مبنی ہو، جس میں ہر خاص و عام کے بنیادی حقوق محفوظ ہوں۔ ایسا مثالی معاشرہ ضبط نفس اور ایثار و قربانی کے بغیر ممکن نہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور قربانی کا قربانی کے اﷲ تعالی کے مطابق کی ادائی اپنے رب کے لیے اور اس تے ہیں اور ان

پڑھیں:

مسلمان مقبوضہ مشرقی یروشلم پر اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے،ترک صدر

ترک صدر رجب طیب اردوان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مشرقی یروشلم پر بطور مسلمان اپنے حقوق سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
اردوان نے یہ بات دارالحکومت انقرہ میں ترکی کی وزارت خارجہ کی نئی عمارت کے سنگ بنیاد کی تقریب میں کہی۔
اردوان نے غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ ترکی کی یکجہتی کا اعادہ کیا اور عہد کیا ہے کہ مسلمان مقبوضہ مشرقی یروشلم پر اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
ترک رہنما نے غزہ کے لیے اپنے ملک کی حمایت پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ “ہمیں غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑے ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا جو اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم آج اور کل ان لوگوں کے خلاف ڈٹے رہیں گے جو ہمارے خطے کو خون کے سمندر میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور جو ہمارے جغرافیہ میں عدم استحکام کو ہوا دیتے ہیں۔
قطر میں ایک ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے بعد واپسی پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، اروان نے فلسطینی ریاست کا مسئلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دوبارہ اٹھانے کا وعدہ کیا۔
دوحا میں عرب اسلامی کے ہنگامی سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ اسرائیل پر معاشی دباؤ ڈالنا ہو گا ماضی نے ثابت کیا دباؤ مؤثر ہوتا ہے۔
صدر اردوان نے گذشتہ ہفتے قطر میں حماس کی مذاکراتی ٹیم پر اسرائیل کے حملے پر اسرائیلی وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ “نظریاتی طور پر نیتن یاہو ہٹلر کے رشتہ دار کی طرح ہیں”۔
اروان اس سے قبل نیتن یاہو کا ہٹلر سے موازنہ کر چکے ہیں اور اسرائیلی حکومت کو “قتل کا نیٹ ورک” کہہ چکے ہیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں “فرنٹ آف انسانیت” فلسطین کے لیے وسیع تر حمایت حاصل کرے گا۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • یوٹیوب پر نماز روزے کی بات کرتی ہوں تو لوگ حمائمہ کا نام لیتے ہیں، دعا ملک
  • شہید ارتضیٰ عباس کو خراجِ عقیدت؛ معرکۂ حق میں عظیم قربانی کی داستان
  • مسلمان مقبوضہ مشرقی یروشلم پر اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے،ترک صدر
  • خلیفۃ الارض کی ذمہ داریاں ادا کرنے کےلئے ہمیں خود کو قرآن وسنت سے جوڑنا ہوگا،معرفت کا راستہ علم کےذریعے طے کیا جاسکتا ہے،وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اپنے ہی ساتھیوں پر برس پڑے
  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ
  •  یہ دن قربانی اور جدوجہد کی  یاد دلاتا ہے‘ناصر شاہ