انسان اور شیطان دو بالکل مختلف مخلوقات ہیں، ایک مٹی سے بنی ہے تو دوسرے کا وجود آگ پر مبنی ہے، مٹی اور آگ دونوں کا بظاہر کوئی آپسی رشتہ یا تعلق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود مٹی سے تخلیق ہوا انسان اپنے اندر آگ سے خلق ہوئے شیطان کا روپ دھارنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا انسان کو پیدا کرنے کے بیشمار مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ’’ وہ بڑی ذات‘‘ انسان کو اُس کی ذات سے منسلک تمام اختیارات سونپ کر دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ شاکر بنتا ہے یا پھر بہک جاتا ہے۔
انسان کا انسان بنے رہنا دراصل اُس کی پیدائش سے تادمِ مرگ ایک مسلسل امتحان ہے اور یہ امتحان قطعی بچوں کا کھیل، تماشہ نہیں ہے۔ ربِ الٰہی کے پاس ’’ اُس‘‘ کی حمد و ثنا اور کبریائی بیان کرنے کے لیے بہتیرے فرشتے موجود تھے جب کہ انسان کو اس لیے خلق کیا گیا تھا کہ اُس پر وقتاً فوقتاً آزمائشیں ڈال کر اُس کے وجود میں توکل و ایمان کے پیمانے کو جانچا جاسکے۔
اس حوالے سے قرآنِ مجید میں سورۃ العنکبوت میں فرمانِ خداوندی ہے، ’’ کیا لوگ یہ خیال کیے ہوئے ہیں کہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیے جائیں گے اور اُن کی آزمائش نہیں کی جائے گی۔ اور جو لوگ اُن سے پہلے ہوچکے ہیں ہم نے اُن کو بھی آزمایا تھا ( اور ان کو بھی آزمائیں گے ) سو خدا اُن کو ضرور معلوم کرے گا جو (اپنے ایمان میں) سچے ہیں اور اُن کو بھی جو جھوٹے ہیں۔‘‘
یہ ایک فطری بات ہے کہ جو مقام جتنا اونچا ہوتا ہے اُس کو قائم رکھنا اُتنا ہی کٹھن ہوتا ہے، انسان کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوا، مقام اعلیٰ ملا تو اُس کو سنبھالے رکھنے کے لیے سخت آزمائشوں سے گزرنا بھی ضروری ٹھہرا۔ اللہ تعالیٰ کی ہر بات میں حکمت و دانائی پوشیدہ ہوتی ہے جسے رب کے محبوب بندے ڈھونڈ ہی لیتے ہیں اور جو نہیں ڈھونڈ پاتے وہ ہمیشہ گھاٹے میں ہی رہنے والے ہیں، تخلیق کا خالق سے رشتہ مضبوط ہو تو وہ بھٹکتا ہے نہ بہکتا ہے اور بالفرض وہ کچھ دیرکے لیے قدرت کے منافی چلا بھی جائے تو واپس لوٹنے میں دیر نہیں کرتا۔
شیطان کا موجود ہونا انسان کا انسان رہنے کے لیے ضروری تھا، وہ محض امتحان کا ذریعہ تھا مگر یہیں بندے سے چُوک ہوگئی جس شر سے ایمان کی جنگ جیت کر اُسے غازی بننا تھا اُسی کا آلہ کار بن بیٹھا اور دنیا میں شرانگیزی پھیلانے لگا۔انسانی تاریخ شیطان کا لبادہ اوڑھے انسانوں سے بھری پڑی ہے مگر ماضی میں برائی کو برائی ہی تصور کیا جاتا تھا اور بد انسان بدنام تھا۔
اس حوالے سے موجودہ دور انتہائی بد ترین ہے۔ آپ اپنے اطراف کا مشاہدہ کریں تو معلوم ہوگا کہ کون، کہاں اور کس طرح انسانیت کو خیرآباد کہہ کر شیطانیت اختیار کر رہا ہے، انسان کو کیسا بنایا تھا اور وہ کیا بن بیٹھا ہے۔ برائی سے منسوب شیطان کی ذات جب پہلے سے موجود تھی تو انسان اُس کی جگہ لینے پر کیوں بضد ہوگیا ہے۔
موجودہ زمانے میں انسان جس رفتار سے آگے کی جانب رواں دواں ہے وہ اپنے شانہ بشانہ چلانے کے لیے انسان کو بھٹکنے اور بہکنے کے مواقعے بھی گزرے وقتوں کے مقابلے میں کثیر تعداد میں مہیا کررہا ہے۔انسان جب اس جہانِ فانی میں اپنی آنکھ کھولتا ہے تب وہ ایک صاف سلیٹ کی مانند ہوتا ہے۔
اُس کا قلب پُرنور اور اُس کی روح شفاف ہوتی ہے لیکن جیسے جیسے وہ اپنی عمرکی سیڑھی پر چڑھتا ہے، اس دنیا کے سیاہ و سفید اُس پر نہ صرف عیاں ہونے لگتے ہیں بلکہ ساتھ ہی اُن کے عارضی و دائمی فوائد اور نقصانات بھی اُسے واضح طور پر نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں، ان سب باتوں کے باوجود انسان اپنے لیے صحیح اور غلط میں سے جس راستے کا انتخاب کرتا ہے وہ محض اُس کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے کسی دوسرے کا کوئی دخل اس امر میں قطعی معنی نہیں رکھتا ہے۔
انسان کے پاؤں جب تک زمین پر رہتے ہیں وہ بندہ بے ضرر بنا ہوا رہتا ہے لیکن جیسے ہی اُس پر طاقت، اختیار اور حکمرانی کا نشہ چڑھتا ہے وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور ہمہ وقت اپنے گمان کی فضاؤں میں اُڑان بھرتا رہتا ہے یہاں تک کہ زمین پر پاؤں رکھنا وہ اپنی توہین سمجھنے لگتا ہے۔ اسی بات کی مناسبت سے ہمارے دیسی معاشروں کے بڑے بزرگ کہا کرتے ہیں،’’ اَوقات سے زیادہ ملی ہوئی شے کم ظرف انسان کو راس نہیں آتی ہے۔‘‘ ماضی میں گزرے ہمارے ملک کے نامور صوفی شاعر حضرت واصف علی واصف کم ظرف انسانوں کو اپنے شاعرانہ انداز میں کچھ اس طرح نصیحت فرماتے ہیں،
’’ اتنا پھیلو کہ سمٹنا مشکل نہ ہو، اتنا حاصل کرو کہ چھوڑنا مشکل نہ ہو۔‘‘
جب کسی انسان کے اندر ہوس و لالچ کا جرثومہ پیدا ہو جائے تو یہ اُس کی ذات کے حوالے سے ایک انتہائی تشویشناک بات ہے کیونکہ اس کا اگلا مرحلہ بے حسی ہے جو انسان کا شیطان بننے کی جانب بنیادی قدم تصورکیا جاتا ہے۔ ہوس و لالچ کئی طرح کی ہوتی ہے لیکن سب سے زیادہ خطرناک پیسے کی ہوس و لالچ ہے جو ہر سنگین برائی اور گناہ کے ارتکاب کا آغاز بنتی ہے۔
دراصل انسان کی کھال میں موجود انسان پیسہ کماتے ہیں جب کہ شیطان کا لبادہ اوڑھے انسان پیسہ ہڑپتے ہیں اور کوئی بھی شے ہڑپی ناجائز اور غیر اخلاقی طریقوں سے ہی جاتی ہے۔بے حسی کے بعد جو اگلی برائی انسانی وجود سے چمٹتی ہے وہ انا پرستی ہے جس کے بعد انسان اخلاقی اعتبار سے بالکل اندھا ہو جاتا ہے اور یہی اندھا پن اچھائی و برائی، صحیح و غلط، جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی تفریق کو اُس کی نظروں سے اوجھل کردیتا ہے۔
ان سب گند و غلاظت میں ڈوب جانے کے بعد انسان اپنی ذات کی برملا نفی کر کے شیطان بن بیٹھتا ہے اور مزے کی بات اپنی اس بھیانک منتقلی سے وہ خود پوری طرح آگاہ ہوتا ہے لیکن اپنے جسم کے رواں رواں سے اس کو تسلیم کرنے میں اتنا وقت لگا دیتا ہے کہ اُس کے واپس انسان بننے، خالق کے اُس کو انسان ماننے اور اُس کے لوٹ کر آنے کے تمام در بند ہو جاتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انسان کو انسان کا شیطان کا ہوتا ہے ہے لیکن جاتا ہے ہے اور کے لیے
پڑھیں:
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا لیہ میں میڈیکل کالج بنانے کا اعلان
لیہ: وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لیہ میں فوری میڈیکل کالج کی تعمیر کا اعلان کر دیا۔
لیہ میں ہونہار سکالرشپ اور لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ انشااللہ لیہ میں میڈیکل کالج کی فوری تعمیر شروع ہوجائے گی، کوشش ہوتی ہے کوئی بچہ ٹیکنالوجی اورتعلیم سے محروم نہ رہے۔
مریم نواز نے کہا ہے کہ یہ میرا پہلا سال ہے، جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا مزید بہتری کرنے کی کوشش کروں گی، میں آپ بچوں کے سامنے جوابدہ ہوں، یہ آپ کا حق ہے جو ملا ہے اور یہ ملنا چاہیے تھا، کبھی آپ نے میرا شکریہ ادا نہیں کرنا یہ آپ کا حق تھا۔
“ریاست ماں نہیں بنتی تو اپنے فرائض میں غفلت برتتی ہے”
انہوں نے کہا ہے کہ میں نے 30 ہزار سکالرشپس کو بڑھا کر 50 ہزار کردیا ہے، ہر سال 30 ہزار لیپ ٹاپس سے بڑھا کر ایک لاکھ لیپ ٹاپس کر دیئے ہیں، چاہتی ہوں آپ کو کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے، ریاست ماں نہیں بنتی تو وہ اپنے فرائض میں غفلت برتتی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ ایک ماں چاہتی ہے اپنا سب کچھ اپنے بچوں کی جھولی میں ڈال دوں، دل کرتا ہے جو کچھ میرے پاس ہے سب آپ کے سامنے رکھ دوں، جس طرح میں اپنے بچوں کی کامیابی پر خوش ہوتی ہوں ویسے ہی آپ کی کامیابی پر خوش ہوئی ہوں، مجھے رلانا اتنا آسان نہیں ہے، میں 2 بار قید تنہائی میں رہی لیکن کبھی روئی نہیں۔
مریم نواز نے کہا ہے کہ لیہ والوں سے جو مجھے پیار اور عزت ملی کبھی نہیں بھول سکتی، چھوٹا شہر ہی صحیح لیکن لیہ بھی میرے دل کے بہت قریب ہے، ڈی جی خان بھی میرے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ لاہور میں پاکستان کا پہلا سرکاری پری سکول بنایا ہے، پورے پاکستان میں کوئی پرائیویٹ سکول اتنا شاندار نہیں ہو گا، وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے بھی اپنے بچے کو اس سکول میں داخل کرایا۔
“اس سال محکمہ تعلیم کو 110 ارب روپے دیئے ہیں”
مریم نواز نے کہا ہے کہ اس سال محکمہ تعلیم کو 110 ارب روپے دیئے ہیں، میرے پاس پنجاب میں 50 ہزار سکول ہیں، وزیر تعلیم رانا سکندر حیات کو شاباش دینا چاہتی ہوں، لیہ یونیورسٹی کیلئے ڈیڑھ ارب روپے مختص کیے ہیں، ڈی جی خان یونیورسٹی کیلئے بھی ڈیڑھ ارب روپے مختص کیے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ جو آپ کے گھروں، روٹی، سبزی، بجلی کی قیمتوں کیلئے فکر مند ہے وہ آپ کا ہمدرد ہے، جو نفرت کے بیج بوتا ہے وہ قوم کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ جس نے ملک کیلئے خدمات دیں وہ سب ہمارے ہیرو ہیں، جنہوں نے وردی کو جلایا انہوں نے قوم کے وقار اور طاقت کو جلایا، آج وہی وردی پہنے قوم کے جوان بیٹے سرحدوں پر شہید ہوئے، اب آپ کے ملک کو کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا، ہم فیلڈ مارشل عاصم منیر، ایئر چیف اور تمام جوانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
مریم نواز نے کہا ہے کہ کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں، 10 مئی کو سب پتہ چل گیا، جو قومیں شہیدوں کی تنصیبات کو روندیں وہ کچرے کے ڈھیر میں جاگرتی ہیں، نواز شریف نے 28 مئی 1998 کو پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا، آپ نے جو 10 مئی کو جنگ جیتی پتہ چل گیا کس نے کیا کیا، 10 مئی کو جنگ جیت کر سب کو پتہ چل گیا 9 مئی اور 28 مئی کو کس نے کیا کیا۔
“باتوں میں آنے والے جیلوں میں پڑے ہیں، وکیل کرنے کے پیسے تک نہیں”
ان کا کہنا تھا کہ موٹروے، دفاعی تنصیبات، سڑکیں سب آپ کی اپنی ہیں، آپ نے کسی کی منفی باتوں میں نہیں آنا، آج جو باتوں میں آ گئے وہ جیلوں میں پڑے ہیں، جو جیل میں ہیں ان کے پاس اپنا وکیل کرنے کے پیسے تک نہیں ہیں، آپ نے اپنے ملک کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھانا، کوئی کہے آگ لگادو، توڑ دو آپ نے یہ نہیں کرنا۔
مریم نواز نے آخر میں یہ بھی کہا ہے کہ جب قوم بنیان مرصوص بن جائے تو دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہرا سکتی، تمام بچے پاکستان کیلئے بنیان مرصوص بنیں، بنیان مرصوص کا مطلب سیسہ پلائی دیوار ہے، پاکستان نے ایک چھوٹا ملک ہونے کے باجود بھارت سے جنگ جیتی ہے۔
Post Views: 1