اسرائیلی جارحیت اور جنگل کا قانون
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں شدت آگئی ہے اور دونوں ممالک نے رات بھر ایک دوسرے پر حملے جاری رکھے۔ اسرائیلی حکام نے عندیہ دیا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای پر حملے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ ’’ایران پر اسرائیل کے حملے امریکی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھے۔‘‘
درحقیقت اس پوری صورتحال نے عالمی اداروں کی حیثیت کو ایک بار پھر بے نقاب کردیا ہے۔ اقوام متحدہ، IAEA، OIC یا دیگر عالمی ادارے اس سطح کے تنازعے کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اگر طاقتور ممالک چاہیں تو عالمی قوانین کو نظر انداز کر کے کمزور پر حملہ کر سکتے ہیں، یعنی ایک طرح سے جنگل کا قانون نافذ ہو چکا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری فضائی حملے اور اہم فوجی و بنیادی ڈھانچے پر حملوں کے نتیجے میں عالمی معیشت کو ایک بڑے جھٹکے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ برینٹ خام تیل کی قیمت میں اچانک اضافہ ہوا ہے اور یہ 83 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کرگئی ہے، جب کہ ٹوکیو سے لندن تک اسٹاک مارکیٹس میں نمایاں گراؤٹ دیکھی گئی ہے۔
امریکا میں بھی اسٹاک مارکیٹ کے بڑے انڈیکس، جیسے ڈاؤ جونز اور نیسڈیک، مندی کا شکار ہو گئے ہیں۔ سونے کی قیمت، جو مشکل وقت میں محفوظ سرمایہ سمجھا جاتا ہے، ریکارڈ سطح کے قریب پہنچ گئی ہے۔ دوسری جانب ہوائی کمپنیوں کے شیئرز میں بھی زبردست کمی آئی ہے اور مشرق وسطیٰ کی کئی پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔
ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ اگر یہ بحران جاری رہا، تو عالمی مہنگائی میں اضافہ، ترقی کی رفتار میں کمی اور خاص طور پر یورپ و ایشیا میں معاشی جمود کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ ایران عالمی معیشت میں 1.
اسرائیلی حملہ بظاہر emptive strike preکی پالیسی کے تحت کیا گیا، یعنی ایران کو اس سے پہلے روکا جائے کہ وہ جوہری ریاست بن جائے۔ اب اسرائیل نے حالیہ بیانات میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ یہ حملے اس وقت تک جاری رہیں گے، جب تک ایران کی عسکری طاقت مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتی۔
سچ تو یہ ہے یہ سب کچھ امریکا کی آشیر آباد سے ہوا ہے، جس نے اس بار اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہوئے اسے ہلہ شیری دی ہے کہ وہ ایران پر چڑھ دوڑھے، یعنی طاقتور ممالک جب چاہیں کسی بھی کمزور ملک پر حملہ کردیں ان پرکوئی بھی بین الاقوامی ضابطہ یا اصول لاگو نہیں ہوگا، امریکا پہلے ہی اسی پالیسی کے سلوگن کے تحت عراق کو تباہ و برباد کرچکا ہے کہ وہاں جوہری ہتھیار ہیں لیکن بعد ازاں یہ بات جھوٹ ثبوت ہوئی لیکن امریکا نے کوئی معذرت آج کے دن تک نہیں کی۔
اسی طرح افغانستان پر امریکا نے حملہ کیا اور نیٹو کے ساتھ مل کر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے۔ سیدھی سی بات ہے، دنیا میں جنگل کا قانون نافذکرنے میں امریکا کا انتہائی منفی کردار ہے، امریکا ایک طرف ایران پر اسرائیل کو شہ دے کر جارحیت کرواتا ہے، دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ الٹا ایران کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ ادھر عرب دنیا، خاص طور پر سعودی عرب، اس ساری صورتحال میں غیر معمولی حد تک محتاط رویہ اختیارکیے ہوئے ہے۔
فلسطین، لبنان، شام اور اب ایران جیسے ممالک اسرائیلی حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں اور اب سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا خطے میں کوئی بھی اسلامی ملک اسرائیلی جارحیت سے محفوظ ہے؟ اگر عرب دنیا خاموش تماشائی بنی رہی، تو ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ جیسا نظریہ محض ایک خواب نہیں بلکہ حقیقت بننے کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ علاقائی اتحاد کی شدید کمی نے اسرائیل کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو ایک ایک کر کے نشانہ بنائے۔
چین اس تمام تر معاملے کو بغور دیکھ رہا ہے۔ چین کی ایران میں اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری ہے، خاص طور پر توانائی اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں میں۔ لیکن ساتھ ہی چین امریکا اور اسرائیل سے براہ راست تصادم سے گریزکرنا چاہتا ہے۔ چین نے اسرائیلی حملے پر تشویش کا اظہار ضرورکیا، مگر عملی طور پر ابھی تک کوئی جارحانہ سفارتی قدم نہیں اٹھایا۔ اس تناظر میں اسرائیل اور امریکا کی شراکت داری چین کی خطے میں موجودگی کے لیے بھی چیلنج بنتی جا رہی ہے۔
جنگی ٹیکنالوجی اس تنازعے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ ایران نے حالیہ برسوں میں بیلسٹک میزائلز، ڈرونز اور سائبر ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ ترقی کی ہے، لیکن اسرائیل کی ٹیکنالوجی، خاص طور پر امریکی حمایت یافتہ دفاعی نظام جیسے آئرن ڈوم، F-35 جنگی طیارے اور مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹارگٹنگ، کہیں زیادہ برتر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید دورکی جنگ میں صرف ہمت یا تعداد نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کی برتری فتح کا تعین کرتی ہے۔
کچھ مبصرین کا ماننا ہے کہ ایران کو چین، روس اور شمالی کوریا کی حمایت حاصل ہے اور اگر کشیدگی جاری رہی تو ایک نیا عالمی بلاک سامنے آ سکتا ہے۔ یہ بلاک مغربی طاقتوں کے خلاف کھڑا ہو سکتا ہے، جس سے عالمی سطح پر صف بندی ہو گی، اگر اس صف بندی نے باقاعدہ عسکری صورت اختیار کی تو تیسری عالمی جنگ کا خطرہ بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اسرائیل کے حملے میں ایرانی جنرلز اور نیوکلیئر سائنسدانوں کی بڑی تعداد ماری گئی ہے۔ یہ انٹیلیجنس ناکامی کا ثبوت ہے کہ ایرانی حکام بروقت اپنی حساس شخصیات کو محفوظ نہیں بنا سکے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو حملے کی ٹائمنگ اور طریقہ کار ایرانی انٹیلیجنس کے اندازوں سے مختلف تھا یا ان کے پاس محدود وسائل تھے اپنی قیادت کو انڈر گراؤنڈ کرنے کے لیے۔ اس تنازع کا سب سے فوری اثر تیل کی قیمتوں پر پڑا ہے۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دنیا جو پہلے ہی روس، یوکرین جنگ کے اثرات اور خوراک کی مہنگائی سے نبرد آزما ہے، اب ایران، اسرائیل تنازع کے اثرات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ اگر صورتحال مزید بگڑتی ہے، تو عالمی معاشی بحالی ایک بار پھر شدید خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے۔
امریکا اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کا چھٹا دور منعقد ہونے جا رہا تھا، جس سے دو دن قبل اسرائیل کی جانب سے ایران پر بھرپور حملہ بین الاقوامی حلقوں میں شدید سوالات کو جنم دے چکا ہے۔ اس حملے کا وقت انتہائی معنی خیز ہے، کیونکہ اسرائیل نے اس موقع کو چن کر واضح پیغام دیا کہ وہ ایران کے جوہری عزائم کو صرف سفارتی عمل سے روکنے پر مطمئن نہیں بلکہ وہ ان عزائم کے خلاف فوجی کارروائی کو بھی جواز سمجھتا ہے۔ اسرائیل کے بقول، ایران ’’ جوہری بم بنانے کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے‘‘ اور یہی بنیاد ہے جس پر وہ ان حملوں کو دفاعی قدم قرار دیتا ہے۔
بین الاقوامی ایجنسی برائے جوہری توانائی رپورٹ کے مطابق ایران کے پاس 60 فیصد تک افزودہ یورینیم موجود ہے، جب کہ جوہری ہتھیار کے لیے درکار سطح 90 فیصد ہے۔ ماہرین کے مطابق، ایران محض چند ہفتوں میں ایک بم بنانے کے قابل ہو سکتا ہے، اگر اس نے سیاسی فیصلہ کر لیا ہے۔ اسرائیل کے انٹیلیجنس ذرایع کا بھی یہی دعویٰ ہے، کہ ’’اب وقت ختم ہو چکا ہے۔‘‘ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے جہاں مشرق وسطیٰ میں سلامتی کی صورتحال کو خطرے میں ڈال دیا ہے، وہیں عالمی معاشی بحران کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔
ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیلی جارحیت نہ روکی گئی تو وہ آبنائے ہرمز کو ہر قسم کی بحری آمدورفت کے لیے بند کر سکتا ہے۔ ایرانی حکام کے اس اعلان کے بعد عالمی منڈیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، کیونکہ آبنائے ہرمز دنیا کی سب سے اہم اور حساس آبی گزرگاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ آبی راستہ خلیج فارس کو خلیج عمان اور بحر ہند سے ملاتا ہے اور ایران و عمان کے درمیان واقع ہے۔ محض انتالیس کلومیٹر چوڑی یہ تنگ آبی پٹی روزانہ سترہ سے بیس ملین بیرل تیل کی ترسیل کا ذریعہ ہے۔ یہ گزرگاہ سعودی عرب، ایران، عراق، کویت، قطر، بحرین اور متحدہ عرب امارات جیسے اہم تیل پیدا کرنے والے ممالک کی عالمی منڈیوں تک رسائی کا واحد اور کلیدی ذریعہ ہے۔
دنیا کے تقریباً 20 فیصد خام تیل کی نقل و حمل اسی راستے سے ہوتی ہے، اگر آبنائے ہرمز بند ہو گئی تو تیل اور گیس کی عالمی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے نہ صرف ایندھن مہنگا ہوگا بلکہ اشیائے خورونوش سے لے کر صنعتی پیداوار تک ہر شعبہ متاثر ہوگا۔ اس کے اثرات دنیا بھر کی معیشتوں پر براہِ راست مرتب ہوں گے۔ ایران ماضی میں بھی متعدد بار خبردار کر چکا ہے کہ اگر اس پر اقتصادی پابندیاں برقرار رہیں یا جنگ کا خطرہ پیدا ہوا تو وہ اس آبی راستے کو بند کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی طاقتیں پہلے ہی اس علاقے میں بحری افواج تعینات کیے ہوئے ہیں تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے کی صورت میں تجارتی نقل و حمل کو محفوظ بنایا جا سکے۔ دراصل آبنائے ہرمز محض ایک آبی گزرگاہ نہیں بلکہ توانائی کی عالمی شہ رَگ ہے، جس کی سلامتی اور کھلا رہنا عالمی معیشت کے لیے ناگزیر ہے۔ بین الاقوامی برادری پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خطے میں امن و استحکام کے لیے مشترکہ اور مؤثر اقدامات کرے تاکہ دنیا ایک نئے معاشی بحران سے بچ سکے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی اور اسرائیل اسرائیل کے نہیں بلکہ کے درمیان ہے کہ اگر ایران پر ایران کے ہے کہ وہ سکتا ہے اگر اس کے لیے گئی ہے تیل کی چکا ہے دیا ہے
پڑھیں:
ایران پر اسرائیلی جارحیت کیخلاف ہر عالمی فورم پر آواز بلند کریں گے، رانا تنویر حسین
پاکستان کے وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرکے اپنا پیغام موقف دنیا پر واضح کر دیا ہے، اسرائیل مشرق وسطیٰ میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کی خاطر ایک عرصہ سے مسلمانوں کو جارحیت کا نشانہ بنا رہا ہے، جس کی فوجی کارروائیوں سے کوئی ہمسایہ ملک محفوظ نہیں اور اب ایران پر حملہ کرکے اس نے جنوبی ایشاء میں بھی اپنی جارحیت کو وسعت دی ہے جو ناقابل قبول ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار و نیشنل فوڈ سکیورٹی رانا تنویر حسین نے اسرائیل کے ایران پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور عوام نے اس حملے کو کھلی جارحیت قرار دیا ہے جو ایران کی خود مختاری کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے، کوئی آزاد ریاست طاقت کے اس جابرانہ استعمال کی حمایت نہیں کر سکتی، ایران ہمارا پڑوسی برادر اسلامی ملک ہے، جس سے ہمارے مضبوط تعلقات ہیں، ہم اسرائیلی جارحیت کیخلاف ہر عالمی فورم پر آواز بلند کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرکے اپنا پیغام موقف دنیا پر واضح کر دیا ہے، اسرائیل مشرق وسطیٰ میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کی خاطر ایک عرصہ سے مسلمانوں کو جارحیت کا نشانہ بنا رہا ہے، جس کی فوجی کارروائیوں سے کوئی ہمسایہ ملک محفوظ نہیں اور اب ایران پر حملہ کرکے اس نے جنوبی ایشاء میں بھی اپنی جارحیت کو وسعت دی ہے جو ناقابل قبول ہے، جس کا عالمی برادری کو کڑا نوٹس لینا ہوگا۔ ایران کے ساتھ امریکہ کے جاری جوہری مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے دونوں اطراف سے کوششیں جاری تھیں جو تنازعات کے حل کا واحد مہذب طریقہ ہے مگر اسرائیل نے اس عمل کو سبوتاژ کرنے کی خاطر ایران پر حملہ کیا ہے جس کا جواب دینے کا ایران کو حق حاصل ہے۔