’پاکستانی ٹیلنٹ اور چینی ٹیکنالوجی ناقابلِ تسخیر دیوار ہیں‘: مشاہد حسین سید
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
پاک چین انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے پاکستانی ٹیلنٹ اور چینی ٹیکنالوجی کو جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام کےلیے ایک ناقابلِ شکست دیوار قرار دیا ہے۔
مشاہد حسین سید نے یہ بات پاکستان اور چین کے تعلقات کی مضبوطی اور مستقبل کی مشترکہ تعمیر کے موضوع پر اسلام آباد میں پاک-چین انسٹیٹیوٹ (PCI) کے زیرِ اہتمام اہم ڈائیلاگ کا انعقاد کے موقع پر کہی۔
’فرینڈز آف سلک روڈ‘ کے بینر تلے ہونے والے اس اجلاس میں سیاسی قائدین، سفارتکاروں، اراکینِ پارلیمنٹ، طلبہ، ماہرین اور چینی وفد نے شرکت کی۔ مکالمے کا موضوع تھا: ’’پاکستان اور چین کے درمیان باہمی تفہیم کو مضبوط بنانا اور ہمسایہ ممالک کے لیے مشترکہ مستقبل کی بنیاد رکھنا‘‘۔
اس موقع پر مقررین نے ’’آئرن برادرز‘‘ کے طو پر معروف پاکستان اور چین کے تاریخی تعلقات کو خراجِ تحسین پیش کیا اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کو امن، خوشحالی اور علاقائی رابطے کےلیے ایک طاقتور محرک قرار دیا۔
ڈائیلاگ میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے انٹرنیشنل ڈپارٹمنٹ (IDCPC) کا اعلیٰ سطحی پانچ رکنی وفد شریک ہوا جس کی قیادت ترجمان اور چیف آف انفارمیشن، سفیر ہو ژاؤ منگ نے کی۔
ڈائیلاگ کے آغاز میں PCI کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور مکالمے کے ناظم مصطفیٰ حیدر سید نے کہا کہ پاکستان اور چین کی دوستی صرف سفارتی یا مفاداتی نوعیت کی نہیں بلکہ یہ ایک تاریخی، اعتماد پر مبنی اور خطے کی مجموعی ترقی کے عزم سے جُڑی رفاقت ہے۔ انہوں نے سرد جنگ کے بیانیے کی واپسی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امریکی کانگریس کے ’’کاؤنٹرنگ پی آر سی انفلوئنس فنڈ‘‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا جو چینی اثرورسوخ کو محدود کرنے کے لیے اربوں ڈالر مختص کرتا ہے۔ ان کے مطابق یہ اقدام ترقی اور مکالمے کے بجائے ٹکراؤ کو ہوا دیتا ہے۔
چیئرمین PCI اور سینیٹر مشاہد حسین سید نے کلیدی خطاب میں کہا کہ ’’دنیا میں اقتصادی و سیاسی طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے، اور یہ ایشیائی صدی کی نوید ہے‘‘۔
انہوں نے چین کے پرامن ابھار کو ترقی پذیر اقوام کے لیے ایک حوصلہ افزا قوت قرار دیا اور بھارت کی حالیہ جارحیت کے دوران پاکستان کی حمایت پر چین کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستانی ٹیلنٹ اور چینی ٹیکنالوجی جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام کے لیے ایک ناقابلِ شکست دیوار ہیں‘‘۔
اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا اور سرد جنگ جیسے بیانیے کو مسترد کیا۔
چینی وفد کے سربراہ سفیر ہو ژاؤ منگ نے پاکستان کو چینی عوام کے دل میں ’’گہرائی سے نقش‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ’’چین اور پاکستان ایک سکے کے دو رخ ہیں، ایک کے بغیر دوسرا ممکن نہیں‘‘۔ BRI کی عالمی اہمیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 150 سے زائد ممالک اس میں شریک ہیں اور یہ منصوبہ نہ صرف چین کی داخلی ترقی بلکہ عالمی رابطے کا بھی ذریعہ ہے۔ انہوں نے نوجوان نسل پر زور دیا کہ وہ دوستی کے اس مشعلے کو روشن رکھیں۔
وزیرِ مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلی ڈاکٹر شذرہ منصب علی کھرل نے کہا کہ عالمی نظام واضح طور پر بکھر رہا ہے، جب کہ چین ریاستوں کے درمیان برابری، عدم مداخلت اور کثیر القطبیت کی وکالت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ BRI اس وژن کا عملی مظہر ہے جو معاشی روابط کو تصادم پر ترجیح دیتا ہے۔
سابق سیکرٹری خارجہ، سفیر اعزاز احمد چوہدری نے اس بات پر زور دیا کہ جب دنیا جنگوں اور قوانین کی شکست و ریخت کے دور سے گزر رہی ہے، صدر شی جن پنگ کا ’’ون-ون‘‘ اور باہمی احترام کا نظریہ ایک بہتر عالمی نظام کے لیے امید کی کرن ہے۔
وزیرِ مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ سی پیک کی کامیابی کے لیے سلامتی اور استحکام کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے سافٹ پاور کے ذریعے علاقائی زبانوں میں میڈیا کی توسیع، خصوصاً بلوچی زبان میں نشریات پر زور دیا تاکہ عوامی روابط کو فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے افغانستان کو بھی سی پیک میں شامل کرنے کی تجویز دی، جسے انہوں نے مشترکہ مستقبل کے وژن کا فطری تسلسل قرار دیا۔
اس اجلاس میں ملک بھر کی جامعات سے طلبہ، اسکالرز، میڈیا نمائندگان، تھنک ٹینکس اور سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والی چینی کمپنیوں کے نمائندے شریک تھے۔ اس موقع پر پاک-چین سافٹ پاور کو مشترکہ طور پر فروغ دینے کے لیے تجاویز بھی پیش کی گئیں اور آئندہ چین میں ہونے والی کانفرنسز اور تقریبات پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان پاکستان اور چین مشاہد حسین سید اور چین کے قرار دیا اور چینی لیے ایک کے لیے
پڑھیں:
گردشی قرضہ ختم کرنے کے اقدامات قابل تحسین ہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (کامرس رپورٹر )نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، ایف پی سی سی ائی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین اورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاورسیکٹرمیں گردشی قرضے کے خاتمے کے لیے حکومتی اقدامات قابلِ ستائش ہیں کیونکہ یہ مسئلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے معیشت، صنعت اورعوام کے لیے ایک مستقل خطرہ بنا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گردشی قرضہ نہ صرف توانائی پیدا کرنے والے اداروں کی مالی سکت کوکمزورکرتا ہے بلکہ بجلی کی ترسیل وتقسیم کے نظام کوبھی متاثرکرتا ہے۔ اس کی وجہ سے پاورسیکٹر میں سرمایہ کاری میں کمی آتی ہے اوربجلی کی پیداوار میں تسلسل برقراررکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی فیصلے، جن میں واجبات کی ادائیگیوں کے لیے بینکوں سے قرضوں کا حصول، بجلی چوری کی روک تھام، اور نادہندہ اداروں کے خلاف کارروائیاں شامل ہیں، ایک دیرپا اصلاحات کے آغاز کی علامت ہیں جنہیں مسلسل اورمؤثرطورپر جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاورسیکٹرکے مالیاتی مسائل کا حل ضروری ہے تاکہ بجلی کی لاگت میں استحکام آئے اورصنعتی شعبے کو سستی توانائی میسرہو، لیکن اس تمام عمل میں عوام کو قربانی کا سب سے بڑا ذریعہ بنانا مناسب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ گردشی قرضہ ختم کرنے کے لیے صرف ٹیرف میں اضافہ کرنا آسان لیکن کمزور پالیسی ہے جس سے عام آدمی اورکاروباری طبقہ دونوں متاثرہوتے ہیں جبکہ صنعتی لاگت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت کوچاہیے کہ وہ قیمتوں میں اضافے کے بجائے انتظامی اصلاحات پرتوجہ دے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی چوری، لائن لاسزاورناقص ترسیلی نظام جیسے مسائل گردشی قرضے کے بنیادی اسباب ہیں جن پرقابوپانے کے بغیرکوئی بھی مالی منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اگریہ مسائل اپنی جگہ برقراررہیں تو بینکوں کے قرضوں کی شکل میں عوام پربوجھ بڑھتا ہی جائے گا، جونہ معقول ہے نہ قابلِ قبول۔