پہلگام حملے کو جواز بنا کر جنگی جنون میں مبتلا بھارت نے پورے خطے کے امن کو خطرات سے دوچار کر دیا، سندھ طاس معاہدہ معطلی کے بعد اب بھارت نے بنگلا دیش سے گنگا معاہدے پر نظرثانی کا فیصلہ کر لیا۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ’’1996 کا بھارت بنگلا دیش گنگا معاہدہ 30 سال مکمل ہونے پر 2026 میں ختم ہونے والا ہے۔ گنگا معاہدے کی شق نمبر 12 کے مطابق اس معاہدے کی تجدید دونوں فریقین کی باہمی رضامندی سے کی جائے گی۔‘‘

گنگا معاہدے کے مطابق خشک موسم خصوصاً فرکا بیراج کے اطراف میں پانی کی تقسیم کو منصفانہ بنانا تھا، بھارت نے بنگلا دیش کو آگاہ کیا ہے کہ ترقیاتی ضروریات کے لیے زیادہ پانی درکار ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق ’’پہلگام حملے سے پہلے بھارت گنگا معاہدہ 30 سال بڑھانا چاہتا تھا مگر حالات یکسر بدل گئے۔‘‘

بھارت کے یکطرفہ فیصلے پر بنگلا دیش نےتشویش کا اظہار کیا ہے۔

واضح رہے کہ جنگی جنون میں مبتلا بھارت کی آبی جارحیت جنوبی ایشیا میں ایک نئے بحران کو جنم دے سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بنگلا دیش کے مطابق

پڑھیں:

امریکا اور بھارت کی نئی تجارتی کشیدگی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے خلاف بڑا معاشی حملہ کرتے ہوئے 50 فیصد تک اضافی ٹیرف عائد کردیا ہے اور خبردارکیا ہے کہ یہ صرف شروعات ہے۔ امریکی صدر نے بھارت کی جانب سے روسی تیل کی مسلسل خریداری پر سخت برہمی کا اظہارکیا اورکہا ہے کہ بھارت کو اس فیصلے کی قیمت چکانی پڑے گی۔

بلاشبہ بھارت میں اس فیصلے کے بعد معاشی بے چینی بڑھ گئی ہے۔ روس سے سستا تیل خریدنے کی پالیسی نے بھارت کو مغربی ممالک سے دورکردیا ہے۔ بھارت، جو دنیا کا تیسرا سب سے بڑا تیل درآمد کرنے والا ملک ہے، اس وقت روس سے سب سے زیادہ خام تیل خرید رہا ہے، یوکرین جنگ کے دوران روس کے لیے یہ ایک بڑی آمدنی کا ذریعہ بن گیا ہے۔

بھارت اب بین الاقوامی سفارتی صفوں میں تنہائی کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بھارت اور امریکا کے درمیان اس نئی تجارتی کشیدگی کے اثرات بھارت کی معیشت اور سفارتی تعلقات پرگہرے ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب بھارت عالمی منڈی میں اپنی برآمدات کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، اس طرح کے ٹیرف اسے مزید مشکلات سے دوچارکرسکتے ہیں۔

امریکا کی جانب سے بھارت پر 50 فیصد مجموعی ٹیرف کا نفاذ ایک غیر معمولی فیصلہ ہے جو دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی سطح پر لے جا سکتا ہے، اگر بھارت اس دباؤکو قبول کرتا ہے تو یہ اس کی معاشی خود مختاری پر سوال اٹھائے گا اور اگر بھارت جوابی اقدامات کرتا ہے تو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے۔

بھارتی حکومت کے ایک اندرونی تخمینے میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے نئی پابندیوں کے نتیجے میں بھارت کو امریکا میں بھیجی جانے والی تقریباً 64 ارب ڈالر مالیت کی برآمدات، جو اس کی کل امریکی برآمدات کا 80 فیصد بنتی ہیں، پر مسابقتی برتری کھونے کا خطرہ لاحق ہے۔

تاہم، 4 ٹریلین ڈالر مالیت کی بھارتی معیشت میں برآمدات کا حصہ نسبتاً کم ہونے کی وجہ سے، ماہرین کا ماننا ہے کہ اس کے مجموعی معاشی نمو پر براہِ راست اثرات محدود ہوں گے۔ بھارتی مرکزی بینک (ریزرو بینک آف انڈیا) نے مالی سال اپریل تا مارچ 2024–25 کے لیے معاشی نمو کی پیش گوئی 6.5 فیصد پر برقرار رکھی اور شرحِ سود میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی، اگرچہ امریکی محصولات میں ممکنہ اضافے سے غیر یقینی صورتحال موجود ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں بھارت نے امریکا کو تقریباً 81 ارب ڈالر مالیت کی اشیاء برآمد کیں۔

امریکا کا مؤقف ہے کہ روس پر جاری پابندیوں کے باوجود اگر بھارت جیسے بڑے ممالک روسی تیل خریدتے رہیں گے، تو عالمی سطح پر امریکا کی معاشی اور جغرافیائی حکمت عملی متاثر ہوگی۔ امریکا کے اس نئے فیصلے پر بھارت کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی جیسوال نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے بھارت پر عائد کیا گیا 25 فیصد اضافی ٹیرف نہایت افسوسناک، ناانصافی پر مبنی اور غیر منصفانہ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بھارت عالمی اصولوں کے مطابق اپنی درآمدات اور برآمدات کی پالیسی بناتا ہے اور وہ اپنے قومی مفادات سے سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ امریکی ٹیرف کے اس اضافے کے بعد بھارت میں سیاسی ماحول مزید کشیدہ ہوگیا ہے۔

کانگریس رہنما راہول گاندھی نے مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے بھارت پر لگائے گئے اضافی ٹیرف نے ثابت کر دیا ہے کہ موجودہ حکومت بین الاقوامی سطح پر مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ راہول گاندھی نے وزیراعظم مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ فوراً قوم سے معذرت کرتے ہوئے اقتدار چھوڑ دیں کیونکہ وہ بھارت کے مفادات کا دفاع کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔

بھارتی میڈیا میں ایک حکومتی ذریعے نے بتایا ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی سات سال سے زائد عرصے بعد پہلی بار چین کا دورہ کریں گے، جو بیجنگ کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور واشنگٹن کے ساتھ کشیدگی کے تناظر میں ایک اہم سفارتی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ مودی 31 اگست سے شروع ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کے لیے چینی شہر تیانجن جائیں گے۔

امریکا اور بھارت کے درمیان اس کشیدگی کا آغاز چند ماہ قبل اس وقت ہوا جب بھارت نے امریکی دباؤ کے باوجود روسی تیل کی درآمدات میں کمی لانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ''Mission 500'' نامی اقتصادی مذاکرات ہوئے، جن کا مقصد دوطرفہ تجارت کو 500 ارب ڈالر تک لے جانا تھا، لیکن زراعت، ڈیری مصنوعات اور دیگر حساس شعبہ جات میں اتفاق رائے نہ ہو سکا۔

ٹرمپ انتظامیہ کا یہ مؤقف رہا ہے کہ بھارت امریکا سے زیادہ فائدہ اٹھا رہا ہے، اور امریکا کا تجارتی خسارہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ موجودہ ڈھانچہ غیر منصفانہ ہے۔

یہی مؤقف ماضی میں بھی ٹرمپ حکومت کے دور میں دیکھنے کو ملا تھا، جب GSP (Generalized System of Preferences) کی سہولت بھارت سے واپس لے لی گئی تھی۔ اب جب کہ 2025 میں امریکا نے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کر دیا ہے، اس کا فوری اثر بھارتی برآمدات پر پڑنا طے ہے۔

بھارت کی بڑی برآمدی اشیاء میں ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات، زیورات، زرعی اشیاء اور فارماسیوٹیکل شامل ہیں۔ ان پر بلند ٹیرف کا مطلب ہے کہ امریکی منڈی میں ان اشیاء کی مسابقت میں کمی آئے گی، جو بھارت کے لیے اربوں ڈالر کے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔

اس فیصلے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا کہ بھارت کسانوں، ماہی گیروں اور ڈیری صنعت سے وابستہ افراد کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ یہ بیان داخلی سیاسی حلقوں کو مطمئن کرنے کی کوشش بھی ہے اور ایک واضح پیغام بھی کہ بھارت اقتصادی دباؤ میں آکر اپنی خود مختاری کو قربان نہیں کرے گا۔

یہ کشیدگی ایسے وقت میں پیدا ہوئی ہے جب دنیا پہلے ہی معاشی غیر یقینی کا شکار ہے۔ روس یوکرین جنگ، مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات، چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت، اور عالمی رسدی زنجیروں کی مشکلات نے بین الاقوامی تجارت کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔

امریکا کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ بھارت نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے بلکہ چین کے بعد سب سے بڑی ابھرتی ہوئی معیشت بھی ہے، اگر امریکا چین کے مقابلے میں ایک اسٹرٹیجک حلیف تلاش کر رہا ہے تو بھارت اس کے لیے بہترین انتخاب ہو سکتا ہے، لیکن یہ ممکن تب ہی ہوگا جب دونوں ممالک باہمی احترام، برابری اور مفاہمت کی بنیاد پر تعلقات کو استوار رکھیں۔

 اس ساری صورتحال میں ایک پہلو عالمی اداروں کا کردار بھی ہے۔ عالمی تجارتی تنظیم (WTO) جیسے ادارے ایسے تنازعات کے حل کے لیے موجود ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں ان کی موثریت پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ بھارت اگر چاہے تو WTO کے فورم پر امریکا کے خلاف مقدمہ درج کرسکتا ہے، لیکن اس کے نتائج فوری طور پر سامنے نہیں آ سکتے اور نہ ہی ایسے فورمز پر سیاسی اثرات سے پاک انصاف کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔

عوامی سطح پر بھی اس فیصلے کے اثرات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ مہنگائی میں اضافہ، بے روزگاری اور برآمداتی شعبے میں کمی، سب کچھ مل کر عوامی سطح پر بے چینی پیدا کر سکتے ہیں۔ بھارتی صنعتکار اور تاجر پہلے ہی اس فیصلے پر سخت نالاں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت فوری طور پر کوئی عملی لائحہ عمل دے تاکہ اس نقصان کو کم کیا جا سکے۔

اسی تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کے لیے یہ ایک چیلنج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک موقع بھی ہے۔ اگر بھارت اس موقع پر اپنی داخلی اقتصادی پالیسیوں کو مزید جدید بناتا ہے، عالمی معیارات سے ہم آہنگ کرتا ہے، اور برآمدات کو نئی منڈیوں میں پھیلانے پر توجہ دیتا ہے تو نہ صرف وہ اس بحران سے نکل سکتا ہے بلکہ مستقبل میں مزید خود کفیل ہو سکتا ہے۔

ادھر امریکا کو بھی سوچنا ہوگا کہ کیا ایسے اقدامات سے وہ اپنے اسٹریٹجک اتحادیوں کو بدظن کر رہا ہے؟ کیونکہ اگر بھارت جیسے ملک کو امریکا اپنی قومی سلامتی کے مفاد میں قربانی دینے پر مجبور کرے گا، تو یہ ایک سنگین پیغام باقی دنیا کے لیے بھی جائے گا۔ مجموعی طور پر اس تنازعے سے یہی سبق حاصل ہوتا ہے کہ تجارتی تعلقات کو جذبات، سیاسی بیانات، اور دباؤ کی پالیسیوں سے نہیں بلکہ باہمی مشاورت، اقتصادی حقیقت پسندی اور دور اندیشی سے ہی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

اس وقت جب کہ عالمی معیشت کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، ایسے تنازعات کا حل تلاش کرنا نہ صرف ان دونوں ممالک کے لیے اہم ہے بلکہ عالمی معیشت کے استحکام کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ کیونکہ جب دو بڑی جمہوریتیں باہم الجھتی ہیں تو اس کا اثر صرف ان کی سرحدوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ پوری دنیا اس سے متاثر ہوتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل اور مصر کے درمیان 35 ارب ڈالر کا تاریخی گیس معاہدہ
  • امریکا اور بھارت کی نئی تجارتی کشیدگی
  • بھارت نے پاکستان کو ایشیا ہاکی کپ سے باہر کرکے بنگلہ دیش کو شامل کرلیا گیا
  • پہلی بار پاکستانی کمپنی کا یو اے ای کے بڑے گروپ کو گوشت سپلائی کرنے کا معاہدہ
  • آئندہ 24 گھنٹوں میں پنجاب کے بیشتر اضلاع میں بارشیں متوقع
  • ایشیا ہاکی کپ میں پاکستان کی جگہ بنگلا دیش کو شامل کرلیا گیا
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارتی معاہدہ کیوں ناکام ہوا؟ تفصیلات سامنے آگئی
  • وقت آگیا، نااہل مودی اب اپنی ناکامی تسلیم کرکے اقتدار چھوڑ دیں؛ راہول گاندھی
  • مودی سرکار کی’’ آپریشن سندور 2‘‘ کے نام پر ہرزہ سرائی ، ممکنہ جارحیت پر اب پاکستان بھارت میں کن مقامات کو نشانہ بنائے گا؟ڈی جی آئی ایس پی آر نےاہم تفصیلات شیئر کر دیں
  • بھارت کے مشرق میں گہرائی تک حملہ، ڈی جی آئی ایس پی آر کا بھارتی جارحیت پر دو ٹوک موٴقف سامنے آگیا