عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ٹیکس نظام انصاف پر مبنی نہیں ہے، بجٹ نے ثابت کردیا کہ یہ سسٹم نہیں چل سکتا۔

پارٹی رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بجٹ میں کوئی تبدیلیاں نہیں،  30 سال پرانا جیسا بجٹ ہے۔ اکاؤنٹنگ کا ہے اخراجات کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کی  گئی۔ نئے ٹیکس لگا کر اور قرضہ لے کر حکومت اپنے اخراجات پورے کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے بجٹ سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ معیشت یا ملک کے معاملات پر ایسے بجٹ کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا ۔ بتایا جاتا ہے کہ میکرو اکنامک استحکام آگیا ہے، کموڈیٹی کی قیمت خاص طور پر خام تیل کم ترین سطح پر ہے ۔ حکومت اپنے معاملات درست نہ کرے، اصلاحات نہ کرے تو نمو کو ختم کرکے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پورا کرتی ہے۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اس حکمت عملی کا اثر مالیاتی خسارے پر بھی پڑتا ہے لیکن اس سے غریب آدمی متاثر ہوتا ہے۔ 4 سال میں ٹیکسوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ شرح سود کو بلند رکھا گیا ۔ گیس بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوتا گیا ۔ ان معاملات کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کی سب سے بڑی ذمے داری روزگار کی فراہمی ہے۔ 4 سال میں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔

سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ بجٹ میں کوئی ریلیف نظر نہیں آتا ۔ کسی طبقے کو ریلیف نہیں ملا ۔ حکومت نے اپنے اخراجات میں کسی مد میں بھی کمی نہیں کی۔ وزرا کی تنخواہ میں 188 فیصد، اراکین اسمبلی نے اپنی تنخواہیں 400 فیصد بڑھا دیں، چیئرمین سینٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی نے بھی بے پناہ اضافہ کرایا ۔ یہ اضافہ بیک ڈیٹ سے لاگو ہوگا  اور اس سے حکومتی نمائندوں کی سوچ ظاہر ہوتی ہے ۔

سربراہ عوام پاکستان پارٹی نے مزید کہا کہ عوام غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں ۔تقریباً آدھا پاکستان غریب ہے، 4کروڑ لوگ بدترین غربت کا شکار ہیں۔ حکمران طبقہ اپنی تنخواہیں بڑھانے میں مصروف ہے۔ 1988ء  سے 2018ء  تک تنخواہوں میں 20/25 فیصد اضافہ ہوا۔ اب یکمشت سیکڑوں فیصد اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ملک دیوالیہ نہیں ہوگا، حکمرانوں کی سوچ دیوالیہ ہوگئی۔ حکمرانوں کو عوام کا احساس نہیں اپنی جیب کا احساس ہے جب کہ دوسری طرف حکومت نے اپنے اخراجات میں بھی بے حد اضافہ کیا ۔ مرغی پر بھی 10 روپے فی چوزہ ٹیکس لگا دیا گیا ۔ ایف ای ڈی کے ذریعے حکومت کو مرغی سے اربوں روپے وصول ہوں گے۔ کیا یہ رقم حکومت اپنے اخراجات سے کم کرکے خسارہ پورا نہیں کرسکتی؟۔ کیا وزرا اور اراکین اسمبلی اپنی تنخواہوں میں کمی نہیں کرسکتے تھے؟۔

انہوں نے مزید کہا کہ چینی کا شوق ہر حکومت کو ہوتا ہے۔ شوگر مل مالکان کا سیاست سے بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطہ ہوتا ہے۔ ہر حکومت کو چینی ایکسپورٹ کا بہت شوق ہوتا ہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت میں بھی چینی ایکسپورٹ ہوئی ۔ اس وقت بھی ساڑھے 7 لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کی گئی جب قیمت 130 روپے تھی ۔ اب چینی 210 روپے ہے تو ساڑھے 7 لاکھ ٹن چینی امپورٹ کی جارہی ہے ۔ چینی کے کھیل میں ساڑھے 14 ارب روپے غریب کی جیب سے نکال لیے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اپنے اخراجات کم نہیں کیے اور پنشنرز پر ٹیکس لگا دیا گیا ۔ یہ کون سا انصاف ہے ؟۔ اپنی مراعات تنخواہ بڑھا کر پنشن پر ٹیکس بڑھا دیا ۔منافع اسکیموں میں سرمایہ کاری پر بھی ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ عوام مہنگائی اور ملکی حالات کی وجہ سے تنگ ہیں ۔ ریلیف دینا پاکستان میں ناممکن بات ہوگئی  ہے۔ ریلیف یہ ہوسکتا تھا کہ ٹیکسوں کا اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے ، حکومت اس میں بھی ناکام ثابت ہوئی۔ٹیکس کا نظام مکمل طور پر بدلنا ہوگا ۔ بجٹ نے ثابت کردیا کہ یہ نظام نہیں چل سکتا ۔ ٹیکس نظام انصاف پر مبنی نہیں ہے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 62 فیصد ٹیکس کمپنیوں پر ہوگا تو وہ کیسے ترقی کریں گی ؟۔ روزگار کہاں سے مہیا ہوگا؟ نمو کہاں سے آئے گی۔ خطے میں کون سے ممالک کمپنیوں سے 60 فیصد ٹیکس لے رہے ہیں؟۔ حکومت سارا پیسہ مارکیٹ سے اٹھا لے گی تو انڈسٹری ترقی نہیں کرے گی، روزگار نہیں ملے گا۔ اخراجات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترقی کے لیے 3800 ارب روپے رکھے گئے  ہیں۔ ایم پی ایز، ایم این ایز کی اسکیمیں بہت بڑھا دی گئی ہیں،  اسی کے ذریعے ووٹ لیا جاتا ہے اور ان ہی اسکیموں کی رقم ہزاروں ارب روپے تک بڑھ چکی ہے۔ وفاق غریب سے غریب اور صوبے امیر ہورہے ہیں۔ سود کی ادائیگی دفاع کے اخراجات سے بھی زیادہ ہے۔ 8000 ارب روپے اس سال سود کی مد میں خرچ ہوں گے۔ خسارہ اور سود بڑھتا رہے گا کوئی اصلاحات نہیں کی جا رہیں۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ آئی ایم ایف نہیں بناتا حکومت بناتی ہے۔ بجٹ آئی ایم ایف شرائط کے اندر بنانا ہوتا ہے۔ حکومت اپنے اخراجات کم کرے۔ پی ایس ڈی پی کا بڑا حصہ کرپشن میں جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی سے ایف بی آر میں شفافیت آئے گی۔ اگر ایف بی آر کے نظام کو بہتر نہ بنایا گیا تو ملک سے سرمایہ باہر جائے گا۔

Tagsپاکستان.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان شاہد خاقان عباسی انہوں نے کہا کہ اپنے اخراجات حکومت اپنے اضافہ ہوا ارب روپے نہیں کی میں بھی ہوتا ہے

پڑھیں:

ملک بھر کی ٹرانسپورٹرز تنظیموں کا بڑا اعلان

ملک بھر کی ٹرانسپورٹرز تنظیموں نے حکومت کو بجٹ کی منظوری تک ود ہولڈنگ ٹیکس میں 2فیصد اضافے کو واپس لینے کا آخری الٹی میٹم دے  جب کہ بصورت دیگر ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کے خلاف ملک بھر کے ٹرانسپورٹرز غیر معینہ مدت کیلئے ہڑتال کریں گے۔

یہ بات فلیٹ آپریٹرز ایسوسی ایشن کے چئیرمین رانا عاصم شکور، آل پاکستان کار کیرئیرز ایسوسی ایشن کے صدر امداد حسین نقوی، کراچی گڈز ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن کے ملک شیرخان اعوان اور ایف پی سی سی آئی کے سینئیر نائب صدر ثاقب فیاض مگوں کے ہمراہ پیر کو فیڈریشن ہاوس میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے بجٹ میں ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح کو 4 فیصد سے بڑھا کر 6 فیصد کردیا گیا ہے۔حکومت سے ودہولڈنگ ٹیکس میں کمی کے حوالے سے متعدد میٹنگز ہوئی ہیں اور حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بجٹ میں ٹیکسوں میں کمی آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر نہیں کرسکتے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات حکومت جانے کیونکہ 4فیصد ودہولڈنگ ٹیکس دے کر کاروبار جاری رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ٹرانسپورٹرز ملکی جی ڈی پی میں 12.5فیصد اور روزگار میں 6فیصد شراکتدار ہیں۔

کراچی پورٹ سے روزانہ 10 ہزار گاڑیاں اندرون ملک روانہ ہوتی ہیں تاہم محض 1400 گاڑیوں کا لوڈ چیک کرنے کی استعداد موجود ہے۔

سینئرنائب صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ مالی سال 26ء کے بجٹ میں لاجسٹک سروسز پر ودہولڈنگ ٹیکس 4 فیصد سے 6فیصد کردیا گیا ہے۔

ٹرانسپورٹرز جی ڈی پی میں ساڑھے 12 فیصد اور روزگار میں 6 فیصد شراکت داری رکھتے ہیں۔

حکومت سے مطالبہ ہے کہ ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافے سے متعلق فیصلے کو واپس لے، رانا عاصم شکور نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ودہولڈنگ ٹیکس بڑھا کر خودکش حملہ کیا گیا ہے۔

ودہولڈنگ ٹیکس کو 2 فیصد اضافے سے 6 فیصد کر دیا گیا ہے۔ متعدد ٹرانسپورٹرز غیر دستاویزی معیشت کی طرف منتقل ہورہے ہیں۔

حکومت نے گزشتہ سال میں 5 مرتبہ ٹول ٹیکس میں اضافہ کیا ہے۔ ایکسائز، پولیس ودیگر سرکاری ادارے ٹرانسپورٹرز سے ناجائز وصولیاں کرتے ہیں۔ ہم پہلے ہی 30 سے 35فیصد تک ٹیکس ادا کررہے ہیں۔

اگر 2 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس بڑھ گیا تو مجموعی ٹیکس 50 فیصد سے تجاوز کر جائے گا۔ اگر یہ فیصلہ واپس نہ کیا گیا تو ٹرانسپورٹرز کاروبار بند کر دیں گے کیونکہ ہم مائنس میں اپنا کاروبار جاری نہیں رکھ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ٹرانسپورٹ سیکٹر دستاویزی معیشت کی طرف آرہی ہے۔ ایکسل لوڈ پر مکمل طور پر عمل نہیں ہو رہا۔

پاکستان میں 80 فیصد تک اوور لوڈنگ ختم ہوچکی ہے۔ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں کوئی گاڑی غیر رجسٹرڈ نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ساڑھے 3لاکھ ٹرکس رجسٹرڈ ہیں، 90 فیصد گاڑیاں ٹیکس نظام میں رجسٹرڈ ہیں محض 10فیصد لوکل گاڑیاں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ 8 سے 9فیصد ریونیو تو صرف ٹول ٹیکس سے حاصل ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بجٹ نے ثابت کردیا یہ سسٹم نہیں چل سکتا‘ شاہد خاقان
  • حکومت پنجاب نے کھیلوں کی فیسوں میں اضافہ کردیا
  • ٹیکس نظام انصاف پر مبنی نہیں، بجٹ نے ثابت کردیا یہ سسٹم نہیں چل سکتا، شاہد خاقان عباسی
  • کوئی عمران خان کو مائنس نہیں کر سکتا؛جب حکم ہوگا حکومت ختم کردوں گا؛علی امین گنڈا پور
  • جنگی اخراجات کا بجٹ بڑھنا چاہیے، عمر ایوب
  • کیا روس ایران کو ایس 400 دفاعی نظام فراہم کرےگا؟ کریملن کا مؤقف آگیا
  • اخراجات میں 17 فیصد کمی کے باوجود ریاستی اداروں کے بجٹ میں اضافہ
  • ملک بھر کی ٹرانسپورٹرز تنظیموں کا بڑا اعلان