Express News:
2025-06-30@13:37:30 GMT

مصنوعی ذہانت اور پاکستان کے شعبہ صحت میں امکانات

اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT

مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے حالیہ دنوں میں اپنے بیانات میں کہا کہ مصنوعی ذہانت دنیا میں تیزی سے ترقی کررہی ہے اور یہ ٹیکنالوجی اگلی ایک دہائی میں طبی ماہرین کا کردار اس دنیا میں کم سے کم تر کردے گی۔

یہ بات واضح ہے کہ کوئی بھی ٹیکنالوجی پہلے جدید ترین ممالک میں استعمال ہوتی ہے اور پھر وہ پاکستان جیسے ملک کا رخ کرتی ہے، لہٰذا ہم پاکستان کے شعبہ صحت میں مصنوئی ذہانت کے امکانات اور رجحانات کا جائزہ لیتے ہیں۔

صحت کا شعبہ ہر ملک اور اس کے شہریوں کےلیے ایک اہم شعبہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں یہ شعبہ جدید طریقوں اور ٹیکنالوجی کے ذریعے تبدیل ہورہا ہے تاکہ زندگی کے معیار، صحت اور فلاح و بہبود کو بہتر بنایا جاسکے۔

روایتی طور پر طبی اور جراحی علاج کا انحصار زیادہ تر ماہرین صحت کے علم اور تجربے کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے جیسے عمارتوں اور بستروں پر ہوتا تھا۔ تاہم، اب ٹیکنالوجی کی ترقی صحت کے مجموعی نظام کو ایک نئے درجے پر لے جانے کے لیے ابھر رہی ہے۔

بیماری کی تشخیص سے لے کر سرجری تک، جدید آلات اور مشینیں دنیا بھر کے صحت کے نظاموں میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ خاص طور پر مصنوعی ذہانت (AI) کا ابھرتا ہوا شعبہ صحت کے شعبے میں ایک انقلابی تبدیلی کا سبب بن رہا ہے۔ اے آئی ٹولز تیزی، مؤثریت اور درستی کے ساتھ مختلف بیماریوں کی تشخیص میں مدد دیتے ہیں، جس سے ڈاکٹروں اور سرجنز کو چند منٹوں میں پیچیدہ امراض اور طبی مسائل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

طبی لحاظ سے جتنا جلد کسی مریض کی تشخیص ہوجائے اتنا ہی جلد علاج شروع کیا جاسکتا ہے، بلکہ بعض اوقات مریض کی جان بھی بچائی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر کینسر کے مریض ابتدائی اور درست تشخیص کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ 

عالمی ادارہ صحت کے کینسر ریسرچ ایجنسی کے مطابق پاکستان میں 2022 کے دوران کینسر کے 185,748 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے بدقسمتی سے 118,631 مریض جانبر نہ ہوسکے۔

اسی طرح اگر پیچیدہ بیماریوں کی ابتدائی مرحلے میں تشخیص ہوجائے تو ان کا مؤثر علاج ممکن ہے، وہ بھی ایسی صلاحیتوں سے جو انسانی رفتار سے بڑھ کر ہیں۔

پاکستان میں صحت کا نظام کئی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے جن کا حل مصنوعی ذہانت فراہم کرسکتی ہے، جیسے کہ ڈاکٹروں کی کمی، اسپتالوں پر بوجھ، اور بیماری کی تشخیص میں تاخیر۔ صحت کے ادارے، ڈاکٹر اور سرجن وسیع آبادی کی ضروریات پوری کرنے کےلیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے مطابق ملک میں 300,000 سے زائد رجسٹرڈ ڈاکٹرز اور 38,000 ڈینٹسٹ پریکٹس کر رہے ہیں، تاہم مجموعی ڈاکٹر سے مریض کا تناسب 1:1300 ہے، جو کہ عالمی ادارہ صحت کی ترقی پذیر ممالک کےلیے تجویز کردہ 1:1100 کے تناسب سے کم اور مثالی 2.

5:1000 کے تناسب سے کافی دور ہے۔
2035 تک آبادی کے تقریباً 30 کروڑ تک پہنچنے کی پیشگوئی اور طبی ماہرین کا دوسرے ممالک کی شہریت حاصل کرنے کے باعث آئندہ اس صورتحال کا مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔

اسی طرح پاکستان کے شعبہ صحت کو ایک اور مشکل درپیش ہے کہ اس کا بنیادی ڈھانچہ زیادہ تر شہری علاقوں میں مرکوز ہے جہاں 13,000 کے قریب سرکاری و نجی اسپتال بڑی شہری آبادیوں میں واقع ہیں۔ ان اسپتالوں میں او پی ڈی اور انڈور مریضوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے جس سے یہ نظام بوجھ کا شکار ہے۔ دیہی اور دور دراز علاقوں میں صحت کی سہولیات کی فراہمی ناکافی ہے اور ڈاکٹر اور طبی ماہرین بھی ان علاقوں میں خدمات انجام دینے سے گریز کرتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت ان خالی جگہوں کو پُر کرنے میں مدد دے سکتی ہے خاص طور پر چھوٹے شہروں اور اضلاع میں واقع اسپتالوں میں عام صحت کے مسائل کی سرجری انجام دے کر۔ اے آئی سے چلنے والی روبوٹک ٹیکنالوجی متعدد جراحی عمل جلدی مکمل کرسکتی ہے۔ مثال کے طور پر، آنکھوں کے آپریشن، دانتوں کے علاج، اور دل کی سرجری کو مؤثر اور درست طریقے سے مکمل کیا جاسکتا ہے۔

اگر اسپتال اے آئی ایپلی کیشنز اور سسٹمز میں سرمایہ کاری کریں تو وہ عمارتوں اور بستروں جیسے بنیادی ڈھانچے پر ہونے والے اخراجات میں کمی لاسکتے ہیں۔ حکومت کو اس ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کےلیے بجٹ مختص کرنا چاہیے اور معروف فلاحی اداروں کو بھی اس میں سرمایہ کاری پر غور کرنا چاہیے۔ یہ ٹیکنالوجی اسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے، اور صحت کی خدمات کو تیز، درست اور مؤثر بناسکتی ہے۔ اے آئی سسٹمز دور دراز علاقوں کے اسپتالوں میں بھی پیچیدہ علاج بخوبی انجام دے سکتے ہیں جبکہ بڑے شہروں کے ڈاکٹر ان عملوں کی نگرانی کرسکتے ہیں یا روبوٹک اور اے آئی ٹیکنالوجی کے ذریعے خود بھی دور بیٹھ کر سرجری کرسکتے ہیں۔

یہ یقین دلانا ضروری ہے کہ اے آئی ٹیکنالوجی ڈاکٹروں کی جگہ لینے کےلیے نہیں بلکہ ان کی مدد کےلیے ابھی تک متعارف کرائی جارہی ہے۔ تمام اے آئی پر مبنی طریقہ کار ماہر ڈاکٹروں کی نگرانی میں ہی مکمل کیے جائیں گے، جس سے ان کا کام کا بوجھ کم ہوگا اور انہیں تحقیق اور پیچیدہ بیماریوں کے علاج کے لیے وقت میسر آئے گا۔ اس لیے صحت کے ماہرین کو اس ٹیکنالوجی کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ تاہم مستقبل میں اے آئی ڈاکٹر کی مدد کرے گی یا ان کی موجودگی کو کم کردے گی اس بارے بہت سی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔

ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان میں اے آئی ٹیکنالوجی کا پہلے ہی تجربہ کیا جاچکا ہے جس میں ایک سرکاری اسپتال اور ایک فلاحی ادارے نے شاندار نتائج حاصل کیے ہیں۔ اے آئی سے مدد یافتہ روبوٹک سرجری نے روایتی سرجری کے مقابلے میں کئی فوائد دکھائے ہیں، جیسے چھوٹے کٹ، کم درد، اسپتال میں کم قیام اور جلد صحتیابی۔

ایک اور مثبت پیش رفت یہ ہے کہ پاکستانی آئی ٹی کمپنیاں بھی صحت کے مقامی مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے اے آئی حل پر کام کر رہی ہیں۔

صحت کے شعبے میں اے آئی کے مکمل فوائد حاصل کرنے کےلیے ضروری ہے کہ حکومت، ڈاکٹروں اور ٹیکنالوجی فراہم کرنے والے اداروں سمیت تمام متعلقہ فریقین مل کر ایک پالیسی فریم ورک تیار کریں، جس کے ذریعے اے آئی سسٹمز، ایپلی کیشنز اور ٹولز کو صحت کے نظام میں مربوط کیا جاسکے۔ یہ حکمت عملی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے قیمتی انسانی جانوں کو بچانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ٹیکنالوجی کے مصنوعی ذہانت کے ذریعے کی تشخیص صحت کے

پڑھیں:

نیوکلئیر ٹیکنالوجی سے دستبرداری کیلئے ایران کو 30 ارب ڈالر کی پیشکش کی خبریں، ٹرمپ کی تردید

جوہری پروگرام سے دستبرداری کیلئے ایران کو 30 بلین ڈالر کی آفر کا دعویٰ کیا گیا تھا جس کی امریکی صدر ٹرمپ نے تردید کردی۔

امریکی میڈیا نے بتایا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران کو سویلین نیوکلیئر پلانٹ کے لیے 30 بلین ڈالر کی ڈیل آفر کرسکتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایران کو غیرملکی بینک اکاؤنٹس سے ان کے 4 ارب ڈالر استعمال کرنے کی اجازت بھی دی جا سکتی ہے، تاہم ایران کو یورینیم افزودگی کی اجازت نہیں ہوگی۔

تاہم ٹرمپ کی جانب سے ان تمام رپورٹس کی تردید کی گئی ہے۔

صدر ٹرمپ نے ان رپورٹس کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے جمعہ کی رات اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹروتھ سوشل“ پر لکھا کہ کون سا گھٹیا شخص فیک نیوز میڈیا میڈیا میں پھیلا رہا ہے، صدر ٹرمپ ایران کو غیر فوجی نیوکلیئر سہولیات کی تعمیر کے لیے 30 ارب ڈالر دینا چاہتے ہیں؟ میں نے اس مضحکہ خیز خیال کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔ یہ سراسر ایک دھوکے بازی ہے۔

 

یاد رہے کہ اپریل سے ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں تاکہ ایران کے جوہری پروگرام پر نیا سفارتی حل تلاش کیا جا سکے۔ تہران کا مؤقف ہے کہ اس کا پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، جبکہ واشنگٹن کا اصرار ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جانا چاہیے۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • 5 لاکھ نوجوانوں کی عالمی کمپنیوں کی ذریعے آئی ٹی تربیت، شزا فاطمہ نے خوشخبری سنادی
  • حکومت کا پرائمری سطح پر مصنوعی ذہانت کی تعلیم متعارف کرانے کا فیصلہ
  • پاکستانی طلبہ کی 2025 اے پی اے سی سولیوشن چیلنج میں عالمی سطح پر پذیرائی
  • معاشی استحکام کیلئے انشورنس اہم شعبہ، عوام کا اعتماد بحال کرنا ہوگا!!
  • پاکستان کی کوئی بھی جامعہ دنیا کی 350بہترین جامعات کی فہرست جگہ بنانے میں ناکام
  • شمالی وزیرستان: سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر ’فتنہ الخوارج‘ دہشتگردوں کا حملہ، 13 جوان شہید
  • سائنسدانوں کی مصنوعی انسانی ’ڈی این اے‘ بنانے کی کوشش، بڑا تنازعہ کھڑا ہوگیا
  • نیوکلئیر ٹیکنالوجی سے دستبرداری کیلئے ایران کو 30 ارب ڈالر کی پیشکش کی خبریں، ٹرمپ کی تردید
  • جدید ٹیکنالوجی، انفلوئنسر مار اہم ہیں