سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری کل سے کیسز کی سماعت کریگی، کاز لسٹ جاری
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری—فائل فوٹو
کوئٹہ میں سپریم کورٹ رجسٹری کل سے کیسز کی سماعت کرے گی، سپریم کورٹ کے بینچز 14 سے 18 جولائی تک مجموعی طور پر 111 کیسز کی سماعت کریں گے۔
کوئٹہ میں سپریم کورٹ رجسٹری میں پیر سے کیسز کی سماعت ہو گی جس کی کاز لسٹ جاری کر دی گئی۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ کوئٹہ رجسٹری میں سماعت کرے گا، 3 رکنی بینچ میں شامل دیگر ججز میں جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شکیل احمد شامل ہوں گے۔
سپریم کورٹ میں آئندہ ہفتے کیسز کی سماعت کےلیے چار بینچز تشکیل دیے گئے۔
سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ 16 جولائی تک 60 کیسز کی سماعت کرے گا۔
17 جولائی کو سپریم کورٹ کے 2 بینچز کوئٹہ رجسٹری میں کیسز کی سماعت کریں گے۔
بینچ نمبر 1 چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں کیسز کی سماعت کرے گا جس میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے ساتھ جسٹس شکیل احمد شامل ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل بینچ نمبر 2 کوئٹہ رجسٹری میں کیسز کی سماعت کرے گا۔
18جولائی کو سپریم کورٹ کا ایک 3 رکنی بینچ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں کیسز کی سماعت کرے گا۔
بینچ کے دیگر ججز میں جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شکیل احمد شامل ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے بینچز 14 سے 18 جولائی تک مجموعی طور پر 111 کیسز کی سماعت کریں گے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کیسز کی سماعت کرے گا میں کیسز کی سماعت چیف جسٹس یحیی کوئٹہ رجسٹری سپریم کورٹ
پڑھیں:
انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔ ایف بی آر کی وکیل نے موقف اختیار کیا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا، ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دئیے سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپے ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے۔ مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس پر چھوٹ ہوتی ہے۔ جسٹس جمال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو آپکو محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں۔ وکیل عاصمہ حامد نے موقف اپنایا مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکٹھا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکٹھا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں، جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے، ختم نہیں ہوتا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دئیے آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے؟ وکیل نے موقف اختیار کیا مالی سال کا منافع موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔ ایف بی آر کے دوسرے وکیل نے کہا کہ میں سپر ٹیکس سے متعلق قانونی اور آئینی نقطوں پر معاونت کروں گا۔