بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں اچانک انٹرنیٹ سروس بندش، شہریوں کو مشکلات
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سمیت بیشتر اضلاع میں بدھ کی شام اچانک موبائل انٹرنیٹ سروس (تھری جی اور فور جی) بند کردی گئی، جس کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بہتر انٹرنیٹ سروس: کیا ’2 افریقہ کیبل‘ شارک سے محفوظ رہے گی؟
انٹرنیٹ سروسز کی معطلی سے نہ صرف روزمرہ رابطے متاثر ہوئے ہیں بلکہ تعلیمی سرگرمیاں، آن لائن کاروبار، فری لانسنگ اور بینکنگ سروسز بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کے ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ حکومت کی جانب سے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ اگست کا مہینہ صوبے میں سیکیورٹی کے اعتبار سے ہمیشہ حساس سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ماضی میں کالعدم مسلح تنظیمیں 11 اگست، 14 اگست اور 26 اگست جیسے ایّام پر حملے کرتی رہی ہیں۔
کوئٹہ کے علاوہ مستونگ، قلات، سوراب، خضدار، نوشکی، چاغی، واشک، کوہلو، سبی، بارکھان، لورالائی، دکی اور دیگر اضلاع کے موبائل فون صارفین نے انٹرنیٹ سروس کی بندش کی تصدیق کی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ پہلے ہی سروس کا معیار ناقص تھا، اب مکمل بندش نے ان کے معمولات زندگی کو مزید متاثر کردیا ہے۔
ایک مقامی فری لانسر محمد شعیب نے ’وی نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں پہلے ہی انٹرنیٹ سروس بہتر نہیں، اور اب آئے روز سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر موبائل فون انٹرنیٹ سروسز معطل رہتی ہیں، ایسے میں وہ جن افراد کا کام انٹرنیٹ سے منسلک ہے وہ ٹھپ ہوکر رہ جاتا ہے۔
ایک طالب علم آغا یاسین نے ’وی نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ انہیں آن لائن کلاسز اور تحقیق کے لیے انٹرنیٹ درکار ہوتا ہے، مگر اب سب کچھ بند ہو چکا ہے۔ ’ہم پہلے ہی محدود سہولیات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اب یہ بندش ہماری تعلیم میں مزید رکاوٹ بن رہی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: انٹرنیٹ سروسز کو بلوچستان کے حالات کے مطابق ریگولیٹ کرنا ناگزیر ہے، وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے مقامی تاجر احمد نواز نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ نئے دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام تر کاروبار کو آن لائن متقل کیا تھا مگر شہر میں موبائل فون انٹرنیٹ سروس بند ہو جانے سے نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسی صورت میں عام آدمی سوائے انتظار کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews انٹرنیٹ سروس معطل بلوچستان سیکیورٹی خدشات کوئٹہ موبائل فون وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انٹرنیٹ سروس معطل بلوچستان سیکیورٹی خدشات کوئٹہ موبائل فون وی نیوز انٹرنیٹ سروس بلوچستان کے موبائل فون
پڑھیں:
بلوچستان، ستمبر میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ، حکومت امن قائم کرنے کے لیے کیا کررہی ہے؟
بلوچستان ایک بار پھر دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ صرف ستمبر کے مہینے میں دہشت گردی کے 9 واقعات پیش آئے جن میں مجموعی طور پر 32 افراد جاں بحق اور 47 زخمی ہوئے۔
یہ واقعات صوبے کے مختلف شہروں اور اضلاع میں رونما ہوئے جن میں سیاسی جلسے، سیکیورٹی فورسز اور عام شہری براہِ راست نشانہ بنے۔
یہ بھی پڑھیے: ’ 4 فٹ کے فاصلے پر موت کھڑی تھی‘، سریاب روڈ دھماکے میں بچ جانے والوں پر کیا گزری؟
ستمبر کا پہلا اور سب سے بڑا واقعہ 2 تاریخ کو کوئٹہ کے سریاب روڈ پر ہوا جہاں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے جلسے کے دوران شاہوانی اسٹیڈیم کے مرکزی دروازے پر خودکش دھماکا کیا گیا۔ اس دھماکے کے نتیجے میں 15 افراد جاں بحق جبکہ 28 زخمی ہوئے۔
5 ستمبر کو ضلع کیچ کے علاقے مند میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی جس میں 2 اہلکار شہید ہوئے۔ 15 ستمبر کو تربت میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی پر آئی ای ڈی دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں 5 اہلکار جان سے گئے۔
17 ستمبر کو ڈیرہ بگٹی میں بارودی سرنگ کے 2 دھماکے ہوئے جن میں 3 شہری جاں بحق اور 2 زخمی ہوئے۔ اسی دن ضلع ژوب کے علاقے شیرانی میں مسلح افراد نے پولیس اور لیویز تھانوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار شہید ہوا، 2 لیویز اہلکار زخمی ہوئے اور ایک اہلکار کو اغوا کر کے ساتھ لے جایا گیا۔ 18 ستمبر کو تربت میں قومی شاہراہ کے قریب سیکیورٹی فورسز کی گاڑی دھماکے کی زد میں آئی جس سے 8 اہلکار زخمی ہوئے۔
اسی روز پاک افغان سرحدی شہر چمن میں ٹیکسی اسٹینڈ کے قریب بم دھماکا ہوا جس میں 6 افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے۔ ان واقعات کے تسلسل کے بعد 19 ستمبر کو خضدار میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آغا شکیل کی رہائش گاہ پر دستی بم حملہ کیا گیا جس میں 6 افراد زخمی ہوئے۔
یہ بھی پڑھیے: چمن میں دھماکا: 5 افراد جاں بحق، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بلوچستان کی مذمت
ان بڑھتے ہوئے واقعات پر وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے سخت ردعمل دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘دہشت گردی مذہب یا قومیت کے نام پر ہو، عوامی حقوق اور ترقی سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ بلوچستان کے عوام دہشت گردوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں اور کسی صورت سرنڈر نہیں کیا جائے گا۔ قوم پرستی یا مذہب کے نام پر بندوق اٹھانے والے دراصل ملک دشمن ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔’
دہشت گردی کے خطرات کے پیشِ نظر صوبائی اسمبلی نے حال ہی میں انسداد دہشت گردی اور فرانزک سائنس کا ترمیمی بل منظور کیا ہے۔ اس بل کے تحت عدالتوں میں ویڈیو لنک، آواز بدلنے، خفیہ شناخت اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مقدمات چلائے جائیں گے تاکہ ججوں، وکلا اور گواہوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کی مشاورت سے ایک اتھارٹی قائم ہوگی جو ان مقدمات کی نگرانی کرے گی۔
اس دوران سیکیورٹی ادارے بھی انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہیں اور مختلف اضلاع میں دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کے دعوے سامنے آ رہے ہیں۔ بعض حساس علاقوں میں موبائل فون سروسز بھی معطل کی گئی ہیں تاکہ دہشت گردوں کے رابطے منقطع کیے جا سکیں تاہم اس فیصلے سے عام شہریوں کو بھی مشکلات درپیش ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا مؤقف ہے کہ اگرچہ نئی قانون سازی اور سخت سیکیورٹی اقدامات حکومت کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں لیکن دہشت گردوں کی مسلسل کارروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ مسئلہ صرف عسکری یا قانونی نہیں بلکہ سیاسی اور سماجی بھی ہے۔ قوانین اور موبائل سگنل کی معطلی وقتی اقدامات ہیں مگر پائیدار امن کے لیے عوامی اعتماد، سیاسی ہم آہنگی اور ترقیاتی منصوبے ناگزیر ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان: لیویز اور پولیس تھانوں پر دہشتگردوں کا حملہ، ایک اہلکار شہید، 2 زخمی
بلوچستان کی موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ریاست طاقت اور قانون کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر ایک ایسی حکمتِ عملی اپنائے جو نوجوانوں کو دہشت گردی کے نیٹ ورکس سے دور رکھ سکے اور انہیں تعلیم، روزگار اور ترقی کے مواقع فراہم کرے۔ بصورت دیگر یہ پرتشدد سلسلہ کسی نئے رخ کے ساتھ دوبارہ جنم لیتا رہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان پاک آرمی حملہ دھماکا دہشتگردی