بلوچستان کمال کا صوبہ ہے! (دوسرا حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 25th, August 2025 GMT
ایک دن شام سات بجے تک چیف سیکریٹری دفتر میں کام کر رہے تھے۔ یہ 1998 کا زمانہ تھا۔ میرے پاس چند اہم کاغذات تھے جنھیں دکھا کر منظوری لینا ضروری تھا۔ فائلیں لے کر جب ان کے دفتر پہنچا، وہ غور سے اہم فائلیں پڑھ کر حکم نامہ لکھ رہے تھے۔میں آرام سے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ پندرہ منٹ کی خاموشی کے بعد چیف سیکریٹری کہنے لگے کہ میں نے وزیراعلیٰ سے منظوری لے کر تمہیں ڈپٹی کمشنر پوسٹ کر دیا ہے۔ ضلع کا نام لورالائی ہے۔
پنجاب سے قدرے نزدیک ہے۔ جمعیت العلماء اسلام کے سینئر وزیر بھی وہیں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہاں خیال کرنا، وہاں قبائلی مسئلے کافی شدت سے پنپ رہے ہیں، جرگے کے ذریعے، امن قائم کرنا اولین ذمے داری ہونی چاہیے۔ پنجاب جانے والی سڑک کا بہت طویل حصہ اسی ضلع میں سے گزرتا ہے۔ اور وہاں ڈاکو بسوں میں بیٹھے مسافرں کو لوٹ لیتے ہیں۔ یہ جرائم بھی ختم ہونے چاہئیں۔ میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ لورالائی کہاں واقع ہے۔ کوئٹہ سے بھی بس دو چار مہینے کی نسبت تھی۔ چیف سیکریٹری کا نام یونس خان تھا۔ وہ میرٹ پر کام کرنے والے افسر تھے۔
حددرجہ سادہ زندگی گزارنے کے عادی تھے۔ کمرے سے باہر نکلا تو خوشی تو تھی کہ ڈپٹی کمشنر تعینات ہو چکا ہوں مگر ضلع کے متعلق معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ یہ تو پتہ تھا کہ وہ مکمل طور پر پشتون علاقہ ہے اور وہاں بلوچ بالکل موجود نہیں ہیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی کم ہی تھے۔ معلومات لیں تو پتہ چلا کہ ایک قریبی دوست، اعجاز منیر، وہاں ڈی سی رہ چکے تھے۔ وہ اس وقت مستونگ میں ڈی سی تھے۔ خیر اتوار کو اعجاز کے پاس گیا۔ انھوں نے لورالائی کی تمام جزئیات بیان کیں۔
تقریباً پانچ چھ گھنٹے کی اس گفتگو سے موٹی موٹی چیزیں بہرحال کچھ نہ کچھ سمجھ میں آ گئیں۔ مگر پھر بھی، اتنے بڑے ضلع کے متعلق، اب بھی یہ سب کچھ ناکافی تھا۔ کوئٹہ واپس آیا۔ تقریباً ایک ہفتہ ہر اس افسر سے ملا جو لورالائی میں کسی بھی انتظامی سطح پر رہ چکا تھا۔ اس ڈر کی وجہ سے، کہ کوئی اہم معلومات بھول نہ جاؤں، طویل نوٹس بنا لیے۔ ویسے یہ عادت، میڈیکل کالج سے تھی ۔ لورالائی کے متعلق میرے پاس تقریباً ایک سو صفحے کے نوٹس جمع ہو چکے تھے۔
جنھیں میں سارا دن پڑھتا رہتا تھا۔ مگر یہ نکتہ بھی ازبر تھا کہ انتظامی امور، اصل میں حقیقی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ کاغذی معلومات کے ذریعے انھیں سلجھانا ناممکن ہوتا ہے۔ مجھ سے پہلے وہاں امتیاز تاجور ڈی سی تھے۔ جنھیں میں پندرہ برس سے جانتا تھا۔ مرنجان مرنج اور صوفی طبیعت کے مالک تھے۔ مذہب کی طرف بہت میلان ہو چکا تھا۔ جس وقت تبادلہ کا نوٹیفکیشن ہوا، وہ ملک سے باہر تھے۔
خیر ضابطہ کی کارروائی پوری کرنے کے بعد، جب میں لورالائی پہنچا، تو وہ علاقہ میرے لیے جہانِ حیرت تھا۔ بھورے رنگ کے چٹیل پہاڑوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ، پورے ضلع میں، فصیل کی طرح موجود تھا۔ ان پر سبزہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ مگر جب کوئٹہ سے لورالائی روانہ ہوا تو راستے میں ضلع زیارت کا کچھ حصہ طے کرنا پڑتا ہے۔ وہاں ہر طرف درخت ہی درخت اور ہریالی ہی ہریالی تھی۔ صنوبرکے نایاب درخت، آسمان سے باتیں کرتے نظرا ٓتے تھے۔ دراصل زیارت میں صنوبر کے درختوں کا ذخیرہ، دنیا کے اہم ترین جنگلوں میں سے ایک ہے۔ اس لیے کہ اس درخت کی عمر بہت طویل ہوتی ہے۔
روایت تھی کہ یہ جنگل صدیوں پرانا ہے۔ بہرحال جب لورالائی پہنچا تو ریسٹ ہاؤس میں قیام پذیر ہونا پڑا۔ اکیلا تھا۔ لہٰذا کسی قسم کا کوئی بھی مسئلہ نہیں تھا۔ ریسٹ ہاؤس سادہ سا تھا۔ مگر اس میں ہر سہولت موجود تھی۔ وہاں تقریباً دو تین ہفتے رہنا پڑا۔ کیونکہ تاجور صاحب، بیرون ملک تھے اور واپس آ کر انھیں لاہور جانا تھا۔ مجھے ایک بات کا مسئلہ ضرور تھا کہ مقامی زبان یعنی پشتو بولنی اور سمجھنی نہیں آتی تھی۔ مگر دو تین ماہ میں محنت کر کے گزارے لائق سیکھ لی تھی۔
جس کا مجھے انتظامی سطح پر بہت فائدہ ہوا۔ لوگوں سے جب آپ مقامی زبان میں بات کرتے ہیں تو انھیں حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوتی تھی اور ان سے رابطہ بہت بہتر ہو جاتا تھا۔ بیرون ملک سے تاجور صاحب کے آنے کے بعد، انھوں نے بھی ضلع کے متعلق طویل بریفنگ دی، اہم لوگوں کی بابت کافی کچھ بتایا۔ ایک سچ ضرور عرض کروں گا، اگر انتظامی افسر اپنے علاقے کے لوگوں کو بہترین طریقے سے نہیں جانتا تو وہ ناکام ہو سکتا ہے۔ کیونکہ قبائلی نظام میں، عام لوگوں سے رابطہ ان کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ مگر میں نے اس روایت کو بہت کم اہمیت دی۔ دفتر کے دروازے کھول دیے اور ہر شخص آرام سے آنا شروع ہو گیا۔ یہ روایت پنجاب میں نہیں ہے۔
چھوٹے اور بڑے افسر کوشش کرتے ہیں کہ عوام سے دور رہیں۔ دربان جب چٹ لے کر آتا ہے، تو پھر ملاقاتی کو انتظار کروایا جاتا ہے۔ جس کی مدت افسر کے موڈ پر ہوتی ہے۔ اکثر اوقات جب، سائل، کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے، اور وہ ناامید ہو جاتا ہے تو اسے کمال مہربانی کا مظاہرہ کر کے، بلالیا جاتا ہے۔ نوے فیصد تو یہی چلن ہے کہ اسے بیٹھنے کے لیے کرسی نہیں دی جاتی۔ بس کھڑے کھڑے بات سن لی جاتی ہے۔ یہ رویہ، حددرجہ ادنیٰ اور کسی بھی اخلاقی وصف سے نابلد ہے۔ افسر کو، دفتر میں آنے والے ہر انسان کی عزت نفس کو قطعاً مجروح نہیں کرنا چاہیے۔ مگر پنجاب میں یہ وطیرہ چلتا آ رہا ہے اور شاید اگلی کئی دہائیاں ایسے ہی چلتا رہے۔
لورالائی ایک قبائلی علاقہ تھا، اور اس میں ڈی سی، پولیٹیکل ایجنٹ بھی ہوتا تھا، بلکہ ہے۔ پہلی شب، ریسٹ ہاؤس میں آرام کرنے کے بجائے میں، اپنے ڈرائیور، اور ایک دو لیوی کے سپاہیوں کے ساتھ، اس سڑک پر چلا گیا جو بلوچستان کو پنجاب سے ملاتی ہے۔ وہاں پہنچا، تو لیویز کی پوسٹیں موجود تھیں، جن پر سپاہی بھی تعینات تھے۔ پہلی چیک پوسٹ پر رکا۔ لیویز کے سپاہی کے پاس چلا گیا۔ کڑاکے کی سردی تھی، درجہ حرارت منفی میں تھا۔ مگر اس سرکاری اہلکار کے پاس گرم کپڑے نہیں تھے۔ سردی سے بچنے کے لیے ٹوپی اور گرم موزے بھی نہیں تھے۔
جوتے تقریباً گل چکے تھے۔ شدید سردی میں، وہ کتنے مستعد ہوں گے، یہ میں سمجھ چکا تھا۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ اس ادھیڑ عمر سپاہی کے پاس جو بندوق تھی، اس میں صرف دو چار گولیاں تھیں یعنی اسلحہ ہی ناکافی تھا۔ خود بتایئے کہ کیا اس صورت حال میں ڈاکوؤں سے مقابلہ کیا جا سکتا تھا۔ میرا اپنا جواب نفی میں تھا۔ خیر، پوری رات لیویز کی چیک پوسٹوں پر جاتا رہا۔ ویسے لیویز کے سپاہی بتاتے تھے کہ ان کی ضروریات کے متعلق کبھی کسی افسر نے دریافت ہی نہیں کیا اور چیک پوسٹوں پر رات گئے آنے کا رواج تو خیر تھا ہی نہیں۔ اگلے دن، پہلا کام یہ کیا کہ چیف سیکریٹری کو اصل صورت حال سے آگاہ کیا۔ انھوں نے حکم دیا کہ پوری ڈیمانڈ فوری طور پر انھیں بھجوائی جائے اور اس کی ایک کاپی، ہوم سیکریٹری کو بھی ارسال کی جائے۔
اسی طرح کیا۔ دو تین گھنٹے بعد ہوم سیکریٹری کا فون آ گیا۔ انھوں نے بڑی حیرت کا اظہار کیا کہ آج تک کسی بھی افسر نے ان سے یہ معاملہ ڈسکس نہیں کیا۔ جناب صرف ایک ہفتے میں، صوبائی حکومت نے لیویز کے لیے ہر مانگی ہوئی چیز بھجوا دی۔ سردی سے بچانے کے لیے لمبے لمبے موٹے کوٹ، گرم جرابیں، ٹوپیاں اور مضبوط جوتے پہنچ گئے۔ صرف سات دنوں میں۔ اب لیویز والے سخت سردی میں کام کرنے کے قابل ہو گئے۔ بالکل اسی طرح، جدید اسلحہ اور ان گنت گولیاں بھی فراہم کر دی گئیں۔ ضلع میں لیویز کے سپاہی اور افسر ایک ہزار سے اوپر تھے۔
جب انھیں یقین ہو گیا کہ ان کا کوئی سرکاری والی وارث ہے تو ان کے کام میں حددرجہ توانائی آ گئی۔ معمول بنا لیا، کہ ہر رات کو، میں عملہ کے ساتھ گشت ضرور کرتا تھا تاکہ صورت حال پر کڑی نظر رہے۔ ساتھ ہی یہ سرکاری حکم بھی جاری کیا کہ اگر ڈاکو، بسوں کو لوٹنے کی کوشش کریں، تو انھیں وہیں کڑی ترین سزا بھی دی جائے۔ ان کے قبیلے کے عمائدین پر جرمانہ بھی عائد کیا جائے۔ بطور پولیٹیکل ایجنٹ، یہ سب کچھ میرے اختیار میں تھا۔ شروع شروع میں، ایک دو بار، ڈاکوؤں نے بسوں کو لوٹنے کی کوشش ضرور کی، مگر لیویز کی موجودگی میں، واردات میں ناکام ہو گئے۔
بلکہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان کے قبائلی عمائدین پر بھی بھرپور جرمانہ عائد کیا گیا۔ جو ڈاکو، زندہ گرفتار کیے جاتے، انھیں قبائلی قانون کے تحت فوری سزا دی جاتی۔ لورالائی میں، دو سال کے قریب رہا۔ لیویز کے سپاہیوں اور افسروں کی جانفشانی کی بدولت، سڑکیں مکمل طور پر محفوظ ہو گئیں۔ ڈاکا کی نوبت تو بڑی دور کی بات، اٹھائیس سے تیس پرانے ڈاکوؤں نے پہاڑوں سے نیچے آ کر، ازخود گرفتاریاں دیں اور اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر دیا۔ خدا نے میری حددرجہ معمولی سی محنت کا اجر، پورے ضلع میں امن کی صورت میں دیا۔ ایک دن چیف سیکریٹری نے بھی پوچھا کہ تم نے کون سی ترکیب اختیار کی ہے کہ علاقہ پرامن ہو گیا ہے۔ میرے سب کچھ بتانے سے پہلے ہی کہنے لگے کہ میں سمجھ چکا ہوں۔
(جاری ہے)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیف سیکریٹری انھوں نے کے متعلق جاتا ہے کے پاس تھا کہ
پڑھیں:
ایچ پی وی ویکسین کے خلاف پراپیگنڈا سراسر جھوٹ ہے: مصطفی کمال
اسلام آباد(آئی این پی )وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال نے سرویکل کینسر سے بچائو کی ویکسین کے خلاف پروپیگنڈا مہم کو سختی سے مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں سرویکل کینسر سے بچائو کیلئے ویکسین ضرور لگوائیں،۔ وفاقی وزیرصحت مصطفی نے اسلام آباد میں منعقد ہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جھوٹ پھیلانے والے خدا سے ڈریں اور ہرچیز کوسیاست کی نذر مت کریں،اگرمنفی پروپیگنڈے کے باعث ویکسین نہ لگوانے والی کسی خاتون کی سرویکل کینسر کے باعث موت ہوگئی تو تمہیں اس کا حساب دینا پڑے گا۔وفاقی وزیرصحت نے کہاکہ وہ ماضی میں بھی کئی بڑے سرکاری عہدوں پر رہ چکے ہیں،اب انہیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ قوم کی بچیوں کو غلط دوا دے کردنیا اورآخرت خراب کریں ؟مائیں، بہنیں اور بیٹیاں سرویکل کینسر سے بچائو کیلئے ویکسین ضرور لگوائیں۔