انسانی تاریخ کا سب سے بڑا مشن، گریٹا تھنبرگ غزہ کا اسرائیلی محاصرہ توڑنے نکل کھڑی ہوئیں
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
اسرائیلی حکومت نے ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی سویڈش کارکن گریٹا تھنبرگ کو غزہ جانے والی کشتیوں کے قافلے میں شامل ہونے پر’دہشتگردی کے الزام‘ میں گرفتار کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے فلسطینیوں کے حق میں بات کرنے پر ایک شخص کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ سے مائیک چیھننے کی کوشش
اسرائیلی اخبار اسرائیل ہایوم کے مطابق، اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کو ایسی تجویز پیش کرنے جا رہے ہیں جس کے تحت نہ صرف گریٹا تھنبرگ بلکہ دیگر سرگرم کارکنوں کو بھی حراست میں لے کر خصوصی حراستی مراکز میں رکھا جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت ان کارکنوں کی کشتیوں کو ضبط کر کے ’پولیس میری ٹائم فورس‘ کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
غزہ کے لیے عالمی فلوٹیلاگریٹا تھنبرگ اتوار کو بارسلونا سے روانہ ہوئیں۔ ان کے ساتھ برطانوی اداکار لیم کننگھم (مشہور ڈرامہ گیم آف تھرونز سے)، بارسلونا کی سابق میئر آدا کولاؤ اور کئی دیگر کارکن بھی شامل ہیں۔ قافلہ انسانی امداد غزہ پہنچانے اور اسرائیلی محاصرے کو توڑنے کے لیے نکلا ہے۔ اس مشن کو سرگرم کارکنان نے تاریخ کا سب سے بڑا ’یکجہتی مشن‘ قرار دیا ہے۔
کچھ امدادی سامان اتوار کو اٹلی کے شہر جینوا سے روانہ ہونے والی کشتیوں پر لادا گیا جبکہ باقی سامان سیسیلی کے بندرگاہ کاتانیا سے روانہ ہونے والی کشتیوں کے ذریعے غزہ بھیجا جائے گا۔ 4 ستمبر کو تیونس اور دیگر بحیرہ روم کی بندرگاہوں سے بھی مزید جہاز فلوٹیلا میں شامل ہوں گے۔
’یہ نسل کشی کے خلاف عالمی بیداری ہے‘روانگی سے قبل خطاب کرتے ہوئے گریٹا تھنبرگ نے کہا:
’یہ منصوبہ عالمی بیداری کا حصہ ہے۔ جب ہماری حکومتیں ناکام ہو جائیں تو عوام کو سامنے آنا پڑتا ہے۔ غزہ میں جاری نسل کشی اور اس پر دنیا کی خاموشی ایسی چیز نہیں جسے ہم برداشت کر سکیں۔‘
یہ بھی پڑھیے گیم آف تھرونز کے اداکار کا کشتی پر غزہ روانہ ہونے سے قبل شہید فلسطینی بچی کو جذباتی خراج عقیدت
انہوں نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو بھی رد کرتے ہوئے کہا:
’یہودی مخالف ہونا یہ نہیں ہے کہ آپ کہیں کہ لوگوں پر بمباری نہیں ہونی چاہیے، یا یہ کہ سب کو آزادی اور وقار کے ساتھ جینے کا حق ہے۔‘
اسرائیل کا ردعملاسرائیل نے گریٹا تھنبرگ کی کارروائیوں کو ’میڈیا پرووکیشن‘ (تشہیری کھیل) قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کو امداد بھیجنے کے باضابطہ راستے موجود ہیں،’انسٹاگرام سیلفیز کے ذریعے نہیں ‘۔
یہ بھی پڑھیے اسرائیل نے غزہ جانے والی کشتی میں سوار گریٹا تھنبرگ اور 3 دیگر کو ملک بدر کر دیا
جون میں بھی گریٹا اور 11 دیگر کارکنوں کو اسرائیلی بحریہ نے بین الاقوامی پانیوں میں گرفتار کر لیا تھا اور انہیں اشدود کی بندرگاہ لے جایا گیا تھا۔ بعد ازاں گریٹا کو اسرائیلی حکام نے پیرس ڈی پورٹ کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی اور مسلسل بمباری کرکے علاقے کو بھوک اور قحط سے دوچار کر دیا ہے۔
غزہ کے صحت حکام کے مطابق اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں اب تک 63 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں بالخصوص خواتین اور بچوں کی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل امدادی قافلہ غزہ گریٹا تھنبرگ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امدادی قافلہ گریٹا تھنبرگ گریٹا تھنبرگ کے لیے
پڑھیں:
غزہ سے موصول لاشیں قیدیوں کی نہیں ہیں، اسرائیل کا دعویٰ اور غزہ پر تازہ حملے
یروشلم: اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعہ کی شب غزہ سے واپس کیے گئے تین اجسام ان اسرائیلی قیدیوں میں شامل نہیں تھے جو جنگ کے دوران مارے گئے تھے، جبکہ حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے نمونے کے تجزیے کے لیے پیشکش مسترد کر دی تھی۔
برطانوی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، اسرائیلی فوج نے بتایا کہ ریڈ کراس کے ذریعے موصول ہونے والی لاشوں کے فرانزک معائنے سے واضح ہوا کہ یہ قیدیوں کی باقیات نہیں ہیں۔
دوسری جانب حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈز نے وضاحت کی کہ انہیں موصول شدہ لاشوں کی مکمل شناخت نہیں ہو سکی تھی، لیکن اسرائیل کے دباؤ پر انہیں حوالے کیا گیا تاکہ کوئی نیا الزام نہ لگے۔
القسام بریگیڈز نے کہا کہ، ’’ہم نے اجسام اس لیے واپس کیے تاکہ دشمن کی طرف سے کسی جھوٹے دعوے کا موقع نہ ملے‘‘۔
یاد رہے کہ 10 اکتوبر سے جاری امریکی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے بعد سے فریقین کے درمیان قیدیوں کی واپسی کا عمل جاری ہے۔ اب تک 20 زندہ قیدی اور 17 لاشیں واپس کی جا چکی ہیں، جن میں 15 اسرائیلی، ایک تھائی اور ایک نیپالی شہری شامل تھے۔
تاہم اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس لاشوں کی واپسی میں تاخیر کر رہی ہے، جبکہ حماس کا مؤقف ہے کہ غزہ کی تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے میں لاشوں کی تلاش ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔
اسی دوران حماس کے سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، ہفتے کی صبح اسرائیل نے جنوبی غزہ میں کئی فضائی حملے کیے اور خان یونس کے ساحل کی سمت سے بحری گولہ باری بھی کی۔
غزہ کے شہری دفاعی ادارے کے مطابق، ہفتے کے آغاز میں اسرائیلی فوج کے ایک اہلکار کی ہلاکت کے بعد، اسرائیل نے جنگ بندی کے باوجود اب تک کا سب سے مہلک فضائی حملہ کیا، جس میں 100 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے۔