’ادھر ذہنی غلام بیٹھے ہیں‘: جرمن سفیر سے میٹنگ کا بتانے پر علی امین نے پی اے کو جھاڑ پلا دی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے جرمنی کے سفیر کی ملاقات کے شیڈول سے متعلق اپنے پرسنل اسسٹنٹ (پی اے) کو جھاڑ پلادی۔
سامنے آنے والی آڈیو میں سنا جا سکتا ہے کہ پرسنل اسسٹنٹ وزیراعلیٰ کو یاد دلاتا ہے کہ ان کی میٹنگ کا وقت ہو چکا ہے، جس پر علی امین گنڈا پور سخت لہجے میں جواب دیتے ہیں کہ تمہارا کیا کام ہے؟ جرمن سفیر آیا ہے تو کیا ہوا، تم غلاموں کی طرح کیوں سوچتے ہو۔
وزیراعلی علی امین گنڈاپور نے جرمنی کے سفیر کیساتھ ملاقات کا پیغام دینے پر ترجمان کی بے عزتی کر دی۔
ترجمان: سر آپ کی میٹنگ کا وقت ہو چکا ہے ۔
علی امین گنڈاپور: تمہارا کیا کام ہے جرمن سفیر آیا ہے تو کیا ہوا؟تم بس غلاموں کی طرح سوچنا ،جرمن سفیر آگیا ہے تو پتہ نہیں کیا سوچتے ہو کہ… pic.
— WE News (@WENewsPk) September 2, 2025
علی امین گنڈا پور نے مزید کہاکہ سفیر آیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں فوراً بھاگ کر پہنچوں، ذہنی غلام ادھر بیٹھے ہیں، سفیر تھوڑا انتظار بھی کر سکتا ہے۔
اس مکالمے کے دوران وزیراعلیٰ کے سخت رویے پر پی اے شرمندہ ہو گئے، جبکہ علی امین گنڈا پور بعد ازاں پارٹی اور تحریک سے متعلق گفتگو کرتے رہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews پی اے جھاڑ پلا دی علی امین گنڈاپور وی نیوزذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پی اے جھاڑ پلا دی علی امین گنڈاپور وی نیوز علی امین گنڈا پور جرمن سفیر
پڑھیں:
پاکستان: ذہنی امراض میں اضافے کی خطرناک شرح، ایک سال میں ایک ہزار خودکشیاں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: پاکستان میں ذہنی امراض اور نفسیاتی دباؤ میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران معاشرتی اور قومی سطح پر سنگین نتائج پیدا کر سکتا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں ہونے والی 26ویں بین الاقوامی کانفرنس برائے ذہنی امراض میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں ہر تین میں سے ایک فرد نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے، جب کہ گزشتہ ایک سال کے دوران تقریباً ایک ہزار افراد نے ذہنی دباؤ کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
کانفرنس کے سائنٹیفک کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر محمد اقبال آفریدی نے بتایا کہ پاکستان میں ڈپریشن اور اینگزائٹی کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ خواتین میں ذہنی دباؤ کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں، جس کی بنیادی وجوہات گھریلو تنازعات، سماجی دباؤ اور معاشی مشکلات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں حالیہ برسوں کے دوران قدرتی آفات، دہشت گردی، بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام نے عوام کے ذہنوں پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔
پروفیسر واجد علی اخوندزادہ کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک نوجوان اور ہر پانچ میں سے ایک بچہ کسی نہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں 10 فیصد افراد منشیات کے عادی ہیں، جن میں آئس اور دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ملک کی 24 کروڑ آبادی کے لیے صرف 90 نفسیاتی ماہرین موجود ہیں، جو عالمی معیار کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر 10 ہزار افراد کے لیے کم از کم ایک ماہر نفسیات ہونا چاہیے، جب کہ پاکستان میں تقریباً پانچ لاکھ سے زائد مریضوں پر ایک ماہر دستیاب ہے۔
ڈاکٹر افضال جاوید اور دیگر ماہرین نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں معاشی ناہمواری، بے روزگاری، موسمیاتی تبدیلیاں اور سرحدی کشیدگی عوام کے ذہنی سکون کو تباہ کر رہی ہیں۔ نوجوان طبقہ خصوصاً مایوسی اور عدم تحفظ کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں خودکشیوں کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ذہنی صحت کو قومی ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں نفسیاتی مشاورت مراکز قائم کیے جائیں اور عوامی آگاہی مہمات شروع کی جائیں تاکہ معاشرہ اس بڑھتے ہوئے نفسیاتی بحران سے محفوظ رہ سکے۔