Express News:
2025-11-02@18:27:10 GMT

لاجبرسلیم کا بھی سفرتمام ہوا

اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT

جس کسی نے بھی یہ کہا ہے کہ زندگی ایک سفر ہے سہانا،جھوٹ کہا ہے ۔ زندگی اگر ایک سفر ہے تو سفر کبھی سہانا نہیں ہوتا بلکہ کچھ تو اسے ’’سقر‘‘ کہتے ہیں کہ اس سفر میں قدم قدم پر گھاٹیوں ،کھائیوں اورکٹھنائیوں سے گزرنا پڑتا ہے،سرابوں کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے ، گزرنا پڑتا ہے ، رہزنوں کے ہاتھوں لٹنا پڑتا ہے ، رحمان بابا نے کہا ہے کہ

میں نہ کہیں آتا ہوں نہ جاتا ہوں

اوربیٹھے بیٹھے زندگی کاسفر کٹ رہا ہے

یعنی کوئی چاہے نہ چاہے اسے یہ سفر مثل سقر طے کر کے ’’سفر‘‘کرنا پڑتا ہے اور دریاؤں کو پار کرنا پڑتا ہے، وہ بھی آگ کے دریاؤں کو اور ڈوب کر پار کرنا پڑتا ہے ۔

ایک اوردریا کاسامنا تھا منیر مجھ کو

 میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

لاجبر سلیم بھی ایک ایسا ہی مسافر تھا جس کے سفر کااختتام دوربہت ہی دورآسٹریلیا میں ہوا ۔

 چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مسافر کانصیب

 سوچتے رہتے ہیں کس راہگزر کے ہم ہیں

 وقت کے ساتھ ہے مٹی کاسفر صدیوں سے

 کس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں

نوشہرہ کے ایک گاؤں سے چلنے والے مسافر کی مٹی کن کن راستوں پر چلتی ہوئی آسٹریلیا کی مٹی میں جاملی ۔ داغ نے بھی کہا ہے

 کعبے کی ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے

 مجھ کو خبر نہیں میری مٹی کہاں کی ہے

 وہ میرا کلاس فیلوتھا اورچھٹی جماعت میں تھا جب کراچی چلا گیا جہاں اس کابڑا بھائی کسی اسپتال میں ٹیکنیشن وغیرہ تھا ۔پھر اس کے بارے میں صرف سنتے رہے۔ وہ ڈاکٹر ہوکر سرکاری اسپتال میں ملازم ہوگیا ۔پھر اورآگے بڑھ کر اونچی کلاس کا فزیوتھراپسٹ بن گیا تو شاعری شروع کی، وہ پشتو گانے لکھتا رہا اوردوسری زبانوں کی مشہور گلوکاراؤں کی آوازورں میں ریکارڈکراتا رہا، نسیمہ شاہین ، رونالیلیٰ، روبینہ قریشی سے اس نے اپنے پشتو گانے گوائے اوربڑی محنت کے ساتھ پیسہ بھی خرچ کیا کہ دوسری زبانوں کے فنکاراؤں سے پشتو گانے گواناآسان کام نہ تھا، یہ سب گانے ہٹ ہوئے ، ریڈیو اورکیسٹوں پرچھا گئے خاص طور پر نسیمہ شاہین کی آواز میں ’’پنگھٹ‘‘ کاگانا تو بیسٹ سیلراوربلاک بسٹر ثابت ہوا۔ اس کانام چمک گیا جو اب اس نے ’’لاجبر‘‘سے لاجبر خان سلیم کردیا تھا۔

ان ہی دنوں میں اس کے بڑے بھائی کاانتقال ہوگیا تو وہ اس کی میت کے ساتھ گاؤں آیا، نہ جانے کتنی مدت کے بعد، میں نے بھی اسے نام سے پہچانا کہ اب وہ اسکول کا میلاکچیلا لڑکا نہیں تھا ، نہایت ہی خوبصورت کلین شیو اورماڈرن نوجوان تھا، گاؤں کے لوگوں نے تدفین میں اورپھر فاتحہ میں جس محبت اوراپنائیت کااظہار کیا، اس سے وہ بے حد متاثر ہوا چنانچہ پھراس نے مجھے کراچی سے ایک خط میں لکھا کہ اب وہ اپنے گاؤں سے رابطے میں ہے ، کبھی آیا کرے گا اور گاؤں کی شادی غمی میں شرکت کرے گا ۔لیکن وہ اس پر عمل نہیں کرپایا کیوں کہ ہوا اسے ایک اور طرف اڑا کرلے گئی۔

 اپنی مرضی کے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں

 رخ ہواؤں کاجدھر کا ہو ادھر کے ہم ہیں

 اس نے کراچی ہی کی کسی خاتون سے شادی کی ہوئی تھی اورجب امید سے تھی اورڈلیوری کاوقت قریب آیا ، اتفاقاً یا ارادتاً وہ اسے آسٹریلیا لے گیا، ڈلیوری آسٹریلیا میں ہوئی تو بچہ قانونی طورپر آسٹریلین شہری ہوگیا ۔پھر ہم سنتے رہتے تھے کہ وہ آہستہ آہستہ سب کچھ آسٹریلیا منتقل کررہا ہے۔ بھانجے وانجے بھی لے جاکر آسٹریلیا میں سیٹ کردیے ، گاؤں اس کاکوئی قریبی عزیز نہیں تھا ، ماںفوت ہوگئی تھی ، باپ پہلے سے زندہ نہیں تھا ۔چندمرلے کے گھر اورچھوٹی سی جائیداد پر عزیزوں نے قبضہ کرلیا اورگاؤں سے مکمل طورپر اس کارشتہ کٹ گیا ۔

دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود وہ ایک اورلحاظ سے بھی بدنصیب تھا ، کئی بیماریوں کاشکارتھا ، معدہ بھی مصنوعی یعنی پلاسٹک کا لگوایا تھا جب بھی فون پر بات ہوتی اپنی بیماریوں ہی کارونا روتا تھا اورمیں پھر کافی دیر تک اس کی حالت کاسوچ کر پریشان رہتا تھا کہ ایسی دولت کا کیا فائدہ جو انسان کو ایک پل کی خوشی بھی نہ دے سکے ۔

اپنی موت سے چند مہینے پہلے فون پر اپنی بیماریوں کا ذکر کرنے کے بعد اس نے ایک بات چھیڑ دی۔ بولا ، یہاں میں جس گھر میں رہتا ہوں، میں نے اس میں ناریل اورپپیتے کے درخت لگوائے ہیں اورایک انگورکی بیل بھی ہے ، ان درختوں کے سائے میں بیٹھا رہتا ہوں، یہ دراصل درخت نہیں تھے ،اس کے سفر کے نشان تھے ، ناریل اورپپیتے کراچی کی یاد دلاتے تھے اورانگوراپنے گاؤں کی یاد پر مبنی تھا ۔

مجھے اس کی موت کی اطلاع بھی دو مہینے بعد ملی ، تدفین آسٹریلیا میں ہوئی اوریقیناً اسی طریقے پر ہوئی ہوگی جو ان ترقی یافتہ ممالک میں مروج ہے ، تجہیز وتکفین کے کسی ادارے کو فون۔ اور بس۔۔۔۔۔

کتناہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے

دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ا سٹریلیا میں کے ہم ہیں پڑتا ہے کہا ہے

پڑھیں:

غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے

اسلام ٹائمز: اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

نومبر 2024ء میں لبنان میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، اکتوبر 2025ء میں غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ غزہ جنگ بندی معاہدے میں بڑے بڑے کھلاڑیوں نے جنگ بندی کی ضمانت لی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دنیا اس بات کی شاہد ہے کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ آئے روز فلسطینیوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو مسلسل غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں انجام دے رہا ہے۔ معاہدے کے وقت بھی دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو قابل اعتبار نہیں ہیں، کیونکہ ان کا ماضی ایسی ہی سیاہ تاریخ سے بدنما ہے کہ جہاں امن اور معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی سب کچھ لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ہوچکا ہے کہ مسلسل لبنان کے مختلف علاقوں کو اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی طور پر انتشار پھیلانے کی امریکی کوششیں بھی تیز ہوچکی ہیں۔

غزہ کا معاملہ ہو یا پھر لبنان کا، دونوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ جنگ بند نہیں ہوئی، بلکہ جنگ تو جاری ہے۔ قتل عام جاری ہے۔ دہشت گردی جاری ہے۔ انسانیت و ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اب دنیا کے انسانوں کی ذمہ داری کیا ہونی چاہیئے۔؟ مجھے یہاں اس نقطہ پر رک کر یہ کہنے دیجئے کہ ہمیں بھی اس ظلم اور دہشتگردی کے مقابلہ میں پہلے ہی کی طرح ظالم کے خلاف ہر قسم کا احتجاج، بائیکاٹ اور پروگرام جاری رکھنا چاہیئے، اس عنوان سے زیادہ سے زیادہ شعوری مہم کو بڑھانی چاہیئے، تاکہ غاصب اسرائیلی دشمن کو اس کے ناپاک عزائم اور معصوم انسانوں کے قتل عام سے روکا جائے۔

غزہ اور لبنان میں جنگ کی ایک نئی شکل سامنے آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بمباری کی شدت میں کمی آئی ہو، لیکن جنگ رکی نہیں، اس نے صرف شکل بدلی ہے۔ یہ صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو نارملائز کیا جائے اور دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کو فلسطین اور لبنان کے مسائل سے ہٹائی کی جائے۔ فلسطین کے علاقے ہوں یا لبنان ہو، دونوں مقامات پر ہی اسرائیلی فضائی حملے، ڈرون حملے اور سرحد پار سے گولہ باری مختلف بہانوں سے جاری ہے، جبکہ جنوبی لبنان تو بدستور خطرے میں ہے۔ حقیقت میں یہ ایک منظم تشدد ہے، جہاں اسرائیل اپنی مرضی سے حملہ کرتا ہے، معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور فلسطین و لبنان اس کے نتائج کو برداشت کرتے ہیں۔

امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اب ایک بڑی اور کھلم کھلا جنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کا ہدف ناقابل رسائی ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی ایک طویل جنگ میں ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اگر اسرائیل لبنان کے خلاف مکمل جنگ شروع کرتا ہے تو اس کا ایک ہی حقیقی مقصد ہوگا کہ لبنان کی مزاحمت یعنی حزب اللہ کو ہمیشہ کے لیے کچلنا اور ختم کرنا۔ 1982ء کے بعد سے ہر اسرائیلی مہم اسی عزائم کے گرد گھومتی رہی ہے، بیروت پر حملے سے لے کر 2006ء کی جنگ تک امریکہ اور اسرائیل انہی مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کی جنگ کے باوجود اسرائیل کبھی بھی حزب اللہ کو عسکری یا سیاسی طور پر ختم نہیں کرسکا۔ دراصل یہ حزب اللہ کی بڑی کامیابی ہے۔

تمام جنگوں نے ظاہر کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا یہ مقصد ناقابل رسائی ہے۔اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ فیصلہ کن فتح ناممکن ہے۔ کوئی بھی مکمل جنگ جو حزب اللہ کو تباہ کرنے میں ناکام رہتی ہے، اس کے بجائے اسے مضبوط کرے گی تو اسرائیل جنگ میں کیوں جائے گا۔؟ اس کا جواب محدود مقاصد میں ہے۔ اسرائیل کے چھوٹے پیمانے پر حملے اور قتل و غارت گری حکمت عملی کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے، یعنی مخصوص اہداف کو تباہ کرنا، حزب اللہ کی جدید کاری میں تاخیر، یا ڈیٹرنس کا اشارہ دینا۔ یہی حکمت عملی اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف اپنائی ہے کہ وہاں بھی حماس کو غیر مسلح کرنا اور ختم کرنا لیکن تمام تر طاقت اور کوششوں کے باوجود اسرائیل کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔

بموں کے ذریعے یہ جمود اسرائیل کو اپنے دفاعی نظام کو جانچنے اور ڈیٹرنس اور طاقت کے اپنے گھریلو بیانیہ کو منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تل ابیب کے نقطہ نظر سے، یہ سب سے بہتر ممکنہ نتیجہ ہے کہ فوجی مداخلت کی ایک مسلسل مہم جو بھاری اسرائیلی ہلاکتوں سے بچتی ہے اور حزب اللہ کوبڑی کارروائیوں سے دور رکھتی ہے۔ لہذا اس وقت اسرائیل مسلسل لبنان میں محدود قسم کی کارروائیوں کو انجام دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ بھی اپنی طاقت کو از سر نو جمع کر رہی ہے۔ کیونکہ عمارتوں کی تباہی اور شخصیات کے قتل سے حزب اللہ کبھی بھی نہ تو کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ختم کی جا سکتی ہے، کیونکہ حزب اللہ ایک تنظیم یا جماعت نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور نظریہ ہے، جو نسل در نسل پروان چڑھتا ہے۔

دوسری طرف غزہ اور لبنان کی مزاحمت اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اسرائیل مکمل جنگ نہیں چاہتا اور یہ کہ ایسی کوئی بھی جنگ اسرائیل کے اندرونی محاذ کو لبنان کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت امتحان دے گی۔ مزاحمت جتنی دیر تک برقرار رہتی ہے، اتنا ہی یہ مستقبل کے کسی بھی تصادم کی شرائط کو اپنے حساب کتاب سے تشکیل دے سکتی ہے۔ اگر اسرائیل کبھی مکمل جنگ شروع کرتا ہے اور اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ مزاحمت کی وجہ سے ناکامی ہوگی۔ کچھ اشارے اس بات کے بھی موجود ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ہوا سے حملہ کرنے اور سرخ لکیروں کی جانچ کرنے پر راضی ہے، جبکہ مزاحمت برداشت کرتی ہے اور جوابی حملہ کرنے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کررہی ہے۔ کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کرسکتا کہ توازن کب تبدیل ہو جائے گا۔

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں جنگیں اکثر غلط حساب کتاب سے شروع ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی جوابی حملہ یا چھاپہ مار کارروائی سے ہی جنگ کا حساب تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ تمام تر حالات میں بھی مزاحمت زندہ رہتی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ مزاحمت اس پیمانے پر جوابی کارروائی کرے گی، جسے اسرائیل نظر انداز نہیں کرسکتا اور وہ لمحہ ایک اور جنگ کا آغاز کرے گا، جو انتخاب سے باہر نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارت کاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • جب کوئی پیچھے سے دھمکی دے تو مذاکرات پر برا اثر پڑتا ہے: طالبان حکومت کے ترجمان
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • معذور شخص کو اٹھا کر سڑک پار کرانے والے اہلکار کیلیے آسٹریلیا سے انعام
  • تجدید وتجدّْد
  • آسٹریلیا نے دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں بھارت کو 4 وکٹوں سے شکست دے دی
  • بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان میچ سے قبل نوجوان کرکٹر بین آسٹن کو خراجِ تحسین
  • کرکٹ آسٹریلیا کا بگ بیش لیگ کی نجکاری کا فیصلہ
  • کچے کے ڈاکو! پکے ہو گئے
  • ویمنز ورلڈ کپ: بھارت نے آسٹریلیا کو شکست دیکر فائنل میں جگہ بنالی