Express News:
2025-09-17@23:28:59 GMT

لاجبرسلیم کا بھی سفرتمام ہوا

اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT

جس کسی نے بھی یہ کہا ہے کہ زندگی ایک سفر ہے سہانا،جھوٹ کہا ہے ۔ زندگی اگر ایک سفر ہے تو سفر کبھی سہانا نہیں ہوتا بلکہ کچھ تو اسے ’’سقر‘‘ کہتے ہیں کہ اس سفر میں قدم قدم پر گھاٹیوں ،کھائیوں اورکٹھنائیوں سے گزرنا پڑتا ہے،سرابوں کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے ، گزرنا پڑتا ہے ، رہزنوں کے ہاتھوں لٹنا پڑتا ہے ، رحمان بابا نے کہا ہے کہ

میں نہ کہیں آتا ہوں نہ جاتا ہوں

اوربیٹھے بیٹھے زندگی کاسفر کٹ رہا ہے

یعنی کوئی چاہے نہ چاہے اسے یہ سفر مثل سقر طے کر کے ’’سفر‘‘کرنا پڑتا ہے اور دریاؤں کو پار کرنا پڑتا ہے، وہ بھی آگ کے دریاؤں کو اور ڈوب کر پار کرنا پڑتا ہے ۔

ایک اوردریا کاسامنا تھا منیر مجھ کو

 میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

لاجبر سلیم بھی ایک ایسا ہی مسافر تھا جس کے سفر کااختتام دوربہت ہی دورآسٹریلیا میں ہوا ۔

 چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مسافر کانصیب

 سوچتے رہتے ہیں کس راہگزر کے ہم ہیں

 وقت کے ساتھ ہے مٹی کاسفر صدیوں سے

 کس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں

نوشہرہ کے ایک گاؤں سے چلنے والے مسافر کی مٹی کن کن راستوں پر چلتی ہوئی آسٹریلیا کی مٹی میں جاملی ۔ داغ نے بھی کہا ہے

 کعبے کی ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے

 مجھ کو خبر نہیں میری مٹی کہاں کی ہے

 وہ میرا کلاس فیلوتھا اورچھٹی جماعت میں تھا جب کراچی چلا گیا جہاں اس کابڑا بھائی کسی اسپتال میں ٹیکنیشن وغیرہ تھا ۔پھر اس کے بارے میں صرف سنتے رہے۔ وہ ڈاکٹر ہوکر سرکاری اسپتال میں ملازم ہوگیا ۔پھر اورآگے بڑھ کر اونچی کلاس کا فزیوتھراپسٹ بن گیا تو شاعری شروع کی، وہ پشتو گانے لکھتا رہا اوردوسری زبانوں کی مشہور گلوکاراؤں کی آوازورں میں ریکارڈکراتا رہا، نسیمہ شاہین ، رونالیلیٰ، روبینہ قریشی سے اس نے اپنے پشتو گانے گوائے اوربڑی محنت کے ساتھ پیسہ بھی خرچ کیا کہ دوسری زبانوں کے فنکاراؤں سے پشتو گانے گواناآسان کام نہ تھا، یہ سب گانے ہٹ ہوئے ، ریڈیو اورکیسٹوں پرچھا گئے خاص طور پر نسیمہ شاہین کی آواز میں ’’پنگھٹ‘‘ کاگانا تو بیسٹ سیلراوربلاک بسٹر ثابت ہوا۔ اس کانام چمک گیا جو اب اس نے ’’لاجبر‘‘سے لاجبر خان سلیم کردیا تھا۔

ان ہی دنوں میں اس کے بڑے بھائی کاانتقال ہوگیا تو وہ اس کی میت کے ساتھ گاؤں آیا، نہ جانے کتنی مدت کے بعد، میں نے بھی اسے نام سے پہچانا کہ اب وہ اسکول کا میلاکچیلا لڑکا نہیں تھا ، نہایت ہی خوبصورت کلین شیو اورماڈرن نوجوان تھا، گاؤں کے لوگوں نے تدفین میں اورپھر فاتحہ میں جس محبت اوراپنائیت کااظہار کیا، اس سے وہ بے حد متاثر ہوا چنانچہ پھراس نے مجھے کراچی سے ایک خط میں لکھا کہ اب وہ اپنے گاؤں سے رابطے میں ہے ، کبھی آیا کرے گا اور گاؤں کی شادی غمی میں شرکت کرے گا ۔لیکن وہ اس پر عمل نہیں کرپایا کیوں کہ ہوا اسے ایک اور طرف اڑا کرلے گئی۔

 اپنی مرضی کے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں

 رخ ہواؤں کاجدھر کا ہو ادھر کے ہم ہیں

 اس نے کراچی ہی کی کسی خاتون سے شادی کی ہوئی تھی اورجب امید سے تھی اورڈلیوری کاوقت قریب آیا ، اتفاقاً یا ارادتاً وہ اسے آسٹریلیا لے گیا، ڈلیوری آسٹریلیا میں ہوئی تو بچہ قانونی طورپر آسٹریلین شہری ہوگیا ۔پھر ہم سنتے رہتے تھے کہ وہ آہستہ آہستہ سب کچھ آسٹریلیا منتقل کررہا ہے۔ بھانجے وانجے بھی لے جاکر آسٹریلیا میں سیٹ کردیے ، گاؤں اس کاکوئی قریبی عزیز نہیں تھا ، ماںفوت ہوگئی تھی ، باپ پہلے سے زندہ نہیں تھا ۔چندمرلے کے گھر اورچھوٹی سی جائیداد پر عزیزوں نے قبضہ کرلیا اورگاؤں سے مکمل طورپر اس کارشتہ کٹ گیا ۔

دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود وہ ایک اورلحاظ سے بھی بدنصیب تھا ، کئی بیماریوں کاشکارتھا ، معدہ بھی مصنوعی یعنی پلاسٹک کا لگوایا تھا جب بھی فون پر بات ہوتی اپنی بیماریوں ہی کارونا روتا تھا اورمیں پھر کافی دیر تک اس کی حالت کاسوچ کر پریشان رہتا تھا کہ ایسی دولت کا کیا فائدہ جو انسان کو ایک پل کی خوشی بھی نہ دے سکے ۔

اپنی موت سے چند مہینے پہلے فون پر اپنی بیماریوں کا ذکر کرنے کے بعد اس نے ایک بات چھیڑ دی۔ بولا ، یہاں میں جس گھر میں رہتا ہوں، میں نے اس میں ناریل اورپپیتے کے درخت لگوائے ہیں اورایک انگورکی بیل بھی ہے ، ان درختوں کے سائے میں بیٹھا رہتا ہوں، یہ دراصل درخت نہیں تھے ،اس کے سفر کے نشان تھے ، ناریل اورپپیتے کراچی کی یاد دلاتے تھے اورانگوراپنے گاؤں کی یاد پر مبنی تھا ۔

مجھے اس کی موت کی اطلاع بھی دو مہینے بعد ملی ، تدفین آسٹریلیا میں ہوئی اوریقیناً اسی طریقے پر ہوئی ہوگی جو ان ترقی یافتہ ممالک میں مروج ہے ، تجہیز وتکفین کے کسی ادارے کو فون۔ اور بس۔۔۔۔۔

کتناہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے

دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ا سٹریلیا میں کے ہم ہیں پڑتا ہے کہا ہے

پڑھیں:

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ نے اسے ہرن جیسی ٹانگیں اور گھوڑے جیسے پھیپھڑے دیے تھے‘ وہ پورے گاؤں میں سب سے تیز بھاگتا تھا‘ وہ مسلسل سارا دن بھی بھاگ سکتا تھا‘ یہ غیرمعمولی صلاحیت تھی اور اس نے اس صلاحیت سے میرا تھن چیمپیئن بننے کا فیصلہ کیا‘ اس نے جب لوگوں کو اپنے ارادے کے بارے میں مطلع کیا تو سب نے پہلے قہقہہ لگایا اور پھر اسے بتایا میرا تھن گوروں کی اسپورٹس ہے۔

 سیاہ فام لوگ یہ نہیں کھیل سکتے‘ ہم ان سے جیت بھی نہیں سکتے‘ ایلوڈ نے وجہ پوچھی تو اسے بتایا گیا‘ گوروں کے پاس پیسہ ہوتا ہے‘ ان کے پاس ٹرینر بھی ہوتے ہیں اور ان کی خوراک بھی ہم سے بہتر ہوتی ہے لہٰذا یہ جی جان سے پریکٹس کرسکتے ہیں‘ اسے یہ بھی بتایا گیا میرا تھن کے سارے ریفری‘ کمنٹیٹرز اور شائقین بھی گورے ہوتے ہیں‘ گورے گوروں کو سپورٹ کرتے ہیں‘ یہ سیاہ فام کو کام یاب نہیں ہونے دیتے‘ تم بھی یہ خواب دیکھنا بند کر دو‘اس کے دوستوں اور بزرگوں نے یہ باتیں اتنی بار دہرائیں کہ یہ اس کے ذہن میں بیٹھ گئیں لیکن اس کے باوجود ایتھلیٹکس اس کا جنون تھا‘ وہ سارا دن بھاگتا رہتا تھا‘ اس کے پاس جوتے نہیں تھے‘ وہ ننگے پاؤں بھی بھاگتا تھا‘ اس کے پاس گراؤنڈ نہیں تھا‘ وہ جنگل میں بھی بھاگتا تھا‘ اس نے میرا تھن میں شریک نہیں ہونا تھا لیکن وہ اس کے باوجود بھی بھاگتا تھا‘ بھاگنا اس کی زندگی تھا۔

وہ فارغ وقت میں جس گراؤنڈ میں بھاگتا تھا وہاں پیٹرک نام کا ایک کوچ نوجوانوں کو پریکٹس کراتا تھا‘ کوچ نے دیکھا ایک سیاہ فام لڑکا کوچنگ کے بغیر اس کے تمام اسٹوڈنٹس سے زیادہ تیز دوڑتا ہے‘ اس نے ایک دن اسے روک کر انٹرویو کیا تو پتا چلا یہ لڑکا غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے‘ دن کے وقت والدین کے ساتھ محنت مزدوری کرتا ہے اور شام کے وقت دوڑنا شروع کر دیتا ہے‘ پیٹرک کو اس پر رحم آ گیا۔

 اس نے اسے اپنی کلاس میں شامل کر لیا اور وہ اسے ایتھلیٹس کی بنیادی تکنیکس سکھانے لگا‘ لڑکا پیدائشی اسپورٹس مین تھا‘ یہ بہت جلد تمام تکنیکس سیکھ گیاجس کے بعد پیٹرک نے اس کا نام کینیا کی اگلی میراتھن میں لکھوا دیا‘ وہ میراتھن میں شریک ہوا لیکن ہار گیا‘ اس کی ہار نے کوچ کو ڈسٹرب کر دیا‘کیوں؟ کیوں کہ وہ جانتا تھا اس میں کینیا کے تمام ایتھلیٹس سے زیادہ پوٹینشل ہے‘ اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا‘ کوچ نے میراتھن کی ریکارڈنگ منگوائی اور دیکھنا شروع کر دی‘ وہ بار بار ٹیپ دیکھتا تھا اور کیپ چوج کو دیکھتا تھا‘ اس نے نوٹ کیا دوڑتے وقت جوں ہی کوئی گورا کھلاڑی اس کے قریب آتا تھا تو اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی تھی جب کہ یہ تمام سیاہ فام کھلاڑیوں کو آسانی سے پیچھے چھوڑ دیتا ہے یوں محسوس ہوتا تھا گورے کو دیکھ کر اس کا گیئر ڈاؤن ہو گیا ہو۔

 کوچ بار بار ٹیپ دیکھتا رہا اور یہ سوچتا رہا آخر ایشو کیا ہے؟ یہ گورے کھلاڑی کو دیکھ کر آہستہ کیوں ہو جاتا ہے؟ اس کا سانس کیوں پھول جاتا ہے‘ بار بار ٹیپ دیکھنے کے بعد پتا چلا یہ ذہنی طور پر سفید فام کھلاڑیوں سے خائف ہے‘ یہ ان سے گھبراتا ہے اور اس وجہ سے اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی ہے‘ یہ ایک دل چسپ صورت حال تھی‘ کوچ نے اس کا انٹرویو شروع کیا تو پتا چلا اس نے جب بھاگنا شروع کیا تھا تو تمام لوگوں نے اسے بتایا تھا ایتھلیٹکس گوروں کی اسپورٹس ہے‘ اس میں صرف گورے جیتتے ہیں لہٰذا بھاگتے ہوئے جوں ہی کوئی گورا اس کے قریب پہنچتا ہے تو آٹومیٹک اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی ہے۔

کوچ نے اسے سمجھانا شروع کیا لیکن صورت حال جوں کی توں رہی‘ کوچ نے مجبوراً اسپورٹس سائیکالوجسٹ سے رابطہ کیا‘ اس نے کیپ چوج کو اسٹڈی کیا تو پتا چلا گوروں کا غلبہ اس کے سب کانشیس میں چلا گیا ہے‘ یہ اب جتنا چاہے کوشش کر لے اس کا سب کانشیس اسے ہلنے نہیں دے رہا‘ سائیکالوجسٹ نے کوچ کو بتایا‘ ہمارے سب کانشیس میں جب کوئی بات بیٹھ جاتی ہے تو پھر ہمارے اندر سیلف سبوتاژ کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے بعد ہمیں باہر سے کوئی نہیں ہراتا‘ ہم اندر سے ہار جاتے ہیں‘ ہم اندر سے شکست تسلیم کر بیٹھتے ہیں۔

کوچ کو مسئلہ سمجھ آ گیا لہٰذا  اس نے کیپ چوج کو سمجھایا تم نے دوڑتے وقت دائیں بائیں نہیں دیکھنا صرف اور صرف اپنے ہدف پر توجہ دینی ہے‘ دوسرا تم نے یہ گنتے رہنا ہے تم نے کتنے سیاہ فام باشندوں کو پیچھے چھوڑا‘ کیپ چوج کوچ کی بات کو سیریس لیتا تھا لہٰذا اس نے یہ مشورہ پلے باندھ لیا اور نتائج نے سب کو حیران کر دیا‘ آپ بھی یہ جان کر حیران رہ جائیں گے یہ ایلوڈ کیپ چوج 2019میں دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے 42 اعشاریہ 195 کلومیٹر کی میراتھن دو گھنٹے سے کم وقت میں مکمل کرلی اور یہ ورلڈ ریکارڈ تھا اور اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ آپ اگر آج اس کے ریکارڈز اور ایوارڈز دیکھیں تو آپ کی آنکھیں اور دماغ تھک جائے گا لیکن اس کے ریکارڈز اور ایوارڈز کی فہرست ختم نہیں ہوگی۔

 میں آگے بڑھنے سے قبل آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں میراتھن 42 اعشاریہ 195 کلومیٹر کیوں ہوتی ہے؟ 1908میں کوئین الیگزینڈرا برطانیہ کی ملکہ تھی‘ 1908 میں لندن میں اولمپکس ہوئیں‘ ملکہ نے حکم جاری کیا‘ میرا تھن ونڈسر کاسل کے لان سے اسٹارٹ ہو گی اور وائیٹ سٹی اسٹیڈیم میں رائل باکس کے سامنے ختم ہو گی‘ اس حکم کی دو وجوہات تھیں‘ ملکہ چاہتی تھی جب ریس شروع ہو تو اس کا خاندان ونڈسر کاسل کی کھڑکی سے ریس دیکھ سکے اور جب یہ ختم ہو تو ملکہ اور اس کا خاندان رائل باکس میں جیتنے والے کھلاڑی کو دیکھ سکیں اور دوسری وجہ ملکہ کام یاب کھلاڑی کو سب سے پہلے دیکھنا چاہتی تھی‘ ماہرین نے کھڑکی اور باکس کے درمیان کا فاصلہ ماپا تو یہ 26 میل اور 385 میٹر یعنی 42 اعشاریہ 195کلومیٹر تھا یوں میرا تھن 42 اعشاریہ 195 کلو میٹر ہو گئی‘ میں کیپ چوج کی طرف واپس آتا ہوں۔

ایلوڈ کیپ چوج سب کانشیس کے سیلف سبوتاژ کا شکار تھا‘ اب سوال یہ ہے یہ کیا بلا ہوتی ہے؟ ہمارے دماغ کے دو حصے ہوتے ہیں‘ کانشیس (Concious) اور سب کانشیس (Subconcious) کانشیس صرف معلومات اکٹھی کرتا ہے جب کہ سب کانشیس اسے پراسیس کر کے ہمارے یقین کا حصہ بناتا ہے‘ ہماری زندگی کا نوے فیصد حصہ سب کانشیس کے کنٹرول میں ہوتا ہے‘ ہم مسلمان اور پاکستانی ہیں‘ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں یہ سارا ڈیٹا ہمارے بلیو (Believe) سسٹم یا سب کانشیس کاحصہ ہوتا ہے‘ بچوں کا کانشیس اور سب کانشیس پیدائش کے بعد کورا کاغذ ہوتے ہیں‘ ہم سب مل کر اسے بھرتے ہیں یا پر کرتے ہیں‘ بچے ہمیں دیکھ اور سن کر زبان سے لے کر عادتوں تک ہر چیز سیکھتے ہیں اور یہ آگے چل کر ان کا بلیو یعنی یقین بنتا ہے اور یہیں سے ان کی کام یابی اور ناکامی کا سفر شروع ہو تا ہے‘ کیپ چوج کو اس کے ماحول نے اتنی بار گوروں سے ڈرایا تھا‘ اسے اتنی مرتبہ یہ بتایا گیا تھا کہ ایتھلیٹکس گوروں کی اسپورٹس ہے۔

 تم سیاہ فام ہو اورتم خواہ کتنا ہی تیز دوڑ لو تم کام یاب نہیں ہو سکتے اور یہ بات بار بار دہرانے کی وجہ سے اس کے سب کانشیس میں چلی گئی جس کے بعد یہ جوں ہی کسی گورے کو دوڑتا ہوا دیکھتا تھا تو اس کا سب کانشیس اسے پیغام دے دیتا تھا تم اس گورے سے نہیں جیت سکتے‘تمہیں زیادہ توانائی ضایع کرنے کی ضرورت نہیں اور اس کے بعد اس کے پھیپھڑے خود بخود ڈھیلے پڑ جاتے تھے اور ٹانگوں کی توانائی کم ہو جاتی تھی یوں اس کے ساتھ بھاگنے والا گورا اس سے آگے نکل جاتا تھا‘ نفسیات کی زبان میں اس عمل کو سیلف سبوتاژ (Self Sabotage) کہتے ہیں یعنی آپ اپنی جیت کو خود ہی ہار میں تبدیل کر دیں‘ آپ اپنی کام یابی کو ناکامی میں بدل دیں یا آپ چھکا مارتے ہوئے جان بوجھ کر آؤٹ ہو جائیں‘ کیپ چوج بھی سیلف سبوتاژ کا شکار ہو گیا تھا‘ اس کے خاندان اور ماحول نے مل کر اس کے دل میں گوروں کا خوف بٹھا دیا تھا جس کے بعد اس کا سب کانشیس اسے گوروں کے مقابلے میں جیتنے نہیں دیتا تھا۔

آپ اگر کیپ چوج کی کہانی توجہ سے پڑھیں تو آپ خود کو بھی سیلف سبوتاژ کا شکار پائیں گے بلکہ رکیے آپ کو پوری قوم سیلف سبوتاژ کا شکار ملے گی‘ آپ کبھی نوٹ کیجیے آپ کو ہر طرف سے ہم ترقی نہیں کر سکتے‘ ہم ٹھیک نہیں ہو سکتے‘ ہم بے ایمان لوگ ہیں‘ ہم میں خداترسی نام کی چیز نہیں‘ ہم بہت گندے ہیں‘ ہم سسٹم نہیں بنا سکتے‘ ہماری حکومت بہت نکمی ہے‘ سارا نظام کرپٹ ہے ‘ ہمیں عدالتوں سے انصاف نہیں ملے گا‘ پاکستان میں کوئی چیز خالص نہیں‘ پولیس بڑی ظالم ہے۔

 سیاست دان نالائق اور کرپٹ ہیں‘ مولوی جاہل اور سخت ہیں‘ ہماری فوج بہت کم زور ہے اور ہم سیلاب کنٹرول نہیں کر سکیں گے جیسے فقرے سننے کو ملیں گے‘ آپ کسی جگہ بیٹھ جائیں آپ یہ سوال ضرور سنیں گے پاکستان کا کیا بنے گا‘ کیا ہم ٹھیک ہو جائیں گے اور ہمارا مستقبل کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ‘ آپ حد ملاحظہ کریں‘ ہم نے 10مئی کو جب بھارت کو شکست دی تھی تو پورے ملک نے کہنا شروع کر دیا تھا اگر چین ہماری مدد نہ کرتا تو ہمیں بڑی مار پڑتی‘ یہ کیا ہے؟ یہ سیلف سبوتاژ کی آخری اسٹیج ہے اور اس اسٹیج میں انسان ہو یا ملک یہ اپنا اعتماد مکمل طور پر کھو بیٹھتا ہے اور ہم بدقسمتی سے اس عمل سے گزر رہے ہیں بالخصوص ہماری کرکٹ ٹیم کے سب کانشیس میں یہ بات بیٹھ چکی ہے ہم بھارت سے نہیں جیت سکتے چناں چہ ہم جیتا ہوا میچ بھی ہار جاتے ہیں۔

 ہم اگر واقعی زندہ رہنا چاہتے ہیں یا ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سیلف سبوتاژ سے باہر آنا ہو گا‘ ہمیں اپنے اوپر اعتماد کرنا ہو گا‘ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہو گا اگر ایلوڈ کیپ چوج تھوڑی سی حکمت عملی بدل کر کام یاب ہو سکتا ہے تو پھر ہم من حیث القوم یہ کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم بھی کر سکتے ہیں بس ہمیں حکمت عملی اور جیت کو اپنا یقین بنانا ہو گا اور پھر چند برسوں میں وہ ہو جائے گا جو ہم نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • آسٹریلیا : 16 سال سے کم عمر افراد کے سوشل میڈیا استعمال پر پابندی
  • آسٹریلیا: ریستوران میں گیس کے اخراج سے ایک شخص ہلاک‘ 6 اسپتال منتقل
  • انقلاب – مشن نور
  • Self Sabotage
  •  آسٹریلیا : سطح سمندر بلند ہونے سے 15 لاکھ افراد خطرات کا شکار
  • باجوڑ آپریشن، چار گاؤں کلیئر ہونے کے بعد مکینوں کو واپسی کی اجازت
  • وزیراعلیٰ باہرنکلےتوسب کوکام کرنا پڑتا ہے، تنقید کرنے والوں کی بےبسی سمجھتی ہوں،مریم نواز
  • 15 لاکھ آسٹریوئ شہری خطرے میں: سمندر کی سطح میں خطرناک اضافے کی پیشگوئی
  • نائجیریا میں شادی کی بس حادثے کا شکار، 19 افراد ہلاک