نو عمر لڑے کی خودکشی: اوپن اے آئی کی جانب سے چیٹ جی پی ٹی پر والدین کا کنٹرول متعارف
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
امریکا کی اے آئی کمپنی اوپن اے آئی نے نوجوانوں کی ذہنی صحت پر بڑھتی تشویش کے پیشِ نظر چیٹ جی پی ٹی کے لیے والدین کے کنٹرول متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔
کمپنی کے مطابق اب والدین اپنے چیٹ جی پی ٹی اکاؤنٹس کو بچوں کے اکاؤنٹس سے منسلک کرسکیں گے، کچھ فیچرز مثلاً میموری اور چیٹ ہسٹری کو بند کرسکیں گے اور عمر کے لحاظ سے موزوں رویہ طے کرسکیں گے۔
یہ بھی پڑھیے: چیٹ جی پی ٹی کو مؤثر مواد کے لیے انسانوں کی ضرورت پڑگئی
والدین کو یہ سہولت بھی دی جائے گی کہ جب ان کا بچہ ذہنی دباؤ یا پریشانی کی کیفیت میں ہو تو انہیں نوٹیفکیشن موصول ہو۔
اوپن اے آئی نے کہا کہ یہ فیچرز آئندہ ایک ماہ کے اندر نافذ ہوں گے اور ماہرین کی رہنمائی سے مزید بہتری لائی جائے گی۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات صرف آغاز ہیں۔ آئندہ 120 دن میں ہم اپنی پیش رفت سے آگاہ کرتے رہیں گے تاکہ چیٹ جی پی ٹی کو زیادہ سے زیادہ مددگار بنایا جاسکے۔
یہ اعلان اس واقعے کے ایک ہفتے بعد سامنے آیا ہے جب کیلیفورنیا کے ایک جوڑے نے کمپنی پر مقدمہ دائر کیا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے 16 سالہ بیٹے ایڈم کی خودکشی چیٹ جی پی ٹی کے ان ڈیزائن فیچرز کا نتیجہ تھی جنہوں نے اس کے منفی اور تباہ کن خیالات کی تائید کی۔
متاثرہ والدین کے وکیل جے ایڈلسن نے اوپن اے آئی کی نئی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کمپنی اصل مسئلے کو نظر انداز کر رہی ہے۔ ان کے بقول یہ صرف بحث کا رخ موڑنے کی کوشش ہے۔ ایڈم کا معاملہ چیٹ جی پی ٹی کے کم مددگار ہونے کا نہیں بلکہ اس پروڈکٹ کے اس عمل کا ہے جس نے ایک نوجوان کو عملی طور پر خودکشی کی طرف مائل کیا۔
ماہرین پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹس کو لوگ بطور تھراپسٹ یا دوست استعمال کرنے لگے ہیں جس کے خطرناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: چیٹ جی پی ٹی اوپن اے آئی کرسکیں گے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان میں ذہنی امراض بڑھ گئے، گزشتہ سال 1 ہزار افراد کی خودکشی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک)ذہنی امراض کے حوالے سے ہونے والی ایک کانفرنس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 10 فی صد افراد منشیات کی لت میں مبتلا ہیں۔ گزشتہ سال مختلف ذہنی دباؤ کی وجہ سے تقریباً ایک ہزار افراد نے خودکشی کی۔کراچی میں ذہنی امراض کے حوالے سے 26ویں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔کانفرنس کے سائنٹیفک کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر محمد اقبال آفریدی نے بتایا کہ پاکستان میں ہر تین ہزار افراد (34 فی صد) میں سے ایک فرد جبکہ دنیا بھر میں 5 میں سے ایک فردکسی نہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خواتین میں ڈپریشن کے مسائل بہت زیادہ سامنے آرہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ خواتین کو وہ مقام نہیں مل رہا جو انکو ملنا چاہیے۔ گھریلو چپقلش کی وجہ سے خواتین شدید ڈپریشن اور انزائیٹی کا شکار رہتی ہے جبکہ نوجوان نسل میں آئس جسے دیگر نشہ آور چیزوں کے استعمال کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تواتر کے ساتھ زلزے سیلابی صورتحال کی وجہ سے ہزاروں گھر بہہ جانے اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے بھی عوام پر ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جو نفسیاتی بیماریوں کے زمرے میں آتے ہیں۔پاکستان سائیکیٹری سوسائٹی کے صدر پروفیسر واجد علی اخوندزادہ نے بتایا کہ پاکستان میں ہر چار میں سے ایک نوجوان جبکہ ہر پانچ میں سے ایک بچہ کسی نہ کسی نفسیاتی بیماریکا شکار ہے۔ پاکستان میں ایک فی صد (25 لاکھ) افراد کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہے اور یہ 25 لاکھ خاندان ہیں وہ ہیں جو معاشی، سیاسی، سیلابی سمیت دیگر وجوہات کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 10 فی صد افراد منشیات کی لت میں مبتلا ہیں اور گزشتہ سال مختلف ذہنی دباؤ کی وجہ سے تقریباًایک ہزار افراد نے خودکشی کی۔انہوں نے مزید بتایا کہ ملک میں نفسیاتی امراض پر کافی کام کرنے کی ضرورت ہے، ملک کی 24 کروڑ آبادی کے لیے صرف 90 نفسیاتی امراض کے ماہرین موجود ہیں جبکہ عالمی ادارے صحت کے مطابق 10 ہزار پر ایک نفسیاتی ڈاکٹر ہوناچاہیے۔ اس وقت ہمارے ملک میں تقریباً 5 لاکھ 500 مریض پر ایک نفسیاتی ڈاکٹر کی سہولت ہے جو ناکافی ہے۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر افضال جاوید سمیت دیگر ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان معاشی ناہمواریوں، قدرتی آفات اور مختلف ڈیزاسٹر، بے روزگاری کا شکار ہیں جبکہ سرحدوں پر جنگی صورتحال نے بھی عوام کے ذہنوں میں مختلف نفسیاتی مسائل پیدا کررکھے ہیں خاص کر نوجوان نسل موجود صورتحال کی وجہ سے مایوس نظر آتی ہے۔ان ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے ان تمام صورتحال کا جائزہ لے کر موثر حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ ملک کا نوجوان ان ذہنی مسائل سے نکل سکے۔