قومی اسمبلی سے استعفے، سیاسی کمیٹی کا فیصلہ نہیں مانیں گے، شاندانہ گلزار
اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی شاندانہ گلزار نے کہا کہ سیاسی کمیٹی کے فیصلے پر قومی اسمبلی سے استعفے نہیں ہوں گے۔ عمران خان کا فیصلہ ہی مانا جائے گا۔
نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شاندانہ گلزار کا کہنا تھا کہ اگر اسمبلیوں سے استعفے ہوں گے تو پھر قومی اسمبلی، سینیٹ کے ساتھ ساتھ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا اسمبلی سے بھی استعفے ہوں گے اور اجتماعی ہوں گے۔
ان سے پوچھا گیا کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی فیصلہ کرے کہ صرف قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینا ہے لیکن خیبر پختونخوا کی اسمبلی کو مورچے کے طور پر سنبھال کر رکھنا تو پھر آپ کا کیا ردعمل ہوگا؟
شاندانہ گلزار کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ کون مانے گا؟ عمران خان کا فیصلہ آئے گا تو مانا جائے گا۔ سیاسی کمیٹی کا فیصلہ نہیں مانا جائے گا کیونکہ اس میں زیادہ تر لوگ غیر منتخب ہیں۔
یہ بھی پڑھیے سیاسی کمیٹی میں مشکوک کردار، ہم عمران خان کو رہا نہیں کرا سکتے تو بہتر ہے مستعفی ہوجائیں، شاندانہ گلزار
واضح رہے کہ شاندانہ گلزار ماضی میں بھی اجتماعی استعفوں کی حامی رہی ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کے خلاف بیان جاری کرتی رہی ہیں۔
انہوں نے گزشتہ برس ایک ٹی وی شو میں کہا تھا کہ اگر ہم عمران خان کو جیل سے باہر نہیں نکال سکتے تو بہتر ہے کہ مستعفی ہوجائیں۔
شاندار گلزار کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی میں بہت سے مشکوک کردار ہیں، شہریار آفریدی نے استعفے کی دھمکی دی تو میں نے بھی کہا تھا کہ ہم استعفے دیں گے۔
یہ بھی پڑھیے عمران خان مردم شناس نہیں، رہنما پی ٹی آئی شاندانہ گلزار
انہوں نے کہاکہ اسمبلی میں کمیٹی کمیٹی کھیلنے اور ڈیسک بجانے سے گھر بیٹھ جانا ہی بہتر ہے، پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی میں ایسے مشکوک کردار موجود ہیں جو 9 مئی کے بعد غائب رہے۔
شاندانہ گلزار نے کہاکہ شہریار آفریدی کے بعد شیر افضل مروت نے بھی اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دینے کی بات کی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان تحریک انصاف شاندانہ گلزار.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان تحریک انصاف شاندانہ گلزار پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی شاندانہ گلزار قومی اسمبلی اسمبلی سے کا فیصلہ تھا کہ ہوں گے
پڑھیں:
بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، بے ضابطگیوں کی نشاندہی
اجلاس میں بجٹ و اکاؤنٹس کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ اور کمپلائنس رپورٹ پر غور کیا گیا، جس میں متعدد سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔ کمیٹی نے شفافیت پر زور دیتے ہوئے مختلف ہدایات جاری کیں۔ اسلام ٹائمز۔ صوبائی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی اصغر علی ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے اراکین رحمت صالح بلوچ، غلام دستگیر بادینی، ولی محمد نورزئی، فضل قادر مندوخیل، زابد علی ریکی، صفیہ بی بی، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو قمبر دشتی، ڈائریکٹر جنرل آڈٹ بلوچستان شجاع علی، ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل نورالحق، سیکرٹری بورڈ آف ریونیو جاوید رحیم، ایڈیشنل سیکرٹری پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سراج لہڑی، ایڈیشنل سیکرٹری فنانس محمد عارف اچکزئی، ڈائریکٹر آڈٹ ثناء اللہ، ایڈیشنل سیکرٹری بورڈ آف ریونیو گرداری لعل، مجیب قمبرانی کمشنر رخشان ڈویژن، ڈی سی آواران عائشہ زہری، منیر سومرو ڈی سی خاران، عظیم جان ڈی سی کوہلو، عبداللہ کھوسہ ڈی سی بارکھان، محمد حسین ڈی سی نوشکی، بہرام سلیم ڈی سی مستونگ، جمیل احمد ڈی سی قلات، مہراللہ جمالدینی ڈی سی کوئٹہ، و دیگر ڈپٹی کمشنرز اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز شریک ہوئے۔
اجلاس میں بجٹ و اکاؤنٹس کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ اور کمپلائنس رپورٹ پر غور کیا گیا، جس میں متعدد سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2016-17 میں نان ڈویلپمنٹ فنڈز کی مد میں 3,336.1 ملین روپے مختص کیے گئے تھے، جن میں سے 2,595.47 ملین روپے خرچ ہوئے جبکہ 740.6 ملین روپے کی بچت کو سرنڈر نہیں کیا گیا، جو کہ کمزور مالی نظم و نسق کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسی طرح 2019-20 اور 2020-21 کے دوران بورڈ آف ریونیو کے مختلف دفاتر کی جانب سے 33.736 ملین روپے کے اخراجات کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا جس کے باعث اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال ممکن نہ ہو سکی۔ کمیٹی نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
مزید برآں کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2020-21 اور 2021-22 میں مختلف ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر کی جانب سے 19,144.236 ملین روپے سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے بجائے مختلف بینک اکاؤنٹس میں رکھے گئے، جو قواعد و ضوابط کے منافی ہے۔ کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ 2019-21 کے دوران عشر، آبپاشی ٹیکس (ابانہ) اور زرعی انکم ٹیکس کی مد میں 1,101.469 ملین روپے کی وصولی نہیں کی گئی جس سے سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچا۔ مزید انکشاف ہوا کہ 2019-22 کے دوران مختلف کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر کی جانب سے 228.964 ملین روپے کے اخراجات ڈی ڈی اوز کے نام پر چیک جاری کیے گئے، بجائے اس کے کہ ادائیگی براہ راست وینڈرز کو کی جاتی۔ یہ عمل بھی قواعد و ضوابط کے برخلاف قرار دیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بجٹ کی بچت بروقت سرنڈر کرنا لازمی ہے اور آئندہ ایسی غیر شفاف مالی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔
اراکین کمیٹی نے ہدایت کی کہ تمام ریکارڈ فوری طور پر آڈٹ اور پی اے سی کو برائے تصدیق فراہم کیا جائے، غیر قانونی طور پر روکے گئے فنڈز کو سرکاری خزانے میں جمع کرایا جائے اور ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ کئی کیسز میں انکوائری کا حکم جاری کیا گیا۔ پی اے سی ممبرز نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا کہ 2020 میں کیے گئے پی اے سی کے احکامات پر تاحال متعدد ڈپٹی کمشنرز نے عملدرآمد نہیں کئے۔ پی اے سی نے فیصلہ کیا کہ اگر ایک ماہ کے اندر پرانے اور نئے کیسز پر دیئے گئے احکامات پر عمل نہیں کیا گیا تو مذکورہ ڈپٹی کمشنرز اور کمشنرز کے خلاف سخت فیصلے کیے جائیں گے۔ آخر میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے واضح کیا کہ قواعد و ضوابط کے بغیر مالی نظم و نسق بہتر نہیں ہو سکتا اور اس ضمن میں غفلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔