راولپنڈی: چکوال روڈ پر ٹرالر دکان میں گھس گیا، ایک شخص جاں بحق، تین زخمی
اشاعت کی تاریخ: 16th, September 2025 GMT
راولپنڈی کی تحصیل گوجرخان کے علاقے مندرہ چکوال روڈ پر ٹرالر بریک فیل ہونے کے باعث ڈرائیور سے بے قابو ہوکر دکان میں گھس گیا حادثے کے نتیجے میں ٹرالر سوار ایک شخص جاں بحق اور تین زخمی ہوگئے۔
ریسکیو 1122 کے حکام کے مطابق مندرہ چکوال روڈ پر ٹرالر اچانک بریک فیل ہونے کے باعث ڈرائیور سے بے قابو ہوا اور مارکیٹ کے بنی دکان کے فرنٹ کو توڑتا ہوا اندر گھس گیا حادثے کے نتیجے میں ٹرالر سوار 28 سالہ اکبر محمود جاں سر پرشدید چوٹ لگنے سے دم توڑ گیا۔
حادثے میں تین افراد 26 سالہ کامران الطاف ،18 سالہ محمد عمر ،22 سالہ ثاقب نواز زخمی ہوگئے، ریسکیو 1122 نے زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کر کے ڈیڈ باڈی سمیت اسپتال منتقل کردیا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ایئر انڈیا طیارہ حادثہ: جاں بحق مسافروں کے لواحقین نے امریکی کمپنیوں پر مقدمہ دائر کر دیا
ایئر انڈیا کے ایک طیارے کو پیش آنے والے تین ماہ پرانے خوفناک حادثے کے بعد، جاں بحق مسافروں کے اہل خانہ نے انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے۔ مقدمہ امریکی ریاست ڈیلویئر کی سپیریئر کورٹ میں دائر کیا گیا ہے، جس میں دو معروف امریکی کمپنیوں — بوئنگ اور ہنی ویل — کو حادثے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
فیول سوئچز پر سوال، تحقیقات کی گونج
متاثرہ خاندانوں کا دعویٰ ہے کہ طیارے میں نصب فیول سوئچز میں خرابی حادثے کی بڑی وجہ بنی۔ ان سوئچز کی تیاری ہنی ویل نے کی تھی، جبکہ طیارہ بوئنگ کا تیار کردہ تھا۔ مقدمے میں 2018 کی امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (FAA) کی ایک رپورٹ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ بوئنگ کے متعدد طیاروں میں فیول کٹ آف سوئچز کے لاکنگ میکانزم کی جانچ ضروری ہے۔
اہل خانہ کا مؤقف ہے کہ ان سفارشات کے باوجود ایئر انڈیا نے معائنے کا عمل مکمل نہیں کیا، جس کی وجہ سے یہ جان لیوا حادثہ پیش آیا۔
کاک پٹ ریکارڈنگ میں اہم انکشاف
حادثے کی تحقیقات کے دوران سامنے آنے والی کاک پٹ ریکارڈنگ میں انکشاف ہوا کہ پائلٹ نے غلطی سے انجنز کو فیول کی فراہمی روک دی تھی۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ سوئچز کا مقام اس طرح تھا کہ وہ غلطی سے دب سکتے تھے۔ تاہم، کچھ ایوی ایشن ماہرین نے اس امکان کو سوئچ کے “ڈیزائن” کی بنیاد پر مسترد کیا ہے۔
بوئنگ اور ہنی ویل کی خاموشی
تاحال بوئنگ اور ہنی ویل نے اس مقدمے یا حادثے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔
بھارتی تحقیقاتی رپورٹ کا مؤقف
بھارت کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں بوئنگ اور انجن بنانے والی کمپنی GE ایروسپیس کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا، جبکہ رپورٹ کا فوکس زیادہ تر پائلٹس کی کارکردگی پر رہا۔ تاہم، متاثرہ خاندان اس نقطہ نظر سے مطمئن نہیں اور اس تحقیق کو نامکمل اور یکطرفہ قرار دے رہے ہیں۔
پہلا مقدمہ، پہلا قدم
یہ حادثے سے متعلق امریکا میں دائر ہونے والا پہلا مقدمہ ہے، جس میں چار جاں بحق افراد — کانتابین دھیرُبھائی پگھڈال، ناویا چرگ پگھڈال، کوبربھائی پٹیل، اور بابیبین پٹیل — کے لواحقین نے معاوضے کا باقاعدہ مطالبہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ اس المناک حادثے میں: 229 مسافر 12 عملے کے ارکان 19 زمینی افراد
ہلاک ہوئے تھے، جب کہ صرف ایک مسافر زندہ بچ پایا تھا۔
امریکی عدالتیں: متاثرین کے لیے امید کی کرن
قانونی ماہرین کے مطابق، متاثرہ خاندان عموماً مینوفیکچررز (جیسے بوئنگ یا ہنی ویل) کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہیں، کیونکہ:
ایئرلائنز پر قانونی طور پر ہرجانے کی حد مقرر ہوتی ہے۔
جبکہ مینوفیکچررز پر ایسی کوئی حد لاگو نہیں ہوتی۔
اس کے علاوہ، امریکی عدالتیں متاثرین کے ساتھ نسبتاً زیادہ ہمدردانہ رویہ اختیار کرتی ہیں، جس سے بہتر معاوضے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
Post Views: 6