Express News:
2025-09-23@00:02:40 GMT

غزہ اور میڈ ان انڈیا

اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT

ایسے وقت جب نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ بین الاقوامی جرائم کی عدالت کے اشتہاری ہیں۔ایسے وقت جب اقوامِ متحدہ بھی باضابطہ طور پر تسلیم کر چکا ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مجرم ہے۔ ایسے وقت جب اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر بن گویر اور وزیرِ خزانہ بیزلل سموترخ کو کھلی نسل پرستانہ نسل کشی کی وکالت کے سبب برطانیہ ، کینیڈا ، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، ناروے ، نیدر لینڈز ، آئرلینڈ اور سلووینیا نے ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر اپنے ہاں دونوں کی آمد پر پابندی لگا دی ہے۔

 ایسے وقت جب اسپین نے اسرائیل سے تجارتی و دفاعی تعلقات منقطع کر لیے ہیں اور دو ٹریلین ڈالرز کے مالک نارویجن ویلتھ فنڈ نے چونتیس اسرائیلی کمپنیوں میں سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور اسرائیل کو بلڈوزر فراہم کرنے والی سب سے بڑی عالمی امریکی کمپنی کیٹرپلر سے بھی انویسٹمنٹ اس بنا پر نکال لی ہے کہ کیٹر پلر بلڈوزر فلسطینیوں کی بے گھری اور نسل کشی میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ایسے وقت بھارت نے اسرائیل کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔

منافقت یہ ہے کہ مودی حکومت اب بھی کاغذ پر دو ریاستی حل کی حامی ہے مگر دلی میں آپ فلسطین کے حق میں اگر آج احتجاجی مظاہرہ کرنے کی کوشش کریں تو پولیس لاٹھی چارج کے لیے تیار ہے۔البتہ آپ اسرائیل کے حق میں جلوس نکالنا چاہتے ہیں تو پولیس آپ کو سیکیورٹی دینے پر بھی تیار ہے۔

جب سے مودی حکومت آئی ہے۔کسی بھی بین الاقوامی فورم پر فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف ہر قرار داد پر بھارت نے غائب رہنے میں ہی عافیت جانی۔حتی کہ گزشتہ برس اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرار داد بھاری اکثریت سے منظور کی تو بھارت نے خود کو غیر حاضر ظاہر کیا۔

بھارت نے شنگھائی تعاون تنظیم ( ایس سی او )  کے وزرائے خارجہ اجلاس میں ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت سے انکار کر دیا۔لیکن جب ٹرمپ نے بھارتی مصنوعات پر پچاس فیصد محصول لگایا تو چین میں ایس سی او کے سربراہ اجلاس کے اعلان نامے پر بھارت نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔اس اعلامیے میں ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت بھی شامل تھی۔

اسرائیل میں جو غیر ملکی زیرِ تعلیم ہیں ان میں سب سے بڑی تعداد بھارتی طلبا کی ہے۔سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے بعد اسرائیلی زراعت و صنعت میں کام کرنے والے ڈیڑھ لاکھ فلسطینی کارکنوں کے اجازت نامے منسوخ کر دیے گئے۔ان کی جگہ بھرنے کے لیے بھارت سے لگ بھگ ایک لاکھ کارکنوں کو بھرتی کیا گیا۔

بھارت اسرائیلی ہتھیار خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ پاکستان کے ساتھ سات تا دس مئی معرکے میں بھارت نے اسرائیلی ساختہ ہیرون ڈرونز اور میزائیل کھل کے استعمال کیے۔

گزشتہ برس چھ جون کو اسرائیل نے غزہ میں اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام ناصریہ پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی۔ایک میزائیل کے ٹکڑے پر لکھا تھا ’’ میڈ ان انڈیا ‘‘۔یہ تصویر دنیا بھر میں شایع اور نشر ہوئی۔

تب دنیا کو ٹھیک سے معلوم ہوا کہ بھارت اسرائیل کو کیا کیا فراہم کر رہا ہے۔گزشتہ برس اپریل میں چنئی کی بندرگاہ سے روانہ ہونے والے دو بحری جہازوں کی ٹریکنگ سے معلوم ہوا کہ ان جہازوں کی منزل غزہ سے متصل اسرائیلی بندرگاہ اشدود تھی۔بورکم اور ماریانا ڈنیکا نامی دونوں جہازوں کو اسپین نے اپنی بندرگاہوں پر عارضی قیام کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ان جہازوں پر راکٹوں کے دھماکا خیز چارجرز اور انجنوں کے علاوہ بارودی مواد اور بھاری توپوں کے فاضل پرزے بھی لدے ہوئے تھے۔ یہ جہاز یمنی ہوثیوں کی بحری ناکہ بندی سے بچنے کے لیے نہر سویز کے مختصر راستے کے بجائے افریقہ کے گرد لمبا چکر کاٹ کے براستہ بحیرہ روم اسرائیل جا رہے تھے۔

اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کے مطابق اسرائیل کے براک میزائیلوں کے لیے موٹرز بھارت کی پریمیر ایکسپلوسیوز لمیٹڈ نامی کمپنی تیار کرتی ہے۔یہ کمپنی آر ڈی ایکس اور ایچ ایم ایکس دھماکا خیز مواد بھی فوجی مقاصد کے لیے برآمد کرتی ہے۔حیدرآباد میں اڈانی ڈیفنس اینڈ ایرو سپیس اور اسرائیلی کمپنی ایلبیت کی مشترکہ فیکٹری میں مسلح ہرمیس ڈرونز تیار ہوتے ہیں۔

بھارت اور اسرائیل میں دفاعی آلات کی تجارت اور ساجھے داری انیس سو ننانوے کی کرگل جنگ کے زمانے میں شروع ہوئی جب اسرائیل نے ہنگامی طور پر بھارت کو گولہ بارود اور فاضل پرزوں کی رسد فراہم کی۔لائن آف کنٹرول اور چین بھارت سرحد پر اسرائیل نے الیکٹرونک سنسرز کی باڑھ لگانے میں بھی بھرپور ساتھ دیا۔

وزیرِ اعظم ایتزاک رابین ، ایریل شیرون اور نیتن یاہو نے دلی کے متعدد دورے کیے جب کہ نریندر مودی نے دو ہزار سترہ میں پہلی بار اسرائیل کا سرکاری دورہ کیا۔( مودی اور نیتن یاہو دو دو بار ایک دوسرے کے ہاں آ جا چکے ہیں )۔

یقین نہیں آتا کہ یہ وہی بھارت ہے جہاں وزیرِ اعظم اندراگاندھی کو یاسر عرفات نے منہ بولی بہن قرار دیا تھا۔ بھارت غیر جانبدار تحریک کا پہلا ملک تھا جس نے انیس سو چوہتر میں پی ایل او کو فلسطینیوں کی نمایندہ تنظیم اور انیس سو اٹھاسی میں فلسطین کو بطور آزاد ریاست تسلیم کیا۔کانگریس آج بھی اسرائیل مخالف فلسطین نواز نظریے پر کاربند ہے البتہ ریاستی بیانیہ اس معاملے پر ایک سو اسی ڈگری گھوم چکا ہے۔

 ایسے وقت جب غزہ کے المیے کے سبب متعدد یورپی اور گلوبل ساؤتھ ممالک اسرائیل کے ساتھ تجارت سے کنی کترا رہے ہیں۔ بھارت اور اسرائیل کی دو طرفہ تجارت کا حجم تقریباً چار ارب ڈالر سالانہ ہے۔جب کہ مشترکہ سرمایہ کاری کا حجم تقریباً آٹھ سو ملین ڈالر ہے۔

 ایسے ماحول میں جب اسرائیل اپنی حرکتوں کے سبب دنیا میں سفارتی و سیاسی سطح پر تیزی سے تنہا ہو رہا ہے۔نسل پرست اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزلیل سموترخ نے تین ہفتے پہلے دلی میں بھارتی ہم منصب نرملا سیتا رمن کے ساتھ دفاع ، سائبر سیکیورٹی اور اعلیٰ ٹیکنالوجی میں ساجھے داری کے متعدد تازہ سمجھوتوں پر دستخط کیے۔بھارتی وزیرِ خزانہ نے بیزلیل کے دورے اور نئے سمجھوتوں کو دو طرفہ تعلقات کی نئی تاریخ رقم کرنے کے مترادف قرار دیا۔

اور پھر پاک سعودی دفاعی ساجھے داری کی خبر دلی پر گر پڑی۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور اسرائیل ایسے وقت جب اسرائیل کے بھارت نے کے لیے

پڑھیں:

چین کا اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے بیان پر ردعمل

چین نے اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو کی جانب سے لگائے گئے اُس الزام کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بعض ممالک، بشمول چین، اسرائیل کے خلاف اطلاعاتی ناکہ بندی کر رہے ہیں۔
چین کے سرکاری اخبار’’گلوبل ٹائمز‘‘ کے مطابق اسرائیل میں چینی سفارتخانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ نیتن یاہو کے الزامات نہ صرف بنیادی طور پر غلط ہیں بلکہ چین،اسرائیل تعلقات کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ چین کو ان الزامات پرگہری تشویش ہے اور وہ ان کی سخت مخالفت کرتا ہے۔ چینی سفارتخانے نے واضح کیا کہ سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کو چین سے جوڑنا درست نہیں، اور نہ ہی یہ چین کی سرکاری پالیسی کی نمائندگی کرتا ہے۔
یہ ردعمل اُس وقت سامنے آیا جب وزیرِاعظم نیتن یاہو نے حالیہ دنوں میں یہ دعویٰ کیا کہ بعض عالمی طاقتیں، خاص طور پر چین، مصنوعی ذہانت اور سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
چینی سفارتخانے نے اسرائیلی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ غزہ میں جاری انسانی بحران کو محض فوجی طاقت سے حل کرنے کے بجائے سیاسی دانشمندی اور سفارتی حکمتِ عملی اپنائے۔ ساتھ ہی کہا گیا کہ دنیا بھر میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے، جسے اسرائیل کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
بیان کے آخر میں چین نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ میں فوجی کارروائیاں بند کر کے فوری اور مکمل جنگ بندی پر رضامند ہو، تاکہ علاقے میں تباہ کن انسانی بحران کو روکا جا سکے۔

Post Views: 8

متعلقہ مضامین

  • حماس کی ٹرمپ کو خط کے ذریعے جنگ بندی کی بڑی پیشکش، خطے میں امن کی نئی امید
  • اسرائیلی ڈرون حملہ: لبنان میں 3 بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے 5 افراد جاں بحق
  • بھارت کے خلاف حارث رؤف کا شائقین کو 0-6 کا اشارہ، وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس حرکت پر کیا کہا؟
  • اسرائیل کو جنگ بندی کا پابند کیاجائے‘سنی تحریک
  • اسرائیل اور شام میں مذاکرات پر نیتن یاہو کا اہم بیان
  • حماس ناقابل شکست ہی نہیں گوریلا جنگ میں کامیاب بھی ہے، نیویارک ٹائمز
  • ’عمان کا بھارت کیخلاف شاندار کھیل‘، پاکستان کیا سیکھ سکتا ہے؟
  • ’آج قطر، کل ترکیہ‘، کیا اسرائیل اگلا ہدف استنبول ہے؟
  • چین کا اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے بیان پر ردعمل